غزہ : شدید انسانی بحران کا شکار

0

ایم اے کنول جعفری

بھکمری کے سبب غزہ شدیدانسانی بحران کا شکار ہے۔ وہاں بھوک کی صورت حال بد سے بدتر اور قحط جیسی ہو چکی ہے۔ جون 2025 کے آخر سے اب تک بھوک سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 154 ہوگئی ہے۔ غذائی قلت سے جاں بحق ہونے والے لوگوں میں 89 بچے اور 65 بالغ شامل ہیں۔ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی حملوں اور فائرنگ کے نتیجے میں 30 جولائی کو 46 فلسطینی شہید ہوگئے۔ ان میں سے زیادہ تر خوراک کی تلاش میں وہاں پہنچنے والے افراد تھے۔ ان میں 30 سے زیادہ وہ لوگ ہیں جو امداد کی تلاش میں جاں بحق ہوئے۔ ایک روز قبل غزہ میں 109 امدادی ٹرک داخل ہوئے جن میں سے زیادہ تر لوٹ مار اور تحفظاتی انتشار کا شکار ہو گئے۔ امدادی مراکز کے قریب فاقہ زدہ فلسطینیوں پر اسرائیلی فوجکی فائرنگ میں 14 افراد شہیداور درجنوں زخمی ہو گئے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، 7 اکتوبر، 2023 کے بعد سے جاری اسرائیلی جارحیت میں 60,000 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد خواتین و اطفال کی ہے۔

فلسطینی علاقوں میں بڑھتے ہوئے غذائی بحران پر مہینوں کے بین الاقوامی دباؤ کے بعد 27 جولائی کواسرائیل نے غزہ میں جاری بھکمری سے نمٹنے کے لیے اس کی بڑی آبادی والے تین علاقے غزہ شہر، دیر البلاح اور مواصی میں صبح 10 بجے سے رات 8 بجے تک عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا۔ اسرائیل کے مطابق، ایسا اس لیے کیاگیا تاکہ ان علاقوں میں امدادی سامان کی دستیابی کو یقینی بنایا جاسکے ۔اسرائیلی فوج کے مطابق ،اس نے غزہ میںہوائی جہاز کے ذریعے امدادی سامان پہنچایا۔ اس میں آٹا، چینی اور خورونوش کی دیگر ضروری اشیا شامل تھیں۔ جنگ بندی سے غزہ کے لوگوں نے کسی قدر راحت محسوس کی لیکن وہ چاہتے ہیں کہ جنگ ہمیشہ کے لیے رک جائے۔ امدادی سامان پر اسرائیلی پابندی کی بنا پر 22 لاکھ فلسطینی بھکمری کی دہانے پر ہیں۔ فوج کا کہنا ہے کہ حماس اپنی حکمرانی کو مضبوط کرنے کے لیے سپلائی میں ہیراپھیری کر کے اس کا غلط استعمال کر رہاہے۔ دریں اثنا مصر کی ہلال احمر نے جنوبی غزہ کے لیے 1,200 میٹرک ٹن خوراک مہیا کرائی ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البرش کا کہنا ہے کہ جنگ بندی اس وقت تک بے معنی ہے جس وقت تک یہ زندگی بچانے کا حقیقی موقع نہیں بن جاتی۔ انہوں نے بچوں کے علاج میں مدد کے لیے طبی سامان اور دیگر اشیا کی شدید ضرورت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہر تاخیر موت کا باعث بنتی ہے۔ اسی دوران اسرائیلی فوج نے بین الاقوامی پانی میں فلسطینیوں کے لیے امداد لے جانے والے جہاز ’حنظلہ‘ پر دھاوا بولا۔ ’فریڈم فلوٹیلا‘ نامی تنظیم کے زیراہتمام غزہ جارہے اس جہاز پر انسانی حقوق کے غیر مسلح 21 کارکنان سوار تھے۔سیکورٹی فورسز نے جہازکو غیرقانونی طریقے سے روک کر اس پر قبضہ کر لیا۔ جہاز پر سوار 2 فرانسیسی ارکان پارلیمنٹ سمیت 19 کارکنان (یوروپی سیاست داں) اور الجزیرہ کے 2 صحافی شامل ہیں۔ ان سبھی کارکنان اور صحافیوں کو حراست میں لے لیا گیا اور اس پر لدا امدادی سامان، کھانے پینے کی اشیا اور ادویات کو ضبط کر لیا گیا۔ حنظلہ اس وقت مصری ساحل سے 50 کلو میٹر اورغزہ سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ اتنا ہی نہیں، اسرائیل نے 28 جولائی کو غزہ کے مختلف مقامات پر حملے کیے جن میں 36 افراد شہید ہوئے۔ یہ حملے خطے میں بگڑتے ہوئے انسانی بحران کے تناظر میں اسرائیل کی جانب سے امدادی پابندیوں میں نرمی کے ایک روز بعدکیے گئے۔

