دوستی کی سیاست میں جب مفادات کی آندھی چلتی ہے تو نظریں نہیں،حساب کتاب بولتا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کی دیرینہ دوستی اس وقت ہچکولے کھا رہی ہے جب وائٹ ہائوس سے دہلی کی سمت ایک تیز و تند معاشی حملہ کیا گیا ہے۔ یہ کوئی روایتی تنبیہ یا اعلانیہ نکتہ چینی نہیں،بلکہ 25 فیصد ٹیرف کا ایک بھاری بھرکم پتھر ہے جو امریکی تجارت کے تالاب میں پھینکا گیا اور سب سے بڑی چھپاک ہندوستان پر پڑی ہے۔
7 اگست سے نافذ ہونے والے نئے ٹیرف نظام کے تحت ہندوستان کی امریکہ کو برآمد کردہ اشیا پر 25 فیصد محصولات لاگو ہوں گے۔ پہلے ہی ہندوستانی اسٹیل اور ایلومنیم پر 50 فیصد اور گاڑیوں و پرزوں پر 25 فیصد ٹیرف عائد تھا۔ اب اس میں دیگر تمام مصنوعات بھی شامل کر دی گئی ہیں۔ ان میں دواسازی،مشینری،ٹیکسٹائل،زرعی اجناس، سب کچھ آتا ہے۔ یہ وہی ہندوستان ہے جس کی برآمدات کا بڑا حصہ امریکی منڈیوں پر منحصر ہے۔ایسے میں اتنے بڑے پیمانے پر محصولاتی ضرب کا مطلب براہ راست معاشی گراوٹ،برآمدی انجماد اور صنعتی بے روزگاری ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دونوں ممالک ایک مجوزہ دو طرفہ تجارتی معاہدے پر گفت و شنید کر رہے ہیں،جس کا ہدف 2030 تک باہمی تجارت کو 190 ارب ڈالر سے بڑھا کر 500 ارب ڈالر تک پہنچانا ہے۔ لیکن اب تک کی پانچ مذاکراتی نشستیں کسی بامعنی نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں۔ امریکہ کا دبائو ہے کہ ہندوستان اپنی زرعی اور ڈیری منڈیوں کے دروازے امریکی کمپنیوں کیلئے کھول دے،جبکہ ہندوستانی کسانوں کی معیشت اس رعایت کو زہر قاتل سمجھتی ہے۔ مودی حکومت بظاہر اس پر لبیک نہیں کہہ رہی،مگر پس پردہ امریکی ہتھیاروں اور توانائی کی درآمدات میں اضافے کا عندیہ دبائو کے آگے نرم پڑنے کی علامت بن چکا ہے۔
روس سے تیل اور اسلحہ کی خریداری پربھی اضافی جرمانہ دراصل ٹرمپ کی جیو اکنامک بلیک میلنگ کی تازہ مثال ہے۔ ہندوستان جو روسی خام تیل کا سب سے بڑا سمندری خریدار ہے، اب اس پر اضافی جرمانہ ادا کیاجارہاہے،حالانکہ اس جرمانے کی حتمی رقم ابھی تک مبہم رکھی گئی ہے۔ وزارت تجارت کے ذرائع کے مطابق ہندوستانی آئل ریفائنریز نے پہلے ہی روسی تیل کی خریداری کم کرنی شروع کر دی ہے اور اب دفاعی، ایٹمی و فوسل فیول سیکٹرز میں امریکہ کی طرف رجوع کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔اب اگر موازنہ کیا جائے تو امریکہ نے چین،یورپی یونین، برطانیہ، جاپان، فلپائن، انڈونیشیااورپاکستان وغیرہ کو جو رعایتیں دی ہیں وہ ہندوستان کو نہیں دی گئیں۔ چین پر اگرچہ 30 فیصد تک ٹیرف ہے لیکن باقی ممالک پر شرح ہندوستان سے کہیں کم ہے۔ ویتنام پر 20 فیصد، انڈونیشیا و فلپائن پر 19 فیصد،جاپان ، یورپی یونین اور پاکستان پر صرف 15 فیصد اور برطانیہ پر 10 فیصد ٹیرف ہے۔ امریکہ کے اس یکطرفہ اقدام سے عالمی تجارت میں غیر معمولی بے چینی پیدا ہو چکی ہے۔ دنیا بھر کے مرکزی بینک افراط زر کے خطرات سے نمٹنے کی تیاری میں لگے ہیںاور ہندوستان اس زمرے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک بن چکا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر مودی جیسا قابل بھروسہ دوست بھی امریکی رعایت حاصل نہ کر سکے تو پھر دوستی کی بنیاد کیا بچی؟
اس معاملہ میں مودی کی خاموشی اب محض ایک سیاسی حکمت عملی نہیں،بلکہ قومی وقار پر سمجھوتے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ گزشتہ تین ماہ سے ٹرمپ کی تند و تیز بیان بازی،پاکستان کے ساتھ ثالثی کا ڈرامہ اورآپریشن سیندور جیسے حساس عسکری اقدامات میں مداخلت پر بھی مودی نے کوئی شدید ردعمل نہیں دیا۔ ان کی مسلسل خاموشی اور مسکراہٹ دراصل ایک سیاسی مجبوری کی چادر ہے جس کے نیچے کمزور معاشی اصول،کمزور خارجہ پالیسی اور سرمایہ دارانہ جھکائو چھپا ہے۔اس موقع پر وزارت تجارت کو چاہئے کہ وہ جارحیت کے بجائے بصیرت کا مظاہرہ کرے۔ معاشی اصلاحات کی وہ لہر جو 1991 میں ملک کو بحران سے نکال کر آگے لے گئی تھی،آج ایک نئے ایڈیشن کی متقاضی ہے۔ نان ٹیرف رکاوٹوں کو متوازن بنایا جائےMSMEs کو تحفظ دیا جائے اور عالمی تجارتی پوزیشن کو نئی حکمت عملی سے مرتب کیا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہندوستان کا تجارتی رشتہ اب مروت یا دوستی پر نہیں بلکہ سیدھے مفاد پر مبنی ہے۔ اگر ہندوستان امریکہ کو اپنی سرزمین پر منافع کے مواقع دے رہا ہے تو اسے باوقار برتائو کی بھی توقع رکھنی چاہئے۔اگر اس کے بدلے میں ہندوستان کو عالمی سطح پر ذلت، جرمانے اور اقتصادی دبائو کا سامنا کرنا پڑے تو پھر مودی حکومت کو خود سے یہ سوال پوچھنا ہوگا کہ وہ دوستوں کی دوستی میں کب تک اپنی خودمختاری کی قربانی دیتی رہے گی؟یہ وقت ہے کہ ہندوستان دنیا کو بتائے کہ وہ صرف ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ نہیںبلکہ ایک خودمختار ریاست بھی ہے جسے اگر دوستی کی ضرورت ہے تو غیرت کی پہچان بھی۔
edit2sahara@gmail.com