جمہوریت کی قبر اور ’مسلم قیادت‘ کی خامشی

0

بہار کی سرزمین پر ایک فیصلہ کن معرکہ برپا ہے،مگر اس میں صف اول کے جن سپہ سالاروں کو للکارنا تھاوہ یا تو خیموں میں دبکے بیٹھے ہیںیا پھر میڈیا کی روشنی میں اپنے عمامے سنوار رہے ہیں۔ وقف ایکٹ کے خلاف گزشتہ ماہ جب پٹنہ کے گاندھی میدان میں زبردست احتجاجی ریلی نکالی گئی تو اس کی قیادت خود امارت شرعیہ نے کی تھی۔ اسٹیج پر طرح طرح کے مذہبی و نیم مذہبی اداروں کے نمائندے موجود تھے اور ہر طرف سے لہو گرما دینے والے نعرے سنائی دے رہے تھے۔ مگرآج جب بات ووٹ، شناخت، شہریت اور پوری قوم کے وجود کی آ چکی ہے تو وہی امارت شرعیہ اوررنگارنگ ملی ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں جیسے کہ ووٹ چھن جانا، شہریت کا سوال،این آرسی کی تمہید ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہ ہو۔

بہار میں انتخابی فہرستوں کی تطہیر یا خصوصی نظرثانی (SIR) محض ووٹر لسٹ میں صفائی کا عمل نہیں بلکہ اسے جمہوریت کی فہرست سے اقلیتوں،دلتوں،مہاجروں اور کمزور طبقات کو نکالنے کا منصوبہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس عمل کا آغاز ایک بیوروکریٹک ہتھکنڈے کے طور پر ہوا مگر اس کے پیچھے کی اصل سیاسی نیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ الیکشن کمیشن نے اس پورے عمل کو ’’غیر قانونی ووٹروں کی شناخت‘‘ کا نام دیا ہے مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ لاکھوں غریب اور پسماندہ افراد کے پاس وہ 11 دستاویزات نہیں ہیں جو الیکشن کمیشن مانگ رہا ہے۔ ان میں اکثریت ان ووٹروں کی ہے جو ہمیشہ سے سیکولر جماعتوں کو ووٹ دیتے آئے ہیں۔ اگر بہار کی ہر اسمبلی سیٹ سے اوسطاً 3,000 ووٹ نکالے گئے تو نتیجہ آپ بخوبی جانتے ہیں، اقتدار کا رخ وہیں مڑ جائے گا جہاں یہ سازش تیار ہوئی ہے۔

یہ وہی ریاست ہے جہاں 2020 کے انتخابات میں 52 سیٹوں پر جیت کا فرق 5,000سے کم تھا۔ اب اگر صرف ایک فیصد ووٹروں کے نام ووٹر لسٹ سے کاٹ دیے جائیں تو بہار میں 7.9لاکھ لوگ اپنے بنیادی حق رائے دہی سے محروم ہوجائیں گے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی یہ سمجھے کہ یہ سب بے قصور روہنگیا، نیپالی یا غیر قانونی بنگلہ دیشی ہیں تو یہ جاہلیت کی انتہا ہوگی۔ بلکہ یہ سب وہی لوگ ہیں جو اس ملک کے اصل وارث ہیں، جنہوں نے ملک کو آزادی دلانے کیلئے اپنا خون دیا،جن کی شناخت کا اصل ثبوت ان کی قربانی،ان کی فاقہ مستی،ان کے مزدور ہاتھ ہیں،نہ کہ کوئی پیدائشی سند۔
ایسے نازک وقت میں جب ملک کے دستور پر، پارلیمنٹ کی بالادستی پر اور جمہوری حقوق پر کھلے حملے ہو رہے ہیں، امارت شرعیہ ہو یا مسلم پرسنل لا بورڈ ان کی خامشی حیران کن ہے۔ کیوںکہ جو SIR بہار سے شروع ہوا ہے،وہ پورے ملک میں NRC کا بلیو پرنٹ بننے جا رہا ہے۔ آسام کے تجربے سے سیکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ محض فہرستوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ شناخت مٹانے کی ایک سوچی سمجھی اسکیم ہے۔ آج بہار کے کسان،مزدور،مہاجر اور رکشہ والے اپنے شناختی کاغذات کی تلاش میں ہیں،کل یہی سلسلہ پورے ملک میں پھیل جائے گا۔ اب حملہ شہریوںکے وجود پر اور ان کے ووٹ پر ہے۔مسلم قیادت مذہب، مسلک،ادارہ اور شخصیت پرستی کی سیاست سے باہر نکل کر اصل عوامی سیاست کا حصہ بنے۔ یہ ایک نیا گاندھی میدان سچ مچ آباد کرنے کاوقت ہے۔ اب نہ امیر شریعت کا عمامہ اہم ہے،نہ پرسنل لا بورڈ کی قرارداد۔اب اصل ترجیح ہے کہ قوم کی شناخت، اس کا ووٹ،اس کی شہریت بچائی جائے۔

SIR کے خلاف اب ایسی تحریک کی ضرورت ہے جو وقف تحریک سے کہیں زیادہ وسیع ہو، زیادہ طاقتور ہو اور زیادہ گہرے عوامی اتحاد پر قائم ہو، ایک ایسی تحریک جو صرف مسلم حقوق کا نہیں، بلکہ ہر اس انسان کا مقدمہ لڑے جسے اس کے شہری حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ’انڈیا‘ الائنس کے قائدین کو ساتھ لے کر جمہوریت کے اس کھلے قتل عام کے خلاف میدان عمل میں اترا جائے، ایسی آواز بلند کی جائے جو صرف اقتدار کے ایوانوں تک نہ جائے بلکہ ہر خاموش دل کو جھنجھوڑ دے، ہر بے بس شہری کو حوصلہ دے اور ہر باخبر ضمیر کو عمل پر آمادہ کر دے۔ وقت کی پکار ہے کہ ہم تماشائی نہیں، شریک سفر بنیں کیونکہ جب حق خطرے میں ہو تو خاموشی بزدلی اور بے عملی خیانت بن جاتی ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS