پارلیمنٹ میں آپریشن سندور؛ سیاسی دعوے اور قومی سوالات: عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی

باہر آسمان سے موسلا دھار بارش برس رہی ہے اور اندر لوک سبھا و راجیہ سبھا کے ایوانوں میں الفاظ کی گولہ باری جاری ہے۔ پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس اپنی پوری شدت کے ساتھ جاری ہے لیکن اس بار بارش صرف بادلوں کی نہیں، بلکہ سیاسی بیانات، دعوؤں، الزامات اور وضاحتوں کی بھی ہو رہی ہے۔ ملک کے عوام یہ تماشا دیکھ رہے ہیں کہ جس ایوان کو ان کے مسائل، ان کی پریشانیوں کے حل اور ان کی آواز بننا چاہیے تھا، وہ میدان جنگ میں بدل چکا ہے۔ اس بار سب سے زیادہ جس موضوع نے ایوان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، وہ ہے ’’آپریشن سندور‘‘، ایک ایسا فوجی دعویٰ جس پر پورا ملک فخر کے ساتھ سینہ چوڑا بھی کر رہا ہے اور اسی وقت بہت سے سوال بھی چپکے سے گونج رہے ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کے دوران اس بات کا اعلان کیا کہ 9مئی کو ہندوستان نے پاکستان کی حدود میں ایک زبردست اور کامیاب فوجی کارروائی کی، جس کے تحت پاکستان کے زیر قبضہ علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا اور ایک ہزار سے زائد ڈرونز، میزائل اور لانچنگ پیڈ تباہ کیے گئے۔ اس کارروائی کو ’’آپریشن سندور‘‘کا نام دیا گیا۔ اس نام کے ساتھ ہی میڈیا نے اس کارروائی کو ’’سرجیکل اسٹرائیک پارٹ ٹو‘‘کا رنگ دینا شروع کر دیا اور پورے ملک میں ایک خاص قسم کی جذباتی کیفیت پیدا ہوگئی۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ یہ حملہ بھارت کی خودمختاری اور عزت کا اعلان ہے۔ انہوں نے بڑے واضح انداز میں کہا کہ بھارت نے یہ فیصلہ خود کیا، کسی عالمی طاقت کے دباؤ میں نہیں آیا اور بھارت اپنی سرزمین اور اپنے عوام کی سلامتی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا: جو بھارت پر حملہ کرے گا، اسے میلی آنکھوں سے دیکھے گا، اسے جواب سندور سے لے کر سندھ تک ملے گا۔

اسی اجلاس میں وزیر داخلہ امت شاہ نے راجیہ سبھا میں ایک طویل بیان دیا، جس میں انہوں نے ’’آپریشن مہادیو‘‘ کی تفصیلات پیش کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف ایک فوجی کارروائی نہیں تھی بلکہ ایک واضح پیغام تھا ان دہشت گردوں کے لیے جو سرحد پار سے آ کر یہاں خون خرابہ کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تین دہشت گردوں کو پونچھ اور پہلگام میں ایک زبردست انٹلیجنس آپریشن کے ذریعے مارا گیا، ان کی شناخت ڈیجیٹل شواہد اور ڈی این اے کے ذریعے کی گئی۔ امت شاہ نے کہا کہ ہندوستان اب صرف دفاعی پالیسی پر عمل نہیں کر رہا بلکہ جارحانہ دفاع کی راہ پر ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ حکومت فوج کو مکمل آزادی دیتی ہے کہ وہ کب، کہاں اور کیسے کارروائی کرے۔

لیکن پارلیمنٹ میں ہر تقریر پر صرف تالی نہیں بجی۔ حزب اختلاف کی جانب سے سخت سوالات اور شدید تنقید بھی سامنے آئی۔ راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں براہ راست وزیراعظم مودی سے کہا کہ اگر امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ جھوٹ بول رہے ہیں کہ انہوں نے یہ کارروائی رکوانے میں کردار ادا کیا تو مودی جی کھڑے ہو کر قوم سے کہیں کہ ٹرمپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ راہل گاندھی کا سوال محض خارجہ پالیسی یا فوجی کارروائی کا نہیں تھا، بلکہ بیانیے، خودمختاری اور سفارتی سچائی کا سوال تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ کارروائی ضروری تھی تو پہلے کیوں نہ کی گئی؟ اور اب کیوں کی گئی؟ کیا یہ انتخابی مہم کا حصہ ہے؟ کیا ’’آپریشن سندور‘‘ کا اعلان پارلیمنٹ میں اس لیے کیا گیا تاکہ آنے والے انتخابات میں اسے سیاسی فائدے کے طور پر استعمال کیا جا سکے؟ انہوں نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ کارروائی کی مکمل تفصیلات ایوان کے سامنے رکھی جائیں تاکہ پورا ملک جان سکے کہ اصل میں ہوا کیا ہے۔