غزہ میں بھکمری اور مظالم پر عالمی خاموشی افسوسناک ہے۔ نہتے بچوں، بے گناہ خواتین، بزرگوں اور نوجوانوں پراسرائیلی جارحیت، ظلم و ستم اور بے رحمانہ بمباری کے مناظر انسانی ضمیر کو جھنجوڑنے کے لیے کافی ہیں لیکن دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے۔ کئی ممالک اسرائیلی جارحیت کو دل کی گہرائی سے پسندنہیں کرتے لیکن ان میں لب کشائی کی ہمت نہیںہے۔ وہ اسرائیل کی سمت جھکاؤ اور امریکہ کی داداگیری سے بے حد خوفزدہ ہیں۔ اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، یوروپی یونین، او آئی سی، عرب لیگ اور دنیا کے انصاف، امن، حقوق انسانی اور آزادی کے دعوے کرنے والے ادارے رسمی بیانات، ہمدردی کے ٹوئٹس اور سفارتی نرم لہجے سے آگے بڑھ کر انسانیت کی کسوٹی پر پورے نہیں اتر رہے ہیں۔ ہر کوئی کسی نہ کسی مصلحت، مفاد یا خوف کی زنجیروں میں جکڑا ہوا نظر آ رہا ہے۔ کوئی یہ پوچھنے والا نہیں ہے کہ بھوک کی تاب نہ لاکراسپتال میں داخل ہونے والا 40 کلوگرام وزن کا بے بس لڑکا 10 کلوگرام وزن کا کیسے رہ گیا؟ خوراک نہیں ملنے سے بھوکی ماؤں کے سینے میں دودھ خشک ہو گیا ہے، ننھے معصوم بچے بھوک اور پیاس سے تڑپ کردم توڑ رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کو سوکھ کر ڈھانچہ رہ گئے اجسام اور ہاتھ پیروںمیں نسیں نہیں مل رہی ہیں۔ اگر مسلم ممالک اپنی طاقت کو پہچان کر اسرائیل پر سیاسی، معاشی اور سفارتی دباؤ ڈال دیں تو جبر وبربریت کے پاؤں اکھڑ جائیں اور دشمنان اسلام کو دن میں تارے نظر آجائیں لیکن یہ تب تک ممکن نہیں جب تک مفادات کے بتوں کوتوڑ کر چکناچور اور منافقت کے پردوں کو پھاڑ کر نہیں پھینک دیا جاتا۔

دوسری جانب 30 جولائی کو نیویارک کانفرنس کا اعلامیہ جاری ہوا جس میں اعلیٰ سطحی نمائندوں نے اسرائیل پر دو ریاستی حل کے لیے زور دیتے ہوئے فلسطین ریاست کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیا۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے دو ریاستی حل سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس کے اختتامی دستاویز کی منظوری کا اعلان کیا۔ یہ جامع دستاویز سیاسی، سیکورٹی، انسانی، اقتصادی اور قانونی نکات پر مشتمل ہے جو مسئلۂ فلسطین کے پرامن حل اور خطے میں امن و استحکام کے قیام کے لیے قابل عمل فریم ورک فراہم کرتاہے۔ یہ بیان نیویارک میں مسئلۂ فلسطین کے پرامن حل اور دو ریاستی فارمولے کے نفاذ سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس کے دوسرے اور آخری روز دیاگیا جو سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ قیادت میں منعقد ہوئی۔ پہلے روز کی کارروائی میں فلسطینی مسئلے کے منصفانہ حل اور غزہ کے عوام کو دانستہ بھوکا رکھنے کی شدید مذمت پر اتفاق رائے سامنے آیا۔ غزہ میں فوری جنگ بندی،حماس کے زیرحراست تمام قیدیوں کی رہائی اور اسرائیل-فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کے مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کرنے والوں میں آسٹریلیا، کنیڈا، فن لینڈ، فرانس، اندورا، آئس لینڈ، آئر لینڈ، لکسمبرگ،مالٹا، نیوزی لینڈ،ناروے پرتگال،سان مارینو، سلووینیا اور اسپین شامل ہیں۔ ہندوستان نے دو ریاستی حل کی حمایت میں کہا کہ صرف دستاویزات کے حل سے مطمئن نہیں ہوناچاہیے بلکہ عملی حل آزمانا ضروری ہے۔ حمایت کی تصدیق ٹھوس اقدامات کی شکل میں کی جانی چاہیے۔ خلیجی ممالک نے علاقائی اور عالمی سطح پر تمام اداروں کے ساتھ مل کر فلسطینی عوام پر مسلط محاصرے کے خاتمے اور فوری طور پر ہر قسم کی انسانی و امدادی امداد کی فراہمی کے لیے بھرپور کوششیں جاری رکھنے کا اعادہ کیا۔یہ اعلان ایسے وقت میںسامنے آیا جب دنیا کے مرکزی غذائی تحفظ کے ادارے نے خبردار کیا کہ غزہ میں قحط کا بدترین منظرنامہ اب حقیقت بن چکا ہے اور اسرائیل نے علاقے کو تباہ کردیاہے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS