ووٹ پر وار

0

یقین اختیار اور انصاف یہی تین ستون ہیں جن پر جمہوریت کھڑی ہوتی ہے۔ لیکن اگر ان میں سے ایک بھی لرز جائے تو پوری عمارت ہچکولے کھانے لگتی ہے۔ بہار میں انتخابی فہرستوں کی نام نہاد خصوصی نظر ثانی مہم ان ہی ستونوں کو کھوکھلا کرنے کی ایک خاموش سازش ہے۔ اسے کسی انتظامی صفائی یا تکنیکی عمل کا نام دینا حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہوگا۔ یہ عمل محض ووٹر لسٹوں کا نہیں عوام کے حق رائے دہی پر ایک منظم حملہ ہے،جو ہمیں براہ راست اس سوال تک لے جاتا ہے کہ کیا ہندوستان میں انتخابات واقعی آزاد اور منصفانہ رہ گئے ہیںیا اب یہ سب کچھ کسی طے شدہ منصوبے کے تحت ایک مخصوص سیاسی مفاد کے گرد گھوم رہا ہے؟ بہار میں جاری ’’اسپیشل انٹینسیو ریویژن‘‘ (SIR) مہم کے خلاف پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا علامتی احتجاج اسی بنیادی خدشے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔آج جمعہ کے روز کانگریس صدر ملکارجن کھرگے، راہل گاندھی، پرینکا گاندھی واڈرا اور دیگر اپوزیشن رہنمائوں نے پارلیمنٹ کے احاطے میں SIR کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس کے پوسٹرز پھاڑ کر کوڑے دان میں پھینکے اور یہ بتادیاہے کہ معاملہ فقط بہار تک محدود نہیں،بلکہ اس کا تعلق پورے نظامِ انتخاب سے ہے۔

صرف بہار میں ووٹر لسٹ سے 61 لاکھ نام حذف کیے جانے کی بات ہو رہی ہے،جن میں سے 52 لاکھ وہ افراد بتائے جارہے ہیں جو مبینہ طور پر اپنے پتے پر دستیاب نہیں تھے اور مزید 18 لاکھ کے مرنے کی تصدیق کی گئی ہے۔ اگر ان اعداد کو جوں کا توں مان بھی لیا جائے، تو سوال یہ ہے کہ تصدیق کا عمل کیسے انجام پایا؟ کیا درکار 11 دستاویزات کی غیرموجودگی میں،جن میں نہ آدھار شامل ہے نہ پین کارڈ، ووٹر کی شہریت اور شناخت کو محض موجود نہ ہونے کے مفروضے پر کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے؟ یہ وہ اندھیر نگری ہے جو عوام کے اعتماد کو روندتی ہے۔

راہل گاندھی نے زور دے کر کہا کہ کانگریس کے پاس بلیک اینڈ وہائٹ ثبوت ہیں کہ کس طرح مہاراشٹر اور کرناٹک میں ووٹ چوری کیے گئے۔ ان کے مطابق، کرناٹک میں ایک مخصوص لوک سبھا سیٹ کی جانچ میں بڑے پیمانے پر ووٹروں کی فہرست میں جعلسازی پائی گئی اور ان کی جماعت نے ووٹر لسٹ کو ڈیجیٹل فارمیٹ میں لا کر اس نظام کو بے نقاب کیا۔ یہ الزام اگر سچ ہے تو پھر سوال محض SIR پر نہیں،بلکہ پورے الیکشن کمیشن کی نیت اور عملداری پر اٹھتا ہے۔

دوسری طرف الیکشن کمیشن کا دفاع بھی کمزور اور خالص سرکاری زبان میں لپٹا ہوا نظر آیا۔ چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار کا یہ کہنا کہ کیا جعلی ووٹ ڈالنے والوں کو لسٹ میں رہنے دیا جائے؟ ایک ایسا استدلال ہے جو مسئلے کی جڑ پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ کوئی بھی با شعور شہری جعلی ووٹروں کی حمایت نہیں کرے گا،مگر سوال یہ ہے کہ کہیں اصلی ووٹروں کو جعلی سمجھ کر خاموشی سے خارج تو نہیں کیا جا رہا؟کانگریس اور ان کے اتحادیوں کا یہ خدشہ کہ اقلیتی،دلت،پسماندہ اور غریب طبقات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے،محض سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک ٹھوس خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگر بہار میں ہونے والی یہ مشق بغیر کسی آزادانہ نگرانی کے مکمل ہوگئی تو پھر یہ فارمولا دیگر ریاستوں میں بھی دوہرا کر جمہوریت کو بے جان لاش میں تبدیل کیا جا سکتا ہے،جس کی سانسیں تو ہوں گی،مگر آواز چھین لی گئی ہو گی۔
اس معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انڈیابلاک نے بہاراسمبلی انتخابات کے بائیکاٹ پر غور شروع کر دیا ہے۔ کانگریس،تیجسوی یادو اور دیگر رہنما متفقہ طور پر یہ مان رہے ہیں کہ SIR کی موجودہ شکل ایک سازش ہے جس کے تحت بی جے پی اپنی مرضی کی ووٹر لسٹ تیار کرا رہی ہے۔ اگر یہ الزام درست ثابت ہوجائے تو پھر آئندہ انتخابات کی قانونی و اخلاقی حیثیت پر بھی سوال اٹھنا لازمی ہے۔

جمہوریت ایک زندہ نظام ہے،مگر اس کی روح پارلیمانی بحث،شفاف انتخابات اور حق رائے دہی میں پنہاں ہے۔ اگر ووٹ ہی چھین لیا جائے،اگر ووٹر کو خاموشی سے کٹوا دیا جائے اور اگر فہرستیں سیاسی ایجنڈے پر تیار ہوں تو پھر الیکشن محض ایک آئینی تماشہ رہ جائے گا۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS