پروفیسر خورشید احمد
دنیائے اسلام کے اہل فکر میں اس وقت یہ عام احساس پایا جاتاہے کہ ہم اپنی تاریخ کے شدید ترین دوراضطراب سے دوچار ہیں۔ گذشتہ صدی کے دوسرے نصف میں، پرانے مغربی نوآبادیاتی نظام کے شکنجے سے نکل کر ایک طرف مسلم ممالک آزادی سے ہم کنار ہوئے اوران ملکوںکوملنے والی آزادی اپنے دامن میں تعمیرنو (Reconstruction)کے مسائل کا ایک ہجوم لے کر سامنے آن کھڑی ہوئی۔ دوسری طرف مغرب کا ذہنی،فکری،معاشی، فوجی اور ثقافتی غلبہ اپنی انتہا کو پہنچا۔ نوجوانوںکے ذہن شک و تردّد کی آماج گاہ بنے۔سیاسی قیادت کی مداہنت پسندی، مغربیت زدہ تعلیم کی خود سپردگی، نئی نسلوں کو ملّی روایات اور اسلامی تہذیبی ورثے سے کاٹ کر، ہمارے معاشرے کی بیخ کنی کرنے پر پوری قوت سے لگی ہوئی ہے۔ ان سب کے نتیجے میں رائج الوقت فلسفۂ حیات کے حملوں نے ذہنی اطمینان اور قلبی سکون کو پامال کرکے رکھ دیا ہے اور قوم کے ذہین و فعّال طبقے عقیدہ و عمل، دونوں کے اعتبار سے نیم مسلمان، بلکہ بعض حالات میں نامسلمان بنتے چلے گئے۔
بڑے دکھ کی بات ہے کہ آج مسلم امت کی حالت اس جہاز کی سی ہے، جس کے سامنے ایک عظیم سفرکے امکانات توموجودہیں، لیکن جس کے لنگر ٹوٹ چکے ہیں اور اس قافلے کی سی حالت ہے، جس کے پاس یہاں وہاں، جوان ہمتیں تو موجود ہیں، مگر منزل کا پتا بھول گیا ہے۔ تاریخ کایہ عجیب دوراہا ہے، جہاں ایک ارب 80کروڑ مسلمانوں کی عظیم عددی قوت، اپنی 57 آزاد مملکتوں کے ذریعے ایک شاندارعالمی کردار اداکرسکتی ہے۔لیکن اپنی اندرونی کمزوری، ذہنی غلامی، فکری انتشار، سیاسی غلامی اور نشہ جاہلیت کی وجہ سے محض گھبراہٹ اور سراسیمگی کا شکار ہے۔
آج مسلمان اس عظیم چیلنج کا جواب دینے کیلئے کھڑے ہیں: کیا عصرحاضر کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے اٹھ کر صف بندی کرسکتے ہیں یا نہیں؟ صحیح حکمت عملی اور دانش مندانہ جدوجہد کے ذریعے تاریخ کا رخ بدل کر ایک نئے دور کے بانی بن سکتے ہیں یا نہیں؟ خبردار ہونا چاہیے کہ اگر فکرودانش کی کمزوری اور تدبیر کی غلطی کے باعث عملی چیلنج کے جواب میں ہمارے قدم اکھڑ گئے تو خس وخاشاک کی طرح بہہ جائیں گے اور پھرمعلوم نہیں کب سنبھل سکیں گے۔
وقت کے اس چیلنج کا مقابلہ جن محاذوں پر کیا جانا ہے، ان میں سے اہم ترین محاذ علم وادب اورفکروفن اور تحقیق وجستجواورمکالمہ و استد لا ل کے میدان ہیں۔ بے شک انسانی زندگی میں افکارونظریات کو حکمرا ن قوت کی حیثیت حاصل ہے۔ جس طرح انسان کے جسم میں دماغ کی حیثیت حکمران کی ہے۔ بالکل اسی طرح ایک نظامِ تہذیب میں افکارو نظریات اور عقائد و خیالات سب سے موثراور رہنما قوت کا مقا م رکھتے ہیں، پھر تمام معاشی، سیاسی اور عمرانی امور اسی کے زیراثر طے ہوتے ہیں۔وہی زمانے کامزاج بناتے ہیں،وہی اقداراورمعیارا ت دیتے ہیں، انھی سے سوچنے کے انداز، غوروفکر کے زاویے اور عمل کے ضابطے مقرر ہوتے ہیں۔
اسی لیے اسلام اپنی اصلاحی دعوت کا آغاز ایمان سے کرتا ہے اورپوری زندگی کی اصلاح کو ایمان کی قدر اور پختگی سے وابستہ کرتا ہے ۔ آج جس کی وجہ سے صورتحال بہت زیادہ تشویش ناک ہوگئی ہے، وہ یہ ہے کہ بگاڑ صرف ماحول پر ہی تباہ کن اثر نہیں ڈال رہا ہے،بلکہ ایما ن و یقین بھی کمزور ہورہا ہے۔ مغربی جاہلی فکری غلبے کا سب سے بڑا نشا نہ ایمان اور عقائد ہیں اور پھر وسائل و اختیار۔
پچھلی چند صدیوں سے مغربی فکروفلسفہ کے ذریعے مسلمانوں کے افکارونظریات کو ہدف بنایا گیا ہے، ان کے دل و دماغ کو زہرآلود کیا جارہا ہے اورہم دیکھ سکتے ہیںکہ یہ کوششیں اپنے نتائج سامنے لا ر ہی ہیں۔ یہ حملہ فلسفہ اورسائنس کے ہتھیاروں سے بھی کیا جارہا ہے اور تعلیم و تربیت کے اسلحے سے بھی، پھر نشرواشاعت اور اثرونفوذ کے تمام ذرائع کو پوری طرح استعمال کیا جارہا ہے۔
ذرائع ابلاغ اور تقریر و تحریر کا ہرحربہ اس مقصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے جواب میں اگرچہ محدود کوششیں تو ہوتی رہی ہیں، لیکن منظم اور ہمہ گیر جدوجہد کا فقدان چلا آرہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ موثر طبقوںمیں دور دور تک اس چیز کا احساس بھی نہیں پایاجا تا ۔ ضرورت ہے کہ نئی نسل میں اعتماد بحال کرنے کیلئے درج ذیل ناگزیر اقدامات اٹھائے جائیں:
(1)اسلام کے فلسفہ زندگی اور اس کے نظامِ حیات کا تحقیقی مطا لعہ کیا جائے اور اس کی تعلیمات کو ایمانی اور عقلی دلائل کے ساتھ آج کی زبان میں پیش کیا جائے،تاکہ اسلام کی شاہراہ مستقیم بالکل واضح اور نمایاں ہوکر سامنے آجائے۔ ہماری مشکلات کا ایک بڑاذریعہ جہا لت اور بے خبری ہے۔ اسلام کا علمی سرمایہ جن زبانوں میں ہے ان تک ہماری نئی نسلوں کی رسائی نہیں اور جن اصطلاحات میں ہے، اس سے آج کے لوگ نامانوس ہوگئے ہیں۔ اگر اسلام کی حقیقی تعلیمات کو آج کی زبان میں مختلف علمی سطحوں پر لوگوں کے سامنے پیش کردیا جائے، تو دین اسلام سے انحراف اور مغرب کی غلامی کا ایک بڑا سبب دور ہوسکے گا۔
(2)مغربی علوم و فنون اور نظامِ تہذیب و تمدن کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ علم جدید کے پورے سرمائے کا کھلی آنکھوں اور ناقدانہ ذہن کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اور بتایا جائے کہ اس میں کیا کچھ غلط اور قابل ترک ہے؟ اور کیا کچھ صحیح اور قابل اخذ؟بلاشبہ خود مغرب کی ذہنی ترقی مسلمانوں کے اثرات کی پیدا کردہ ہے، لیکن ایک غلط نظامِ تہذیب اور خالص مادہ پرستانہ زاویۂ نظر نے علوم و فنون کی ترقی کو بالکل غلط رخ پر ڈال دیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ فکروفلسفہ کا عمومی مزاج زہرآلود ہوگیا ہے اور درست سمت میں ترقی نہیں کر رہا ہے۔ آج بہت بڑی ضرو رت یہ ہے کہ غلامانہ ذہنیت کو ترک کرکے مغربی افکار کا مطالعہ کیا جائے۔
(3) تمام علوم کو دین اسلام کی دی ہوئی اقدارپرمرتب اور مدون کیا جائے اور صحیح سمت میں ان کو ترقی دی جائے۔ اسلام کا نقطہ نظر بڑا وسیع ہے، وہ تمام علوم و فنون کی ترقی چاہتا ہے اور اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ یہ ترقی صحیح بنیادوں پر ہو اورمسلسل ہو۔
(4) آج کی دنیا میں، خصوصیت سے معیشت، معاشرت، سیاست، انتظامیات اور قانون کے میدانوں میں جو نئی پیچیدگیاں رونما ہوئی ہیں، ان کا مطالعہ بیدارذہن کے ساتھ اور بالغ نظری کے ساتھ کیا جائے۔ پھر پو ری وضاحت کے ساتھ بتایا جائے کہ اسلام کے اصولوں کو زمانہ حال کے مسائل و معاملات پر منطبق کرکے ایک صالح اور ترقی پذیر تمدن کی تعمیر کس طرح ہوسکتی ہے، اور اس میں ایک ایک شعبہ زندگی کا عملی نقشہ کیا ہوگا؟ اسلامی اصولوں کے تحت آج کا سیاسی نظام کیا ہوگا؟ معیشت کا ڈھانچا کیسے بنے گا؟ سود کیونکر ختم کیا جاسکے گا؟ معاشی استحصال کیسے روکا جاسکے گا؟ اخلاقی ذوق کی آبیاری اور معاشی ترقی میں توازن کس طرح پیدا کیا جائے گا؟ قانون تجارت، قانون فوجداری، قانون شہادت وغیرہ کی شکل کیا بنے گی؟ بین الاقوامی سیاست کے ضابطے کیا ہوں گے؟ معاشرتی زندگی کی گتھیوں کو کس طرح سلجھایا جائے گا؟ فنونِ لطیفہ کس طرح صحت مند انسانی معاشرے کی تشکیل کرسکتے ہیں؟ آج مسلم معاشرے میں پیش آنے والے عملی مسائل کو اسلام کی رہنمائی میں کس طرح حل کیا جاسکتا ہے؟ انھی علمی و فکری کاوشوں سے زندگیوں کے رخ کو تبدیل کیا جاسکے گا اور وہ تہذیبی نظام قائم ہوسکے گا جو اسلام چاہتا ہے۔
یہ کام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان نیک بندوں اور اسلامی تحریکوں پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے، جنھوں نے اس کام کو انجام دینے کی کوشش کی ہے اور ذہنی غلامی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کیلئے اپنی اور زندگی بھر کی ساری صلا حیتیں اور تمام قوتیں کھپا دی ہیں۔ لازم ہے کہ اس کام کو منظم طریقے سے اور وسیع پیمانے پر انجام دیا جائے۔ایسے ادارے قائم کیے جائیں، جو اپنی ساری قوتوں کو اس علمی اور فکری جہاد کیلئے صر ف کردیں۔ اعلیٰ صلاحیت کے حامل نوجوانوں کی ایک کھیپ اپنی زندگیوں کو اس عظیم کام کیلئے وقف کردے۔ صرف اسلام کی خدمت کو اپنا مشغلہ حیات (Career) بنالے اور اس کے لیے اپنی زندگیوں کو یکسو کر دے۔
آزاد اور خودکار نظام کے تحت معیاری ،تحقیقی اور تربیتی اداروں کا قیام بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ایسے اداروں کو قائم کرتے وقت ماضی کے قائم شدہ اداروں کی کارکردگی، تجربات اور کامیابیوں، ناکامیوں کا بے لاگ جائزہ لینا نہایت ضروری ہے۔ اس جائزے کی روشنی میں یہ ادارے علم و فکر کے میدان میں اسلام کے دفاع اور ترجمانی کی خدمات انجام دینے کی جدوجہد کریں، جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ ان اداروں کا پروگرام یہ ہونا چاہیے۔
اسلام پر علمی اور تحقیقی کام کرنا اور اس کے نظامِ فکروعمل کے تمام پہلوئوں کوواضح طور پر پیش کرنا۔الحاد، دہریت اور تشکیک کے پھیلتے ہوئے سیلاب کا علمی سطح پر جواب دینا اور اسلام کے تصورِ توحید کو پوری شان سے بیان کرنا۔
اسلام کی آفاقی دعوت کو مختلف ذہنی معیارات، سامنے رکھ کر دنیا کی مختلف زبانوں میں پیش کرنا۔ خصوصیت سے اردو، عربی، انگریزی، ہندی، بنگالی، انڈونیشی، سواحلی، فارسی، روسی، ہسپانوی، چینی، اطالوی، جرمن، فرانسیسی اور دیگر ایشیائی اور افریقی زبانوں میں موثر، عام فہم اسلامی لٹریچر تیار کرنا اور بلندپایہ کتب کے معیاری ترجمے کرانا۔
دورحاضر کے مسائل پر خصو صی تنقیدی مطالعہ کرنا، خاص طور پر اسلامی معاشیات اور اسلامی قانون اور سماجیات کے موضوعات پر علمی کام، بین الاقوامی معیارات کے مطابق کرنا۔
مسلمانوں کی نئی تعلیمی ضروریات کو متعین کرنا، اسٹرٹیجک اہداف طے کرنا اور ان کو پورا کرنے کے لیے نصابی اور امدادی لٹریچر تیار کرنا، اور دیگر مذاہب یا نظریات کی ان کتب کا جائزہ لینا جو وہ بچوں کے لیے تیار کرتے ہیں۔
اسلامی تہذیب کا قلعہ اس کا خاندانی نظام ہے، جسے تعلیم، ادب اور میڈیا کے ذریعے نشانہ بنایا جارہا ہے۔اسے ہرسطح پر تحقیق اور مطالعے کا موضوع بناکر مضبوط دفاع کرنا اور دنیا کے سامنے رول ماڈل کے طور پر پیش کرنا۔
غیرمسلم اقلیتوں سے مسلمانوں کے سلوک اور غیرمسلم اکثریتی ممالک میں مسلم اقلیتوں کے جملہ دینی اور تہذیبی امور کا فکرمندی سے مطالعہ کرنا۔
نوجوان، امت مسلمہ کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں ، اور یہی سرمایہ دشمن تہذیب و فکر کے لیے ترنوالہ ہے، اس لیے شعوری طور پر نوجوانوں کی ذہنی اور علمی تربیت و رہنمائی کے لیے مناسب انتظامات کرنااوربا صلاحیت نوجوانوں کی تربیت اور تحقیقی صلاحیتوں کی تعمیر کیلئے فنڈز قائم کرنا، ان کی حوصلہ افزائی کرنا (یاد رہے نوجوانوں میں بھی خاص طور پر مسلم خواتین دشمن کا خصوصی ہدف ہیں)۔
مذاکروں،مباحثوںاورمطالعوں کے حلقوں میں اسلامی افکار و مسا ئل پر غوروبحث کی صحت مندانہ روایات قائم کرنا اور اسلام کے حق میں فضا تیار کرنے کی کوشش کرنا۔
یہ کام ان علمی و فکری اداروں کے پیش نظر ہونے چاہئیں اور ان میں نگرانی، حوصلہ افزائی اور احتساب کا موثر نظام قائم کرنا چاہیے۔ جمود زدہ ماحو ل کو تحفظ دے کر اور باہم بے فیض کارگزاریاں دکھاکر ایک دوسرے کو بے خبر رکھنے کی روش ترک کی جانی چاہیے۔
(ترتیب عبدالعزیز)
E-mail:azizabdul03@gmail.com
Mob:9831439068