محمد حنیف خان
تاریخ کا مقصد صرف ماضی کو جاننا نہیں ہوتا بلکہ اس کی بنیاد پر ایسے مستقبل کی تعمیر ہوتی ہے جو تابناک اور روشن ہو۔ لیکن مقاصد کے اعتبار سے تاریخ کو دیکھنے کا تناظر بدل جاتا ہے جس سے اس کی تعبیر و تشریح میں تبدیلی آجاتی ہے۔ یہی تاریخ اگر بچوں کو پڑھانی ہو تو معاملہ مزید سنجیدہ اور سنگین ہوجاتا ہے۔ایسے موقع پر خصوصی خیال یہ رکھاجاتا ہے کہ تاریخ کے ذریعہ کوئی ایسا سبق بچوں کو نہ دیا جائے جس سے مستقبل کی بنیاد میں کوئی ٹیڑھی اینٹ شامل ہوجائے جس کی وجہ سے پوری عمارت میں کجی آجائے۔تاریخ کی قرأت کا مسئلہ ہمیشہ سے متنازع فیہ رہا ہے، مگر چونکہ عام تاریخ کا مطالعہ پکے پختہ اذہان کے افراد کرتے ہیں، اس لیے وہ سچائی تک رسائی حاصل کرسکتے ہیںمگر ایسی تاریخ وہ اس عمر میں پڑھتے ہیں جب اس کے بد اثرات ان پر مرتب نہیں ہوتے لیکن اگر یہی تاریخ بچے پڑھ لیںتو اس سے ان کے ذہن متاثر ہوسکتے ہیں۔تاریخ کی قرأت اور اس کی تفہیم کا مسئلہ لاشعوری طور پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے،اس لیے بچوں کے لیے تاریخ کی ترتیب و تبویب میں خصوصی خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
حکومت ہند کے ادارہ نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ کے قیام کا اہم مقصدنصابی کتب کی تیاری ہے،جو اپنا فریضہ روز قیام سے ادا کرتا رہا ہے۔اس نے تعلیمی میقات 2025-2026کے آٹھویں کلاس کے لیے نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020کے تحت سوشل سائنس کی کتاب Exploring Scociety: India and beyond(part-I)تیار کی ہے،جس پر بحث شروع ہوگئی ہے، اس میں مغلوں سے متعلق چیپٹر کا عنوان ہے “Reshaping Indias Political Map”،یہ عنوان ہی اپنے آپ میں بہت کچھ کہہ رہا ہے۔سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ ہندوستان کے سیاسی نقشے کو نیاتناظر دینے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے۔ Reshaping دراصل نئی خاکہ سازی ہے۔اس نئی خاکہ سازی کے اسباب و عوامل پر نظر ڈالے بغیر اس کتاب کے مقاصد تک رسائی بہت مشکل عمل ہے۔
یہ بات بار بار دہرائی جاتی رہی ہے کہ ہندوستان کی تاریخ کو دوبارہ لکھے جانے کی ضرورت ہے،جس میں سچ لکھا جائے یعنی جو تاریخ اب تک ہم پڑھتے رہے ہیں وہ سچ نہیں ہے۔اسی تاریخ کی درستگی کی سمت میں اٹھایا گیا یہ قدم ہے۔اس کے مثبت یا منفی کیسے اثرات مرتب ہوں گے، اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن مواد سے متعلق جو رپورٹس شائع ہو رہی ہیں، ان کے تناظر میں مستقبل کو دیکھ لینا کوئی مشکل عمل نہیں ہے کیونکہ اس تاریخ کو کلاسوں میں پڑھائے جانے سے قبل ذہنوں کی مسمومیت کا اندازہ سماجی خلیج سے لگایا جاسکتا ہے۔
این سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر پروفیسر دنیش پرساد سقلانی نے اس کتاب میں تاریخی حقائق سے متعلق دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب تاریخی اور بھروسے مند ذرائع پر مبنی ہے۔جس میں انہوں نے بابر نامہ،بنارس گزیٹیر،ماثر عالمگیری اور دی ہسٹری اینڈ کلچر آف دی انڈین پیوپل جیسی کتابوں کا ذکر کیاہے۔مسئلہ تاریخی ماخذ و مصادر کا نہیں ہے بلکہ اہم مسئلہ اس کی تعبیر و تشریح کا ہے۔ اس کتاب کی تبویب میں تاریخ کی جو تعبیر و تشریح کی گئی ہے، اس پر سوالیہ نشان ہے۔تاریخ کو تاریخ کے تناظر میں کم دیکھاگیا بلکہ اس کی پیشکش مذہبی تناظر میں زیادہ کی گئی ہے۔کتاب کا چیپٹر ہندوستانی سیاست کے خاکہ کی تجدید 13ہویں صدی سے17ہویں صدی تک محیط ہے،جس میں دہلی سلطنت،مغلیہ سلطنت،بابر،اکبر اور اورنگ زیب کے دور حکومت کو شامل کیا گیا ہے۔دہلی سلطنت کو ایسا افراتفری،سیاسی عدم استحکام اور جنگی مہموں سے رعبیر کیا گیا ہے جس میں مسلم حکمرانوں کے ذریعہ دیہی مواضعات کی لوٹ اور مندروں کے انہدام کو اہمیت سے پیش کیا گیا ہے۔ مغلیہ دور میں مندروں پر حملے اور مغل بادشاہوں کی بے رحمی کا بار بار ذکر کیا گیا ہے جس کا تناظر مذہبی ہے۔
