ووٹ کی چوری یا جمہوریت کا قتل؟

0

جمعرات 7 اگست 2025 کو قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن پر جو بجلی گرا ئی اس نے نہ صرف انتخابی سالمیت پر سوالیہ نشان لگا دیا بلکہ جمہوریت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیاہے۔ ان کے الزامات نے ایک ایسے نظام کی کھوکھلی بنیادوں کو بے نقاب کر دیا ہے جو عوامی مرضی کی نمائندگی کا دعویٰ کرتا ہے۔
مہاراشٹر کے انتخابات میں 40 لاکھ سے زائد مشتبہ ووٹرز کا معاملہ ہو یا کرناٹک کے مہادیو پورہ حلقے میں ایک لاکھ سے زیادہ فرضی ووٹروں کا انکشاف،راہل گاندھی نے جو اعداد و شمار پیش کیے ہیں،وہ کسی بھی ذی شعور شہری کیلئے تشویش کا باعث ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ صرف مہادیو پورہ اسمبلی حلقے میں 6.5لاکھ ووٹوں میں سے 1,00,250 ووٹوں کی بڑے پیمانے پر چوری ہوئی،جس میں 11,965 ڈپلی کیٹ ووٹر،40,009 جعلی پتے والے ووٹر، 10,452 ’’بلک ووٹر‘‘(واحد پتے پر متعدد ووٹرز)، 4,132 ووٹروں کی غلط تصاویر اور 369 نئے ووٹرز کے فارم 6 میںبے ضابطگیاںشامل ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جو الیکشن کمیشن کے اپنے ڈیٹا سے اخذ کیے گئے ہیںپھر بھی کمیشن نے چھ ماہ تک کانگریس کی ٹیم کو الیکٹرانک ووٹر لسٹ فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔

الیکشن کمیشن کا رویہ تو اور بھی شرمناک ہے۔ راہل گاندھی کے مطابق،کمیشن نے جان بوجھ کرنان مشین ریڈ ایبل دستاویزات فراہم کیں تاکہ ڈیٹا کا تجزیہ ناممکن بنایا جاسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن ڈیٹا الیکٹرانک شکل میں دیتا تو ہمیں فرضی ووٹروں کا پتہ لگانے میں 30 سیکنڈ لگتے مگر کاغذی دستاویزات کے ذریعے یہ عمل چھ ماہ تک کھینچ دیا گیا۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ کمیشن شفافیت سے گریز کر رہا ہے۔

2024 کے انتخابات میںایگزٹ پول اور نتائج کے تضاد پر بھی سنجیدگی سے غور ہونا چاہیے۔ مہاراشٹر اور ہریانہ میںجہاں کئی ایگزٹ پولز کانگریس یا مہا وکاس اگھاڑی کی جیت دکھا رہے تھے، وہاں نتیجہ نہ صرف مختلف نکلا بلکہ اتنا مختلف نکلا کہ شکوک و شبہات کو تقویت ملے بغیر چارہ نہ رہا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ہر بار نتائج اسی کے حق میں جاتے ہیں جو برسراقتدار جماعت ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہر بار ایگزٹ پول ہی غلط ثابت ہوں،یا پھر کچھ اور گڑبڑ ہے جسے چھپایا جا رہا ہے؟

کرناٹک کے چیف الیکٹورل آفیسر کا راہل گاندھی سے ان کے الزامات پر حلف نامہ طلب کرنابھی ایک مضحکہ خیز موڑ ہے۔ اس پر راہل گاندھی نے واضح طور پر کہا ہے کہ میں ایک سیاستداں ہوں، میرا لفظ ہی میرا حلف ہے۔ یہ ڈیٹا آپ کا ہے، ہم نے صرف اسے عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ اگر ہم غلط ہیں تو بتائیں کہ کہاں غلط ہیں؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے اب تک ان اعداد و شمار کی تردید تک نہیں کی۔

اس سارے قضیے کا ایک اور خطرناک پہلو بھی حکومت مخالف لہرہے۔ راہل گاندھی نے ایک بنیادی سوال اٹھایا کہ دنیا کے تمام جمہوری نظاموں میں حکومت مخالف رجحان ہوتا ہے،لیکن یہاں بی جے پی ہر بار اس لہر سے محفوظ کیسے رہتی ہے؟ کیا یہ محض ان کی کارکردگی کا کمال ہے یا نظام کی دراڑیں انہیں بچا رہی ہیں؟ اگر ووٹر لسٹ میں جعلی نام ہوں، اگر ایک شخص کئی بار ووٹ ڈال سکے،اگر اصل ووٹ ڈالنے والوں کو ہی لسٹ سے نکال دیا جائے،تو پھر بی جے پی یا کسی بھی جماعت کی فتح کا مطلب جمہوریت کی جیت نہیں،بلکہ اس کی شکست ہوگی۔

اس وقت ملک ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ایک طرف الیکشن کمیشن ہے، جو آئینی ادارہ ہے اور جسے مکمل غیرجانبداری سے اپنے فرائض ادا کرنے چاہئیں دوسری طرف اپوزیشن ہے،جو جمہوری توازن کیلئے ناگزیر ہے، لیکن اسے ہر بار سازش کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور تیسری طرف عوام ہیں جو ان دونوں کے درمیان سچ تلاش کرنے کی کوشش میں بے یقین اور مایوس ہو چکے ہیں۔

اگر راہل گاندھی کے الزامات سچے ہیں تو یہ محض ووٹ کی چوری نہیں بلکہ جمہوریت کا قتل ہے۔ اور اگر یہ الزامات غلط ہیںتو پھر الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ شفاف طریقے سے،عوام کے سامنے حقائق رکھے،ڈیٹا جاری کرے اور ہر اس نکتے کا جواب دے جو راہل گاندھی نے اٹھایا ہے۔ خاموشی اب کوئی جواب نہیں،بلکہ خود ایک جرم ہے۔ یہ وقت ہے کہ الیکشن کمیشن خود کو عوامی اعتماد کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کرے اور ثابت کرے کہ وہ بی جے پی یا کسی اورجماعت کا نہیں، صرف آئین کا وفادار ہے۔ بصورت دیگر آنے والے انتخابات میں ہر ووٹ کے ساتھ ایک سوال بھی ڈالا جائے گاکہ کیا میرا ووٹ واقعی گنا گیایا کہیں بیچ میں چوری ہوگیا؟

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS