کیا دنیا سے انسانیت پوری طرح ختم ہوگئی: محمد حنیف خان

0

محمد حنیف خان

کاروبار دنیاکے اسباب و عوامل میں بھوک کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، بھوک دو طرح کی ہوتی ہیں اول پیٹ اور دوم خواہشات کی، مگر دوسری بھوک پہلی بھوک سے جڑی ہوئی ہے۔اگر پیٹ بھرا ہو گا تبھی خواہشات پیدا ہوں گی ورنہ اس سے قبل ہماری نظر ضروریات پر رہتی ہے۔ ضروریات اور خواہشات کے مابین یہی بنیادی فرق ہے۔ اس وقت دنیا میں ایک ایسا خطہ ارض بھی ہے جہاں خواہشات کی فصل برسہا برس سے اگ ہی نہیں رہی تھی اور اب تو اس سرزمین کو ہی گولہ و بارود سے بنجر بنا دیا گیا ہے، جہاں صدیوں تک خواہشات کا امکان دور دور تک نہیں دکھائی دیتا،ان کی ضروریات میں سے بنیادی ضرورت اگر بھوک ہی مٹ جائے تو بڑی بات ہے۔

آج کے اس دور میں اگر انسان گھاس کھانے پر مجبور ہوجائیں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیسے حالات ہوں گے۔ غزہ وہ علاقہ ہے جہاں اب گھاس بھی موجود نہیں کیونکہ گولہ و بارود نے اسے بے آب و گیاہ میدان میں تبدیل کردیا ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ اسرائیل کو گولہ و بارود امریکہ،برطانیہ اور یوروپی ممالک کی جانب سے فراہم کیے جا رہے ہیں، جہاں کے عوام سڑکوں پر اپنی حکومتوں کے خلاف ہیں لیکن ان کے موقف میں ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔یہ وہی ممالک ہیں جو روس کے خلاف یوکرین کو جنگی سازو سامان فراہم کر رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ روس انسانیت کے خلاف مظالم کر رہا ہے،وہ شہریوں کو مار رہا ہے اس لیے کمزور کا تعاون ہمارا فریضہ ہے جسے ہم جاری رکھیں گے۔۔۔، مگر اس کے برخلاف غزہ میں ہو رہے انسانیت سوز مظالم پر وہ نہ صرف خاموش ہیں بلکہ ظالم کی پوری طرح سے پشت پناہی کر رہے ہیں۔

برطانوی اخبار دی گارجین نے 23جولائی 2025کو اپنا اداریہ It will take more than words to halt israels genocideلکھا ہے جس میں ماہ جولائی کو بھوک کے حوالے سے سب سے زیادہ مہلک ترین قرار دیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل ہر 12منٹ میں ایک فلسطینی کو ہلاک کردیتا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق ہزاروں افراد خوراک حاصل کرنے کے دوران ہلاک کیے جاچکے ہیں جو منصوبہ بند تھا۔انسانی بحران کے ماہر پروفیسر الیکس ڈی وال کے مطابق بھوک کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کیاگیااور بھوک سے قبل اسے مٹانے کے دوران ہر موقع پر فلسطینیوں کا قتل کیا گیا۔یہ ایک منظم اور انجینئرڈ طریقہ کار ہے جسے اسرائیل نے استعمال کیا ہے۔

دنیا میں کہیں بھی جب جنگ ہوتی ہے تو یومیہ بنیاد پر ان افراد کی تعداد بتائی جاتی ہے جن کی اموات ہوتی ہیں یا وہ زخمی ہوتے ہیں۔اس جنگ کی ابتدا میں بھی دوطرفہ تعداد بتائی جاتی تھی مگر اب گولہ و بارود سے مرنے والوں کی تعداد نہیں بتائی جا رہی ہے بلکہ یومیہ بنیادوں پر بھوک سے مرنے والوں کی تعداد بتائی جا رہی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل اور اس کے حلیفوں نے کس طرح سے غزہ کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔قاہرہ سے ایک خبر آئی ہے جس نے چونکا یا تو نہیں البتہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔جامع ازہر کے وائس چانسلر نے اعلان کیا تھا کہ غزہ میں غذائی قلت اور ادویہ کی کمی کے پیش نظر وہ ایک وفد بھیجنے والے ہیں جو اپنی حد تک اہل غزہ کا تعاون کرے گا،اس بیان کے آتے ہی مصری صدر عبد الفتاح السیسی نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان کو اپنا بیان واپس لینے پر مجبور کردیا۔عرب بہاریہ کے دنوں میں اہل غزہ نے مصریوں کے ساتھ کیا کیا تھا، وہ بھی لائق دید ہے۔ صابر خطیب مصری نے لکھا ہے کہ یہ میری آنکھوں کے سامنے کی بات ہے کہ عرب بہاریہ کے ایام میں جب روٹی کی بیکریاں بند ہوگئی تھیں،کیونکہ اس وقت پورے علاقے کی بجلی کاٹ دی گئی تھی،ایک دن ہمارے پاس ٹرانسپورٹ کی ایک گاڑی آکر رکی جو بہت شاندار روٹیوں سے بھری ہوئی تھی،یہ روٹیاں پورے علاقے میں تقسیم کی گئیں،معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ اہل غزہ نے ان روٹیوں کو اپنے ہاتھوں سے بنا کر مصریوں کے لیے بھیجا ہے تاکہ انہیں بھوک سے نجات مل سکے۔مگر آج غزہ میں بھکمری ہے،خوبصورت چہرے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے ہیں، بچوں کا جسم پسلیوں میں تبدیل ہوچکا ہے، نوجوان بھوک سے راہ چلتے ہوئے گر پڑتے ہیں۔بوڑھے صرف رو رہے ہیں۔سوشل میڈیا کے اس دور میں چھوٹے چھوٹے بچے اہل دنیا خصوصاً مسلم امہ کو مخاطب کرکے اپنی بھوک،دوا اور علاج کی جانب توجہ مبذول کرا رہے ہیں مگر پوری دنیا خاموش ہے۔

ملالہ یوسف زئی ایک لڑکی ہی تھی جسے اسی مغربی دنیا نے راتوں رات اسٹار بنادیا تھا کیونکہ اس کے مطالبات میں ان کے اپنے مفادات پوشیدہ تھے مگر آج فلسطینی ملالائیں چیخ پکار کر رہی ہیں لیکن کوئی سننے والا نہیں ہے۔وجہ صرف یہ ہے کہ وہ بچیاں ان کے مفادات کی بات نہیں کر رہی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق سو سے زائد امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بھکمری بالکل عام ہوچکی ہے، دنیا کو اس جانب توجہ دینا چاہیے۔دنیا کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ فاقہ،غذائی قلت نہ صرف جسمانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ یہ ذہنی صحت کے لیے بھی حد درجہ نقصان دہ ہے،جس کے اثرات وقتی نہیں ہوتے بلکہ اس سے نسلیں متاثر ہوتی ہیں۔کل اگر کوئی معاہدہ ہوجائے اور جنگ ختم بھی ہوجائے تو بھکمری کے اثرات سے اہل غزہ کو کئی نسلوں تک نجات نہیں ملے گی،آج جس عدم غذائیت کا شکار نوجوان اور بچے ہو رہے ہیں، اس کے اثرات آئندہ نسلوں پر بھی مرتب ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا سے کم غذائیت کے خاتمے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے تاکہ ایک صحت مند دنیا کی تعمیر کی جا سکے مگر غزہ میں اس کے برعکس ہو رہا ہے۔یہاں پوری دنیا اس بات پر متفق نظر آرہی ہے کہ اہل غزہ کو یا تو بھوک سے مار دیا جائے یا پھر انہیں ایک ایسی نسل میں تبدیل کردیا جائے جن کی آئندہ کی نسلیں غیر صحت مند ہوں۔

جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیل کے خلاف محض علامتی سطح پر گفتگو ہوئی ہے،دنیا کی بڑی طاقتوں نے اس کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھائی ہے مگر ادھر چند مہینوں سے اس آواز میں تیزی آئی تھی،حالیہ دنوں میں برطانیہ سمیت دیگر 27ممالک نے فلسطینیوں کو انسانی وقار سے محروم کرنے پر اسرائیل کے خلاف بیان جاری کیا تھا جسے امریکی سفیر مائیک ہکابی نے ناگوار قرار دیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کب تک لفظوں کے ذریعہ کام چلائے گی۔دنیا یہ جانتی ہے کہ لفظوں سے نہ ان کے دکھ کم ہوسکتے ہیں اور نہ ہی بھوک مٹ سکتی ہے اور نہ اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ سکتا ہے، اس لیے اب عملی اقدام کی ضرورت ہے۔

ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں انسانیت مرچکی ہے،انسانوں کی شکل میں مفادات پر نظر رکھنے والے روبوٹ ہیں۔ہندوستان جیسا اہنسا وادی ملک بھی خاموش ہے کیونکہ اسرائیل سے اس کے نظریات اور مفادات وابستہ ہیں۔گزشتہ دنوں ایک خبر آئی کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے ہندوستان سے درخواست کی ہے کہ وہ اسرائیل کو جنگ بندی پر آمادہ کرے تو حکومتی سطح پر تو کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا مگر سوشل میڈیا کے توسط سے جس طرح کی باتیں سامنے آئیں، انہوں نے ہندوستانی نفسیات کی عقدہ کشائی کردی۔ یہاں کے اکثریتی عوام کی ایسی ذہنی تربیت ہوچکی ہے کہ وہ مظلوموں کی حمایت کے بجائے اسرائیل کی حمایت میں یقین رکھتے ہیں،اس خبر پر فلسطینیوں کا تمسخر اڑاتے ہوئے بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ 57اسلامی ملکوں سے کہو، ہندوستان کیوں جنگ بندی کرائے۔ہماری حکومت کو چاہیے کہ ہر چیز کو مفادات کے ترازو میں نہ تولے بلکہ انسانیت کو عزیز رکھے،اگر اس نے انسانیت کی پاسداری کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کیا تو یقینا یہ لائق ستائش قدم ہوگا۔

haneef5758@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS