غزہ پر اسرائیلی قبضہ کا اعلان اور اس کے خفیہ مقاصد: ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو جو کہ غزہ میں جاری اپنی نوعیت کی نہایت بدترین بربریت کے ارتکاب کی وجہ سے جنگی جرائم کے ایک مجرم کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں اور عالمی برادری کی آزاد اور انصاف پسند قومیں جن کو بچوں اور خواتین کے قاتل کے طور پر یاد کرکے ان کی جگہ جیل میں مناسب سمجھتی ہیں انہوں نے اپنے ایک حالیہ فیصلہ سے سب کو دوبارہ سکتہ میں ڈال دیا ہے۔نیتن یاہو کی سرکار نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ غزہ پر مکمل طور پر قبضہ جمایا جائے گا اور اس کو اسرائیل کے زیر انتظام لایا جائے گا۔ اس فیصلہ کے اعلان کے بعد ایک شور دنیا بھر میں اٹھ کھڑا ہوا اور ہر طرف سے تنقید و استنکار کی صدائیں بلند ہونے لگی ہیں۔ حالانکہ زمینی سطح پر اس شور اور ہنگامہ کا کوئی خاص اثر اب اسرائیل پر نہیں ہوتا ہے اور اہل فلسطین کے خلاف اس کے مظالم کی فہرست طویل سے طویل تر ہی ہوتی جاتی ہے۔ البتہ جو پہلو خود اسرائیلی حکومت کے لئے چونکا دینے والا رہا ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیلی فوج اور انٹیلی جینس کے اداروں نے بھی اسرائیلی کابینہ کے اس فیصلہ کی مخالفت کی ہے اور اس کے دور رس نتائج سے خبردار کیا ہے۔ ایسے میں یہ سمجھ پانا بظاہر مشکل نظر آتا ہے کہ جب خود اسرائیلی فوج کے سربراہ تک نے یہ مشورہ دیا ہے کہ غزہ پر قبضہ نہ کیا جائے تو اس کو برطرف رکھ کرنیتن یاہو کی سرکار آخر جنگ کا دائرہ بڑھانے اور نئے علاقوں کو اپنے قبضہ میں لانے کا فیصلہ کیوں لے رہی ہے؟

اس تناظر میں اس بات کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ سب سے پہلے اسرائیلی فوج کے حالیہ سر براہ یال زامیر نے ہی غزہ پر قبضہ جمانے کا تصور پیش کیا تھا، اسی نے اس کی باریک سے باریک تفصیلات پر مہر تصدیق ثبت کی تھی اور اس کو آخری شکل میںنیتن یاہو کے سامنے پیش کیا تھا۔ لیکن اس کے بعد یال زامیر کی رائے اس سلسلہ میں بدل گئی۔ خود زامیر کے بقول جب انہوں نے اپنے پلان پر نظر ثانی کی، اس کی تفصیلات کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور اس کی وجہ سے پیش آنے والے خطرات کو قریب سے جانچا اور پرکھا تو انہیں اندازہ ہوا کہ اس منصوبہ کو بدل کر اس کی جگہ کوئی دوسری چیز لانی ضروری ہے۔ یال نے نیتن یاہو کو بھی خبردار کرتے ہوئے بتایا کہ غزہ پر قابض ہونے کے نتیجہ میں پہلا مسئلہ تو یہ پیدا ہوگا کہ حماس کے قبضہ میں جو اسرائیلی قیدی ہیں ان کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ اس سے وابستہ دوسرا خطرہ یہ ہے کہ بڑی تعداد میں اسرائیلی فوج کے سپاہی مارے جائیں گے۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق نیتن یاہو پر ان باتوں کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا اور کابینہ کی میٹنگ کے بالکل آخری لمحہ میں غزہ پر قبضہ کا فیصلہ لیا گیا۔ حالانکہ اس سے قبل غزہ پر صرف عارضی کنٹرول کی بات کی جا رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کابینہ کے اس فیصلہ کے پیچھے فریب و گمراہی کے کئی پہلو پوشیدہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی کابینہ نے صہیونی فوج کو پورے دو مہینے کا وقت دیا ہے کہ وہ غزہ پر قابض ہونے کی تیاری کرے۔ اس دوران اس کو یہ موقع دیا گیا ہے کہ وہ اس منصوبہ کو بروئے کار لانے سے قبل حصار کا دائرہ قائم کرے اور مزاحمت کاروں سے نبرد آزما رہے۔ ساتھ ہی فلسطینیوں کو ان کے علاقوں سے نکلنے پر مجبور کرے البتہ قبضہ کے پلان کو فی الوقت نافذ نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے انتہا پسند وزیر اسماٹریچ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نیتن یاہو کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے اور وہ ابھی بھی روایتی پالیسی کے دائرہ میں ہی کام کر رہے ہیں۔ اس روایتی پالیسی کے تحت حماس کے خلاف فیصلہ کن جنگ بھی نہیں کرنا ہے اور بات چیت کے دروازہ کو بھی کھولے رکھنا ہے۔