اس کتاب کے مطابق علاؤ الدین خلجی کے جرنیل ملک کافور نے شری رنگم،مدورئی،چدمبرم اور ممکنہ طور پر رامیشورم جیسے ہندو مراکز پر حملے کیے۔اسی طرح دہلی سلطنت کے دور میں جین،بودھ اور ہندو مندروں پر حملے ہوئے جو صرف لوٹ مار کے لیے نہیں تھے بلکہ کسراصنام(مورتی توڑنا)کے جذبے کے تحت یہ عمل کیا گیا۔جزیہ سے متعلق بتایا گیا ہے کہ کچھ سلطانوں کے ذریعہ غیر مسلم رعایا پر عائد کیا گیا یہ ٹیکس اجتماعی توہین کا سبب بنتا تھااور اس سے لوگوں پر مذہب اسلام اختیار کرنے کے ساتھ معاشی اور سماجی دباؤ پڑتا تھا جبکہ اس سے قبل ساتویں درجے میں پڑھائی جانے والی کتاب میں جزیہ کو ایک الگ ٹیکس کے طور پر بتایا گیا تھا۔ بابر سے متعلق تاریخ کی بھی اسی طرح کی تشریح و تعبیر کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ حددرجہ بے رحم تھاجو پورے شہر کی آبادی کو قتل کردیتا تھا،خواتین اور بچوں کو غلام بنا لیتا تھااور مقتولین کے سروں کو جمع کرکے اس پر فخر کرتا تھا۔اکبر کو بے رحمی اور صلح جوئی کا سنگم بتایا گیا ہے لیکن یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب اس نے چتوڑ گڑھ کے راجپوت قلعے پر حملہ کیا تو 30000شہریوں کا قتل کیااور ایک پیغام بھیجا کہ ہم نے کئی قلعوں اور شہروں کو فتح کرکے ان پر اسلام کی حکمرانی قائم کردی ہے،ہم نے ان کے ذہنوں سے کفر کو مٹا دیا ہے۔ اسی طرح اورنگ زیب سے متعلق تاریخ کی تشریح و تعبیر کی گئی ہے۔
جس کے بعد ہندوستانی معاشرے اور اس کے ڈھانچے کی تعریف کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ معاشرہ دوبارہ کھڑا ہوا اور اس نے تعمیرنو کی۔لوٹے گئے شہر دوبارہ بسے اور عبادت خانوں کے ساتھ معاشی ڈھانچہ دوبارہ بنایا گیا۔ تاریخ کے اس باب کا آغاز اس کے مقصد کو واضح کردیتا ہے جس میں اسے ’’سیاہ دور‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یہ وہ دور ہے جب جنگ،تشدد،تعصب اور اقتدار کی خواہش نے معاشرے کو متاثر کیا۔یہ ضرور ہے کہ ایک نوٹ بھی لکھا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تاریخ کے ایسے دور کو غیر جانبدار نظریے سے دیکھنا ضروری ہے، کسی کوآج اس کے لیے مجرم ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔
یہ نوٹ خود اپنے آپ میں بہت کچھ کہہ رہا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ ذمہ دار ادارے کو ہندوستان کے سماجی تانے بانے کا علم نہ ہو،اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس وقت ہمارا معاشرہ کن حالات سے نبرد آزما ہے،اس کے سامنے کیسے حالات ہیں،آج جب نیشنلزم کو مزید قوت کے ساتھ آگے بڑھانے اور ہر شخص میں جذبہ حب الوطنی بھرنے کی ضرورت ہے اور ایسا کیا بھی جا رہا ہے، تب ہمارا معاشرہ مذہبی بنیادوں پر تفریق کا شکار ہے۔ادارے کو اس سچائی کا علم ہے،اس لیے اس نے اقدام کے ساتھ ہی اس کے ردعمل پر قابو پانے کے لیے یہ نوٹ لکھا ہے،حالانکہ نصابی کتب میں اس طرح کے نوٹ کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی ہے لیکن چونکہ ادارے کے ارباب حل و عقد کو اس سچائی کا علم ہے کہ نصاب میں اس تبدیلی اور تاریخ کی تجدید (ریشیپنگ) سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ تاریخ کی تجدید اور اس کی نئی خاکہ سازی جس انداز میں ہوئی ہے،ادارے کے مطابق اس کا مقصد سچ کو سامنے لانا ہے لیکن اس کے پس پشت سچ کو سامنے لانے کے بجائے دوسرے عوامل کارفرما ہیں،جن کے بارے میں وقتاً فوقتاً کھلے بندوں باتیںبھی ہوتی رہی ہیں اور صاف طور پر تاریخ کو نئے سرے سے مرتب کرنے کی بات کہی جاتی رہی ہے،جس کو تاریخ نویسی کے بجائے تاریخ سازی کے زمرے میں رکھا جانا چاہیے۔اگر حکومت کو تاریخ بنانا ہے تو اس کے لیے ہمیں ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جو ہمیں اتحاد و اتفاق کا درس دے،جسے پڑھ کر ہمیں ملک کے ہر شہری سے محبت ہوجائے لیکن جس انداز میں مسلم دور حکمرانی کو ’’سیاہ دور ‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس میں تاریخ کی جس طرح سے تشریح و تعبیر کی گئی ہے، اس کی بنیاد پر ایسے مستقبل کی امید نہیں کی جاسکتی جو اتحاد و اتفاق کے حوالے سے تابناک اور روشن ہو۔جس کا ایک سبب آج کا موجودہ معاشرہ بھی ہے جس کا ذہن اس قدر مسموم ہوچکا ہے اور خلیج اتنی بڑھ چکی ہے کہ برقع،داڑھی اور ٹوپی جیسے علائم آج نفرت کے لیے کافی ہیں۔