راہل گاندھی کی آواز میں کئی اور اپوزیشن رہنما بھی شامل ہوگئے۔ اکھلیش یادو نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ حکومت دراصل چین کے خلاف کارروائی سے گریز کر رہی ہے اور پاکستان کو آسان ہدف سمجھ کر وہاں کارروائی کرتی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ جب چین ہندوستان کی سرزمین پر کئی کلومیٹر اندر گھس آیا ہے تو حکومت کی زبان پر چین کا نام کیوں نہیں آتا؟ کیا ہم صرف ان دشمنوں سے لڑیں گے جن سے سیاسی فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہو؟ اکھلیش یادو کا کہنا تھا کہ ملک کی سیکورٹی ایک قومی معاملہ ہے، اسے سیاسی آلہ کار نہ بنایا جائے۔
اسی دوران ترنمول کانگریس کی جانب سے بھی سوالات اٹھائے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر یہ کارروائی کس طرح پیش کی گئی؟ کیا ہم نے دنیا کو بتایا کہ ہم نے کیا کیا ہے؟ یا ہمارے بیانیے پر ٹرمپ کے بیانات غالب آ گئے؟ کیا ہم ایک مؤثر سفارتی بیانیہ تیار کرنے میں ناکام رہے ہیں؟ بی ایس پی کی صدر مایاوتی نے بھی اس موقع پر اپوزیشن اور حکومت دونوں سے اپیل کی کہ وہ سیاست سے بلند ہو کر قومی سلامتی کے موضوع پر سنجیدہ تبادلہ خیال کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے مواقع قوم کو یکجہتی کا پیغام دیتے ہیں، لیکن ہم اسے تماشا بنا رہے ہیں۔

اس ساری صورت حال میں میڈیا کا کردار بھی غیر معمولی رہا۔ کچھ چینلوں نے اسے ایک عظیم قومی فتح کے طور پر پیش کیا، بغیر اس کی تفصیلات اور سچائی کی پڑتال کیے۔ حکومت کے دعوے آنکھ بند کرکے نشر کیے گئے اور جو سوالات اٹھائے گئے انہیں غداری اور ملک دشمنی قرار دیا گیا۔ لیکن سماجی میڈیا پر کئی سنجیدہ سوالات ابھرے۔ عوام کا ایک طبقہ پوچھ رہا ہے کہ کیا دہشت گردی کا مسئلہ صرف سرحد پار دشمنوں سے جڑا ہے یا ہمارے اپنے معاشرے میں نفرت، تعصب اور تقسیم کو بھی ختم کرنا ہوگا؟ کیا سرجیکل اسٹرائیک جیسے اقدامات صرف وقتی جوش پیدا کرتے ہیں یا مستقل امن کی ضمانت بن سکتے ہیں؟

ایوان میں اس ہفتے جو کچھ ہوا، اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جمہوریت میں سب سے بڑی جنگ سچ اور بیانیے کے بیچ ہوتی ہے۔ اگر آپریشن سندور واقعی ایک بڑی کامیابی ہے، تو اس پر سوالات اٹھانے سے گھبرانا کیوں؟ اگر یہ صرف ایک سیاسی اعلان ہے تو پھر سوال اور زیادہ ضروری ہیں۔ پارلیمنٹ میں عوامی مسائل ’’مہنگائی، بے روزگاری، کسانوں کی حالت،او بی سی تحفظات، اقلیتوں کے حقوق‘‘ پر خاموشی رہی۔ ان موضوعات پر بات کرنے کی اجازت نہ ملنا یا اجلاس کا ملتوی ہوجانا ایک تشویشناک رویہ ہے۔

ایسا لگتا ہے جیسے ایوان کا مقصد اب قانون سازی یا عوامی مسائل کا حل نہیں بلکہ سیاسی بیانیہ تیار کرنا رہ گیا ہے۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ قوم اس پر فخر کرے تو اسے ان تمام سوالات کا جواب دینا ہوگا جو اپوزیشن اور عوام دونوں کی طرف سے اٹھائے جا رہے ہیں۔ مانسون کی یہ بارش اگر صرف اقتدار کے کھیت کو سیراب کرے، تو عوام کے ہونٹ پیاسے ہی رہ جاتے ہیں۔ جنگ جیتنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ جمہوریت قائم رہے، سوال زندہ رہیں اور ایوان عوام کے سچ بولنے کی جگہ بنا رہے۔
ایسا نہ ہو کہ ہم دشمن کو مارنے کے جوش میں اپنا آئینہ ہی توڑ بیٹھیں۔

(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
editor.nizami@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS