بہار اسمبلی الیکشن میں کانگریس کہاں کھڑی ہے: عارف شجر

0

عارف شجر

بہار اسمبلی الیکشن 2025 سے پہلے الیکشن کمیشن سرگرم دکھائی دے رہا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس سے قبل کے لوک سبھا اور اسمبلی ا نتخابات میں الیکشن کمیشن کمبھ کرن کی نیند سویا ہوا تھا، اب وہ بیدار بہار اسمبلی الیکشن سے قبل ہوا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ الیکشن کمیشن کو برسوں بعد کس نے عین الیکشن سے قبل بیدار کیا یا وہ خود نیند سے جاگا ہے، یہ تحقیق کا موضوع ہے۔ بہار اسمبلی الیکشن کا نوٹیفکیشن عنقریب جاری ہونے والا ہے، جس کی تیاری الیکشن کمیشن بڑی سرگرمی کے ساتھ کر رہا ہے۔ وہیں الیکشن کمیشن کی اس سنجیدگی اور سرگرمی پر بہار کی مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین نے سوال کھڑے کر دیے ہیں اور ان کی جانب سے سوال و جواب،احتجاج اور ملک گیر بند کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ہے۔ اب 28 جولائی کو سپریم کورٹ میں دوبارہ سماعت ہونی ہے لیکن سپریم کورٹ میں سماعت سے قبل ہی الیکشن کمیشن نے حلف نامہ داخل کر دیا کہ ووٹر آئی ڈی،راشن کارڈ اور آدھار کارڈ بھارتیہ ہونے کی دلیل نہیں ہیں۔ ان دستاویزوں سے ووٹر لسٹ میں نام نہیں جوڑا جا سکتا۔ بہرکیف! اب 28 جوالائی کو سپریم کورٹ ملک کے لوگوں کے مستقبل پر فیصلہ سنائے گاجس کا سب کو بے صبری سے انتظارہے۔

بہار اسمبلی الیکشن کے اس ہنگامے اور الیکشن کمیشن سے ٹکرائو کے بیچ بہار میں کانگریس کہاں کھڑی ہے؟یہ سب سے بڑا سوال ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ کانگریس کا وجود بہار میں ہے بھی یا نہیں، اس معاملے میں سب کی اپنی الگ الگ رائے ہے۔اگر ہم بہار میں کانگریس کے سیاسی منظر نامے پر مختصر نظر ڈالیں تو اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بہار کی سیاست میں کانگریس پارٹی کا ایک طویل ماضی ہے اور یہ اپنی تاریخی وراثت بھی رکھتی ہے۔ کانگریس کے دور حکومت میں ہی بہار میں اردو کو دوسری راجیہ بھاشا کا درجہ ملا، اردو کو اس کا حق دلانے میں کانگریس نے بڑا اہم کردار ادا کیا جو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔کانگریس نے اردو کو اس کا جائز حق دلا کر ہزاروںاقلیتوں کے گھروں کو روشن کیا، چاہے اردو ٹیچر ہو، اردو ٹرانسلیٹر ہو یا پھر کئی دوسرے محکمے ہوں، جہاںاردو کا ایک بندہ آج ضرور فائز ہے۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجیے کہ آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک کانگریس بہار میں مضبوط پوزیشن پر رہی اور یہ پارٹی عوامی مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی تھی لیکن1990 کے بعد جب ذات پات کی بنیاد پر سیاست نے زور پکڑا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس وبا نے پوری ریاست کو اپنی زد میں لے لیا توراشٹریہ جنتا دل کے سابق وزیراعلیٰ لالو پرساد اور جنتا دل یونائٹیڈ کے نتیش کمار نے کانگریس کی جگہ لے لی اور پھر حالیہ برسوں میں اس کی سیاسی حیثیت اور عوامی اثر و رسوخ میں مسلسل کمی آتی گئی، جس کا اندازہ کانگریس کو بھی ہے۔ ذات پات کی سیاست میں کانگریس کو مقامی سیاسی جماعتوں نے چاروں خانے چت کر دیا اور پھر اس کے بعدکانگریس اب تک ابھر نہیں پا ئی ہے۔

مجھے یہ بات کہہ لینے دیجیے کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات اور 2025 کے مجوزہ اسمبلی انتخابات کے تناظر میں کانگریس کی پوزیشن یقینا کمزور ہوئی ہے۔ کانگریس سیاسی منظر نامے میں اتنی پست ہو گئی ہے کہ وہ بہار میں اب ایک ’’ جونیئر پارٹنر‘‘ کی حیثیت سے کام چلانے پر مجبور ہو گئی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی پارٹی او رکبھی بہار میں اپنا سیاسی دبدبہ اور رسوخ رکھنے والی پارٹی نے علاقائی پارٹی راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ اپنے وجود کو بچائے رکھنے کے لیے ہاتھ ملا لیا ہے تاکہ جو کچھ بچی ہوئی ساکھ ہے وہ بھی ختم نہ ہو جائے اور اس کے لیے وہ سیاسی جدو جہد کر رہی ہے۔ اگر ہم جائزہ لیں تو بہار میں 2020 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے 70 سیٹوں پر مقابلہ کیا تھا جس میں اسے 19 سیٹیں ہی حاصل ہو پائی تھیں۔ اس نتیجے نے نہ صرف کانگریس کی تنظیمی حیثیت اور کمزوری کو ظاہر کر دیا تھا بلکہ اس کی عوامی سطح پر غیر مقبولیت بھی آشکار ہو گئی تھی۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ رہا کہ کانگریس کے پاس قیادت کی کمی تھی جو اب بھی برقرار ہے۔حالانکہ کانگریس نے بہار میں پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے بہار کانگریس کے صدر اکھلیش پرساد سنگھ کو عین انتخابی سال میں ہٹا دیا اور ان کی جگہ راجیش کمار کو ریاستی کانگریس صدر کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ راجیش کمار سمیت بہار کانگریس کے کل 42 ریاستی صدر رہ چکے ہیں۔ راجیش بہار کانگریس کے چوتھے دلت صدر ہیں، ان سے پہلے مونگیری لال 1977 میں صدر بنے، ڈمرا لال بیٹھا1985 میں اور اشوک چودھری2013 میں صدر بنائے گئے۔

فی الحال بہار میں کانگریس کے پاس کوئی کرشمائی اور مؤثر علاقائی لیڈر موجود نہیں ہے جو عوامی سطح پر لوگوں کو متاثر کرسکے، یہی نہیں بلکہ کانگریس کی نچلی سطح کافی بے جان سی ہے ۔ گائوں، پنچایت اور بلا ک سطح پر اس کی موجودگی برائے نام ہے جو شکست کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ کانگریس کی شکست کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ کانگریس اب تک نئی نسل کو متحرک کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ بات بھی کہنا غلط نہ ہوگا کہ عوام کی نظر میں کانگریس ایک پرانا لیکن غیر مؤثر متبادل بن چکی ہے۔ دیہی علاقوں میں پارٹی کی سرگرمیاں لچر اور محدود ہیں جبکہ شہری علاقوں میں بی جے پی اور علاقائی پارٹیوں کا دبدبہ ہے۔ دوسری طرف اس کی اتحادی پارٹیاں بھی کانگریس کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ کھڑی نہیں ہیں۔ علاقائی پارٹیاں کانگریس کے ساتھ تو ہیں لیکن اسے کھلا میدان دینے کو تیار نہیں ہے، وقتاً فوقتاً کانگریس اور علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اختلاف سامنے ابھر کر آ ہی جاتے ہیں۔ ابھی چندد ن پہلے ہی کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل میں اندر ہی اندر رسہ کشی صاف دیکھنے کو ملی جب بہار بند کے دوران کانگریس قائد راہل گاندھی اور راشٹریہ جنتا دل قائد تیجسوی یادو اسٹیج پر ساتھ ساتھ نظر تو آئے لیکن کانگریس کے دیگر قائدین کو آر جے ڈی نے اپنے پاس بیٹھانے سے انکار کر دیا،جن میں کانگریس کے خاص اور تیز طرار قائد کنہیا کمار کا نام شامل ہے جن کو بے عزت کرنے میں آر جے ڈی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس کا ویڈو خوب وائرل ہوا۔

یہ بات بتاتا چلوں کہ الیکشن کمیشن کے فرمان کے خلاف بہار بند کے دوران کنہیا کمار کو تیجسوی یادو نے جس طرح سے منچ پر چڑھنے نہیں دیا اور کانگریس قائد کو سیکورٹی کے ذریعہ دھکا دے کر اتار دیا گیا، اس سے یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ کانگریس اور آر جے ڈی میں اندر ہی اندر حالات ٹھیک نظر نہیں آ رہے ہیں۔ بتایا یہ بھی جا رہا ہے کہ کنہیا کمار راہل گاندھی کے نزدیکی قائد ہیں۔ کہا تویہ بھی جا رہا ہے کہ راہل گاندھی نے ہی کنہیا کمار کو کانگریس میں جوائن کرنے کی صلاح دی تھی اب جبکہ کنہیا کمار راہل گاندھی کے خاص قائد میں شمار ہیں اور انہیں اسٹیج پر چڑھنے سے روکنا اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ تیجسوی یادو کو کنہیا کمار ایک ذرا نہیں بھاتے ہیں یا پھر یہ کہا جائے کہ دونوں سیاسی تقریر کے ماہر ہیں، دونوں ینگ ہیں اور دونوں اقتدار کی کرسی کے لیے اپنی سیاست چمکانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بھلے ہی کنہیا کمار کے ساتھ عوامی حمایت نہ ہو لیکن انہوں نے اپنی تقریر سے بہار میں ایک الگ پہچان بنائی ہے جس کا اندازہ تیجسوی یادو کو بھی ہے۔حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کانگریس بہار میں اپنی سیاست بیساکھی کے سہارے چلا رہی ہے۔

بہرحال، اگر کانگریس بہار میں اپنی جگہ دوبارہ بنانا چاہتی ہے تو اسے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے، مضبوط علاقائی قیادت کو پھر سے سرگرم کرنا ہوگا۔ تنظیمی ڈھانچے کی اصلاح اور فعال کارکنوں کو ترجیح دینا ہوگا، تبھی کانگریس دوبارہ بہار میں زندہ ہو سکتی ہے اور یہ سب کرنے کے لیے اسے کافی وقت درکار ہوگا جبکہ اسمبلی الیکشن کا وقت قریب تر ہو تا جا رہا ہے، اس دوران کانگریس اپنے آپ کو کتنا مضبوط کر پائے گی یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔ ویسے فی الحال بہار میں کانگریس کمزور، لیکن تاریخی طور پر اہم پارٹی ہے، اگرچہ اس کے پاس اب بھی کارکنان روایتی ووٹ بینک اور نظریاتی وراثت ہے لیکن اسے جدید سیاسی تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوگا ورنہ کانگریس کے لیے خطرہ بڑھتا جائے گا اور وہ دن بھی آ سکتا ہے کہ بہار میں کانگریس کا وجود پوری طرح سے صاف ہو جائے۔

arifshajar1@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS