محمد حنیف خان
بھوک ایک ایسی انسانی ضرورت ہے جہاں انسان، انسانیت،معاشرہ،طبقہ اور پورا ملک انہدام و انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔اسی لیے اقوام متحدہ کے اصول و ضوابط کے مطابق بھوک کو بطور ہتھیار نہیں استعمال کیا جاسکتا کیونکہ اسے انسانیت کے خلاف جرم میں شمار کیا جاتا ہے۔لیکن اسی سرزمین پر فلسطین ہے جہاں بھوک سے انسانوں کو مارا جا رہا ہے،پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہاں انسان زندہ لاشوں میں تبدیل ہوچکے ہیں،بچوں کی ہڈیاں، پسلیاں باہر آچکی ہیں، آنکھیں دھنس چکی ہیں،وہ موت کے منھ میں جا رہے ہیں، اس کے باوجود ابھی تک سوائے زبانی جمع خرچ کے عملی طور پر دنیا نے کچھ نہیں کیا ہے۔
فلسطین میں انسانی جانوں کی ارزانی کی بابت برطانوی اسرائیلی شہری سواس یونیورسٹی لندن کے سینٹر فار جیوش اسٹڈیز کے سربراہ یائر ولاچ(Yair Wallach) نے 29جولائی 2025کو دی گارجین میں اپنے لکھے مضمونI live in Britain,I grew in Israel. Its painful to say ,but we need real UK sanctions to save Gaza میں اسرائیلی حکومت میں شامل ایک رکن کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ہم غزہ میں ہر رات سو فلسطینیوں کو قتل کرسکتے ہیںاور دنیا میں کسی کو پروا نہیں ہے‘‘،افسوس کہ اب تک وہ غلط ثابت نہیں ہوا۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل کو اتنا یقین کیوں ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی پر دنیا خاموش رہے گی جو حقیقت میں بھی ہوچکا ہے۔اس کا ایک بہت سیدھا سا جواب ہے کہ سیاست اور مفادات نے دنیا کو خاموش رکھا ہے۔لیکن کیا سیاست،معیشت،ترقی اور مفادات کے علاوہ دنیا میں کچھ نہیں ہے؟انسانیت،انسانی جانوں کی حرمت اس دنیا کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی؟ اس کا جواب آج کے تناظر میں اثبات میں بھی ہے۔یوروپی ممالک کے اپنے مفادات ہیں،عرب ممالک کے اپنے تحفظات ہیں،روس اور چین کی اپنی سیاسی بساط ہے،بر صغیر کے اپنے تحفظات اور سیاسی و حفاظتی مفادات ہیں۔یعنی پوری دنیا مجموعی طور پر ایک لفظ ’’مفادات‘‘کا شکار ہے جس کی وجہ سے اسرائیل فلسطینیوں کو بھوک سے مار رہا ہے۔گزشتہ چند دنوں میں فلسطین کے حوالے سے دو باتیں سامنے آئی ہیں،اول فضائی راستے سے اشیائے خورد و نوش کی فراہمی اور فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کی کدوکاوش یا اعلانات۔اعلانات کے تناظر میں فرانس نے سب سے پہلا قدم اٹھایا جبکہ اس کے بعد برطانیہ نے بھی اعلان کیا کہ اگر اسرائیل نے اس جنگ کو ختم نہیں کیا تو ستمبر میں ہم فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیں گے۔دوسری طرف اقوام متحدہ میں بھی اس سلسلے میں اجلاس ہوئے جس کاامریکہ اور اسرائیل نے بائیکاٹ کیا۔
گزشتہ چند دنوں میں جتنی بھی کدو کاوش کی گئی ہے، اس کا نتیجہ صفر کے سوا کچھ نہیں نکلا ہے۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اردن ہوائی جہاز کے ذریعہ اشیائے خورد و نوش کی جو فراہمی کر رہا ہے، وہ اتنی قلیل مقدار ہے کہ اس سے فلسطینیوں کی بھوک نہیں مٹ سکتی کیونکہ 20 لاکھ فلسطینی بھوک سے بلبلا رہے ہیں جبکہ جو پیکٹ گرائے جا رہے ہیں، وہ بہت محدود ہیں۔اس سلسلے میں بی بی سی کے رپورٹر جیرمی بوین کی رپورٹ بہت اہم ہے،جن کو مشروط طور پر اس طیارے میں بیٹھ کر فضائی جائزہ لینے کی اجازت دی گئی تھی، جن سے اشیائے خوردونوش کے پیکٹ گرائے جا رہے تھے۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ 20 لاکھ سے زیادہ بھوکے لوگوں کے لیے 10-12ٹن اشیائے خورد و نوش کے پیکٹ گرایا جانا ایک نوٹنکی ہے،جسے یہ جنگ کے مجرم ممالک اپنے اپنے ممالک میں نسل کشی سے ناراض عوام کو خاموش کرانا چاہتے ہیں۔در حقیقت یہ عمل اس لیے کیا جاتا ہے کہ وہ بھوکے لوگوں کی دوڑ بھاگ دیکھ کر لطف اندوز ہوسکیں۔اس پیکٹ میں کیا دیا جائے گا، اس کا فیصلہ بھی اسرائیل ہی کرتا ہے۔نیچے ایک جنگ زدہ علاقہ نظر آتا ہے جہاں بھوکے لوگ آسمان سے گر رہے پیکٹ پر ٹوٹ پڑتے ہیںاور دور کھڑے ہنستے ہوئے اسرائیلی فوجی ان پر گولیاں برساتے ہیں۔واضح رہے کہ جیرمی بووین نے ہی اس امریکی-اسرائیلی فوجی افسر کا انٹر ویو بھی لیا تھا جس نے کہا تھا کہ غزہ میں تعیناتی کے وقت اس نے دیکھا کہ اسرائیلی فوجی نازیوں اور فلسطینی اس دور کے یہودیوں کے کردار میں تھے۔ اس طرح کے بہت سے اعترافات ہیں مگر ان اعترافات کا کوئی مطلب نہیں ہے کیونکہ یہ خود اس جرم میں شریک رہتے ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سب اتنا واضح طور پر ہونے کے باوجود عملی سطح پر یہ دنیا کچھ نہیں کر رہی ہے۔
یہ ضرور ہے کہ فرانس اور برطانیہ کے اس جنگ میںبالواسطہ شریک ہونے کے باوجود فلسطینیوں کی بھوک، ان کے دکھ اور درد نے انہیں مجبور کیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف عملی اقدام کے لیے زبان کھولیں۔ان دونوں ممالک پر بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ برطانیہ تو امریکہ کے بعد دوسرا سب سے بڑا ملک ہے جس نے اسرائیل کو 2020-2024کے درمیان سب سے زیادہ اسلحہ سپلائی کیا ہے۔فرانس کا ماضی بھی فلسطین کے حوالے سے داغدار ہے، اس لیے یہ قابل اعتبار نہیں بلکہ ان کی یہ کوشش بھی ایک حربہ ہوسکتی ہے کیونکہ ان دونوں ممالک کے عوام اپنی حکومتوں سے سخت نالاں ہیں اور مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کیے جائیں۔ایسے میں اپنے اپنے عوام کی ناراضگی دور کر نے کے لیے یہ ان کی چال بھی ہوسکتی ہے،ورنہ اگر ان حکومتوں کو واقعی فلسطینیوں کی فکر ہے تو فوری طور پر عملی اقدام کریں مگر یہ نہیں کریں گے۔
ہندوستان بھی پوری طرح سے خاموش ہے جبکہ یہ وہ ملک ہے جس نے دنیا کو عدم تشدد کا درس دیا ہے۔گوتم بدھ نے اس دھرتی پر جنم لیا جن کا فلسفہ عدم تشدد ہندوستان کا شناخت نامہ ہے۔فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے ہندوستان کی ایک تاریخ رہی ہے جس کی ابتدا ظلم کے خلاف اور مظلوموں کی حمایت سے ہوئی تھی۔ابتدا میں تو ہندوستان نے اسرائیل کو تسلیم بھی نہیں کیا تھا بلکہ اقوام متحدہ میں اس کے خلاف ووٹنگ کی تھی لیکن 1950میں نہرو نے اسے بطور ملک توتسلیم کرلیا مگر سفارتی تعلقات نہیں قائم کیے۔ 1992میں نرسمہا راؤ کی حکومت نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کیے،چونکہ نظریاتی سطح پر ہندوستان کی دائیں بازو کی سیاسی پارٹی بی جے پی اسرائیلی نظریے سے زیادہ قریب ہے، اس لیے نریندر مودی پہلے ایسے وزیراعظم ہوئے جنہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا۔موجودہ نسل کشی کے خلاف وہ لوگ سختی کے ساتھ بول رہے ہیں جنہوں نے اسرائیل کے قیام میں سرکردہ کردار ادا کیا تھا۔برطانیہ اور فرانس اس وقت فرنٹ سیٹ پر ہیں جبکہ ہندوستان جیسے ملک، جس نے اس کے قیام کی مخالفت میں ووٹنگ کی تھی، آج وہ نہ صرف خاموش ہے بلکہ درون خانہ وہ اسرائیل کی مدد بھی کر رہا ہے، اگرچہ سطح آب کچھ نہیں ہے مگر تہہ آب بہت کچھ ہے۔
ٹائمس آف اسرائیل نے ہندوستان اور اسرائیل سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں اس نے یروشلم انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرٹیجی اینڈ سیکورٹی کی سینئر فیلو اوشرٹ بروادکر کے حوالے سے لکھا ہے ’’2023میں 7اکتوبر کو حماس نے حملہ کیا تھا تو یوروپ کے کئی ممالک اور روایتی دوست ممالک نے ہتھیاروں کی فراہمی میں تاخیر کی تھی جبکہ ہندوستان کھل کر ہماری حمایت میں تھا،ہندوستان نے سیاسی خطرات اور بین الاقوامی تنقید کے باوجود یہ قدم اٹھایا تھا‘‘۔اس بیان کا اگر تجزیہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان نے نہ صرف اپنی روایت کو توڑا ہے بلکہ اس نے دنیا کی پروا نہ کرتے ہوئے اسرائیل کے مظالم کا ساتھ دیا ہے۔ہم اس وقت بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان فلسطینیوں /انسانیت کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھا رہا ہے جبکہ وہ تو دو ریاستی حل کا ہمیشہ سے حامی رہا ہے،1974میں پی ایل او کو منظوری دی تھی جبکہ 1988 میں فلسطین کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا۔لیکن آج وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیںجو افسوسناک ہے۔ ہندوستان نے ہمیشہ مفادات کے بجائے انسانیت اور انسانی کاز کو اہمیت دی ہے،اس روایت کو وزیراعظم نریندر مودی کو آگے بڑھانا چاہیے،اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو اس سے ملک اور اس کے عوام کی شبیہ خراب ہونے کے ساتھ ہی انسانیت کے ساتھ بھی یہ ظلم ہوگا۔
haneef5758@gmail.com