عبدالماجد نظامی
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اپنی طبیعت کی بوالعجبی کے لیے معروف ہیں۔ ان کی کسی بات کے بارے میں پورے اعتماد کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنی رائے پر قائم رہیں گے۔ جس طرح کوئی الہڑ اور بد مست ہوا اپنا رخ اور سمت بڑے بے تکے انداز میں بدلتی ہے، اسی طرح امریکی صدر بھی اپنا تیور اور انداز بدلتے ہیں۔ ہندوستان کے عوام کو اس کا تجربہ بطور خاص رہا ہے۔ وہ اپنے پہلے عہد صدارت میں ہندوستان پر اس قدر مہربان رہے کہ ایسا لگتا تھا کہ ان جیسا کوئی ہندوستان پریمی ہو ہی نہیں سکتا۔ اس میں ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کی شخصیت پر مبنی خارجہ پالیسی کے انداز کو بھی دخل تھا۔ ملک کے عوام کو یہ باور کرایا گیا کہ ایشیا میں ہمارا حقیقی مقام حاصل کرانے کے لیے امریکہ ہماری پشت پر کھڑا ہے اور ڈونالڈ ٹرمپ جیسا مضبوط حمایت کار کا مکمل اعتماد ہمیں حاصل ہے۔ چین نے گلوان گھاٹی میں جب ہندوستان کے خلاف جارحانہ رخ اختیار کیا اور ہمارے تعلقات میں تلخیوں کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی تو یہ خیال مزید گہرا ہوگیا کہ چین ایک ناقابل اعتبار پڑوسی ہے۔
ایسی حالت میں دنیا کے سپر پاور کا تعاون اور اس کے ساتھ ہوئی دوستی کو زیادہ سنجیدگی سے آگے بڑھایا گیا۔ نریندر مودی نے ڈونالڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں ان کو ہندوستان آمد کی دعوت دی اور اس مناسبت کو ہر پہلو سے یادگار بنانے کی کوشش کی گئی۔ احمد آباد انہیں لے جایا گیا اور نریندر مودی اسٹیڈیم میں ان کے شایانِ شان استقبال سے انہیں نوازا گیا۔ ہر لفظ اور ہر قدم پر دوست ڈونالڈ ٹرمپ اور دوست نریندر مودی کا راگ الاپا جاتا رہا۔ جب ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ گئے اور وہ اپنی دوسری صدارت کے لیے تیاریاں کر رہے تھے تو اس موقع پر ایک بڑی بھیڑ کے سامنے ہمارے وزیراعظم نے ٹرمپ کی حمایت میں یہ نعرہ بھی لگایا کہ ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘۔ حالانکہ اس موقع پر بھی خارجہ پالیسی کے ماہرین نے آگاہ کیا تھا کہ اس قسم کے نعرے ٹرمپ کے لیے یا کسی اور لیڈر کے لیے لگانا درست نہیں تھا کیونکہ اگر سرکار بدل جاتی ہے تو اس کے برے اثرات ہندوستان پر پڑیں گے۔
یہ الگ بات ہے کہ امریکہ میں واقعتا سرکار بدل گئی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن بطور صدر منتخب ہوکر آئے۔ خدشہ اس بات کا ہو رہا تھا کہ کہیں مودی کے نعرہ کی پاداش میں ہندوستان کو الگ تھلگ نہ کر دیا جائے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جو بائیڈن نے ہندوستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو مزید آگے بڑھایا اور نریندر مودی کو اس کانفرنس میں دعوت دی گئی جس کا انعقاد دنیا بھر میں جمہوری قدروں کی جڑوں کو مضبوط کرنے کی غرض سے بائیڈن نے کروایا تھا۔ اس کے بعد دوسرے موقع پر بائیڈن نے وہائٹ ہاؤس میں ان کی شاندار دعوت کی جو اس بات کا اشارہ تھا کہ اب ہند-امریکہ تعلقات میں پختگی پیدا ہوگئی ہے اور دو عظیم جمہوریتوں کے شانہ بہ شانہ چلنے سے عالمی نظام میں استحکام پیدا ہوگا اور حکمت عملی پر مبنی مابین ممالک تعلقات کی نوعیت تاریخی حیثیت اختیار کر جائے گی۔ اس کے برخلاف سوچنے کا کوئی جواز بھی نہیں تھا کیونکہ اب تک ہند-امریکہ تعلقات میں تلخی کا کوئی پہلو سامنے نہیں آیا تھا۔
ٹرمپ جب دوسری بار بطور صدر منتخب ہوئے تب بھی ہندوستان میں نریندر مودی کے پرستاروں نے بطور خاص ہر طرف خوشیوں کے ترانے گائے۔ ان کے لیے ہون اور پوجا کا اہتمام کیا گیا اور ہند- امریکہ تعلقات کی جم کر تعریفیں کی گئیں۔ لیکن جب ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے انتخابی وعدوں کے نفاذ کا آغاز کرنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ اب دوست دوست نہ رہا۔ اس کا پہلا تجربہ ہندوستانیوں کو اس وقت ہوا جب ناجائز طریقہ سے امریکہ پہنچنے والے ہندوستانیوں کو گرفتار کیا گیا اور بڑی ذلت و تحقیر کے ساتھ انہیں عسکری جہازوں میں پابہ سلاسل ہندوستان بھیجا گیا۔ اس موقع پر یہ احساس شدت کے ساتھ ملک کے عوام کو ہوا کہ ٹرمپ کی دوستی قابل اعتبار نہیں ہے۔
حالانکہ اس سے قبل اپنے انتخابی جلسوں میں ٹرمپ نے ہندوستان پر شرح ٹیکس کے معاملہ پر نشانہ لگایا تھا لیکن یہ سمجھا جا رہا تھا کہ یہ محض انتخابی جملے ہوں گے۔ البتہ اب یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ انتخابی جملے نہیں تھے بلکہ ٹرمپ نے ہندوستان کے تئیں اپنا ارادہ بہت پہلے بدل لیا تھا اور اس کے ثبوت اب لگاتار سامنے آ رہے ہیں۔ جب کشمیر میں دہشت گردانہ حملے کے خلاف ہندوستان نے پاکستان کے دہشت گردوں کے اڈوں کو نشانہ بنایا اور اس بات کا خدشہ پیدا ہونے لگا کہ کہیں باضابطہ جنگ کی نوبت نہ آ جائے تو بقول مودی جی پاکستان کی گزارش پر ہندوستان نے جنگ بندی کی۔ لیکن ٹرمپ نے اس موقع پر بھی ہند و پاک کے درمیان جنگ بندی کا سہرا اپنے سر باندھ لیا جس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہمارے ملک کی بڑی رسوائی ہوئی۔
لیکن ٹرمپ نے ہندوستان کی سیادت اور خارجہ پالیسی کی آزادی کا کوئی خیال نہیں رکھا اور بار بار یہ دعویٰ کرتے رہے کہ انہوں نے ہی جنگ بندی کروائی ہے۔ اس اعلان کے علاوہ ٹرمپ کی مہربانیاں اچانک سے پاکستان پر جس طرح ہو رہی ہیں، اس سے بھی یہ اشارہ مل رہا ہے کہ ٹرمپ اب ہندوستان کے ساتھ امریکی تعلقات کو خطرہ میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔ ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ ٹرمپ نے ہندوستان کی اشیاء پر25فیصدٹیکس کا بوجھ ڈال دیا جو پوری دنیا میں سب سے زیادہ تھا۔ امریکہ کا ماننا یہ ہے کہ ہندوستان نے روس سے تیل خرید کر امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ حالانکہ ہندوستان نے کئی بار روسی تیل خریدنے کے تئیں اپنی پالیسیوں کو دنیا کے سامنے واضح کیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ظالمانہ شرح ٹیکس ہندوستان پر ڈال دی گئی ہے۔ اس کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی ضرورت تھی۔
حد تو یہ ہے کہ اب اس شرح کو بڑھا کر 50فیصد تک پہنچا دیا گیا ہے اور مزید بوجھ ڈالنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ یہ سب دراصل دو بنیادی اسباب کی بنا پر ہو رہا ہے- ایک تو زراعت اور ڈیری سیکٹروں میں امریکہ داخل ہونا چاہ رہا ہے اور ہندوستان اپنے کسانوں کے مفادات کی خاطر اس کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ کو روسی صدر ولادیمیر پوتن سے یہ امید تھی کہ وہ یوکرین میں جنگ بندی کے لیے تیار ہوجائیں گے اور ٹرمپ کے لیے نوبل انعام کے حصول کا راستہ تیار ہوجائے گا۔ ان دونوں محاذوں پر سخت ناکامی نے ٹرمپ کو جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے اور اسی لیے ٹرمپ سرکار کے تیور بدلے بدلے نظر آ رہے ہیں۔ ہندوستان کے لیے یہ اچھا موقع ہے کہ وہ ٹرمپ کی دھمکیوں کے سامنے جھکنے کے بجائے اپنی خارجہ پالیسی کی ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط کرے اور اپنی سیادت کے دفاع میں ہر وہ قدم اٹھائے جو ضروری ہو۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
editor.nizami@gmail.com