یہاں اس بات کو مستبعد نہیں سمجھا سکتا ہے کہ جو وقت اسرائیلی فوج کے لئے طے کیا گیا ہے وہ فریب کن ہو، کیونکہ اسرائیل اساسی طور پر اپنی پالیسیوں میں جنگی فریب کے اصول پر گامزن ہے۔ جنگ کے بالکل آغاز سے ہی اسرائیل نے اسی طرز پر کام کیا ہے۔ اس نے حزب اللہ، ایران اور شام ہر ایک کے ساتھ اسی پالیسی کو نافذ کر رکھا ہے۔ اس کا مطلب نیتن یاہو ابھی بھی اسی نہج کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور حماس کو بس جھٹکے پر جھٹکا دینا چاہتے ہیں۔ ایسی صورت میں اسرائیلی کابینہ کے غزہ پر قابض ہونے کے فیصلہ کا بنیادی عنصر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے نیتن یاہو کو ذاتی اور سیاسی پہنچے گا۔ نیتن یاہو یہ چاہتے ہیں کہ جنگ کی آگ جلتی رہے کیونکہ اس کی لو جتنی دیر تک جلے گی اتنی ہی طویل مدت تک وہ سرکار میں بنے رہیں گے۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ جس دن جنگ بند ہوجائے گی اسی دن سے ان کے خلاف اندرونی سطح پر ایک نئی جنگ کا آغاز ہوجائے گا اور ان کی حکومت کو گرانے کی کوششیں اس قدر تیز ہوجائیں گی کہ اس سے بچ پانا ممکن نہیں ہوگا۔ نیتن یاہو کو ذاتی طور پر یہی وہ خطرہ ہے جو انہیں مستقل ستا رہا ہے اور اسی لئے کسی نہ کسی بہانہ سے وہ جنگ کی میعاد کو بڑھاتے رہنا چاہتے ہیں۔ اپنے اس ذاتی مفاد کی خاطر وہ اسرئیلی فوجیوں اور قیدیوں کو بھی قربان کرنے سے نہیں ہچک رہے ہیں۔

جب سے غزہ پر قابض ہونے کا منصوبہ زیر بحث آیا ہے تب سے نیتن یاہو کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور ہر حال میں اس کو نافذ کرنے پر مصر رہے ہیں۔ اسرائیلی بریگیڈیئر ایریز فائنر کے بقول یہ منصوبہ ایک سال قبل ہی تیار کیا جا چکا تھا۔ اس وقت فوج کے سربراہ ہرزی ہالیوی ہوا کرتے تھے۔ اس منصوبہ کو دیکھتے ہی نیتن یاہو کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں اور وہ اس منصوبہ کو نافذ کرنے کے لئے پرجوش نظر آنے لگے تھے کیونکہ اس میں ان کے اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل کے آثار صاف نظر آ رہے تھے۔ اس وقت سے ہی نیتن یاہو نے اس پلان کو حرزِ جاں بنا رکھا ہے اور اس کے نفاذ پر لگاتار زور دیتے رہے ہیں، لیکن ہالیوی نے اس منصوبہ کو نافذ کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ یال زامیر کی طرح ہالیوی کو بھی لگتا تھا کہ اس سے اسرائیلی قیدیوں اور فوجیوں کو سخت نقصان پہنچے گا۔

کہا جاتا ہے کہ ہالیوی کے استعفیٰ کے پیچھے نیتن یاہو کے اس منصوبہ کے نفاذ سے انکار کو بڑا دخل تھا اور ان کی جگہ زامیر کو لایا ہی اسی لئے گیا تھا کہ شاید نیتن یاہو کی اس دیرینہ تمنا کو وہ پورا کر سکیں۔ فائنر کا کہنا ہے کہ زامیر نے اس منصوبہ کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور اس کی تفصیلات کی تہہ تک گئے اور نیتن یاہو کے ساتھ مل کر اس کے نفاذ کی سمجھ بھی تیار ہوگئی تھی، لیکن جب زامیر زمینی حقائق سے روبرو ہوئے اور میدان میں موجود افسران سے ملنا جلنا شروع کیا تو انہوں نے زامیر کو اس منصوبہ کے خطرات سے آگاہ کیا۔ زامیر کو خود بھی فوج کے حالات اور جنگ سے ان کی مایوسی کا اندازہ ہونے لگا۔ زامیر کو محسوس ہوا کہ اسرائیلی فوج کو لگتا ہے کہ اس جنگ کا کوئی اسٹراٹیجک مقصد نہیں ہے اور اس کے باوجود رکے بنا ہی چلتی جا رہی ہے۔ زامیر کو یہ بھی سننے میں آیا کہ اس منصوبہ کے نفاذ کی صورت میں جانی اور مالی نقصانات کے علاوہ عوامی اور عالمی سطح پر بھی سخت ردعمل کا سامنا کرنا ہوگا۔ ان باتوں کو سننے کے بعد زامیر نے ایک متبادل منصوبہ تیار کیا جس کے مطابق تین علاقوں میں فلسطینیوں پر حصار قائم کیا جائے گا اور انہیں جنوب کی جانب دھکیلا جائے گا تاکہ وہ اپنے علاقوں سے کوچ کر جائیں۔

ساتھ ہی حماس کے مزاحمت کاروں پر محدود ضربیں لگائی جائیں گی تاکہ ان کے کنٹرول والے علاقوں کو ختم کیا جائے لیکن پورے طور پر ان پر قبضہ نہ جمایا جائے۔جب نیتن یاہو کے سامنے یہ متبادل منصوبہ پیش کیا گیا تو انہوں نے ماننے سے انکار کردیا اور غزہ پر مکمل قبضہ کے علاوہ کسی بات پر راضی نہیں ہوئے۔ فوجی سربراہ سے اختلاف کرتے ہوئے نیتن یاہو اپنے اس فیصلہ کے ڈریعہ دراصل انتہا پسند صہیونیوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ سیاسی قیادت ہی حقیقی قیادت ہے اور فوجی قیادت اس کے حکم کے ماتحت ہے۔ لیکن حقیقت میں نیتن یاہو کو معلوم ہے کہ اس منصوبہ کے نفاذ کے نتیجہ میں ان کا حکومت میں باقی رہنے کا مقصد حل ہوجائے گا۔ ساتھ ہی اس جوڈشیل نظام کے خلاف بغاوت کا عمل بھی پورا ہوجائے گا جس کی تلوار ہمیشہ ان کی گردن پر لٹکتی رہتی ہے۔ غزہ پر قابض ہونے کے لئے اسرائیلی کابینہ نے فوج کے لئے جو مدت طے کی ہے اس کے مطابق دو مہینے تیاری کے لئے ہیں جبکہ تین مہینے زمینی جنگ کی کارروائیوں کے لئے ہیں۔ اس کے بعد دو سال کی مدت غزہ پر مکمل قبضہ کے لئے عطا کی گئی ہے۔ اتنی مدت نیتن یاہو کے سرکار میں بنے رہنے کے لئے کافی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس منصوبہ کے بہانہ وہ اکتوبر 2026 میں ہونے والے عام انتخابات کو ٹالنے کے پلان پر بھی کام کر سکتے ہیں۔

غزہ پر قابض ہونے کے یہی وہ خفیہ مقاصد ہیں جن کو بروئے کار لانے کے لئے نیتن یاہو سخت محنت کر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نیتن یاہو اپنے ان مقاصد میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کی رضامندی کے علاوہ خود اسرائیلی عوام، پڑوسی ممالک اور عالمی برادری کے ردعمل کو اس کے نفاذ اور عدم نفاذ میں بڑا دخل ہوگا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ کام نیتن یاہو کے لئے آسان بالکل نہیں ہوگا، کیونکہ جس طرح سے ہر محاذ پر نیتن یاہو کے اس منصوبہ کو تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود ٹرمپ کی جانب سے ملی ہری جھنڈی کا رنگ زرد یا سرخ ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ اسرائیلی عوام کا دباؤ بھی تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا ہے اور جمعہ کے روز تل ابیب میں امریکی سفارت خانہ کے سامنے حماس کے قبضہ میں موجود قیدیوں کے اہل خانہ کا مظاہرہ بھی یہ بتاتا ہے کہ وہ نیتن یاہو کے اس منصوبہ کی پاداش میں اپنے عزیزوں کی قربانی دینا گوارہ نہیں کریں گے۔

(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS