مفت بجلی کا سیاسی منتر

0

آخرکار وزیراعلیٰ نتیش کمار کو مفت بجلی کا خیال آ ہی گیا! وہی نتیش کمار جنہوں نے برسوں تک اروند کجریوال کے ’مفت بجلی ماڈل‘ کو ہدف تنقید بنایا،آج اسی ڈگر پر چل نکلے ہیں۔ جولائی کے سورج تلے بہار کی سیاست میں اچانک ایسی روشنی پھوٹی ہے جس کی کرنیں سیدھے ایک کروڑ 67 لاکھ گھروں تک پہنچنے والی ہیںمگر یہ روشنی بجلی سے نہیں، انتخابی مصلحتوں سے پیدا ہوئی ہے۔

17 جولائی 2025 کو وزیراعلیٰ نے سوشل میڈیا پر بڑے فخر سے اعلان کیا کہ یکم اگست سے بہار کے تمام گھریلو صارفین کو 125 یونٹ بجلی مفت ملے گی اور جولائی کے مہینے سے اس سہولت کا اطلاق ہوجائے گا۔ کہا گیا کہ اس فیصلے سے ریاست کے 1.67کروڑ خاندان فائدہ اٹھائیں گے اور حکومت پر 3375 کروڑ روپے کا سالانہ بوجھ پڑے گا۔ ساتھ ہی اگلے تین برسوں میں ان تمام گھروں کی چھتوں پر یا قریبی مقامات پر سولر پلانٹس لگانے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا جس کے تحت 10 ہزار میگا واٹ شمسی توانائی کی پیداوار کا ہدف مقرر ہے۔ ’’کٹیر جیوتی یوجنا‘‘ کے تحت غریب خاندانوں کو یہ سہولت بلامعاوضہ دی جائے گی،جب کہ دیگر طبقات کو سبسڈی دی جائے گی۔

مگر سوال یہ ہے کہ یہ اعلان اچانک کیوں اور اب ہی کیوں؟ 2015 سے مسلسل اقتدار میں رہنے والے نتیش کمار کوآٹھ بار کرسی پر بیٹھنے کے بعد بجلی کی قیمت کا درد اب جاگا؟ 30 نومبر 2022 کو اروند کجریوال کے مفت بجلی ماڈل کو ’’غلط کام‘‘ قرار دینے والے نتیش آج خود اسی ماڈل کو چادر بنا کر اوڑھ بیٹھے ہیں۔ کیا یہ تضاد محض ’تبدیلی فکر‘ کا نام ہے یا سیاسی مصلحت کی چالاکی؟

یہ اعلان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب بہار میں ووٹرلسٹ کی نظرثانی کے دوران دھاندلی کے سنگین الزامات عائد ہو رہے ہیں۔ اپوزیشن خاص طور پر آر جے ڈی اور کانگریس الیکشن کمیشن پر الزام لگا رہی ہیں کہ وہ حکمراں جماعتوںجے ڈی یو اور بی جے پی کے اشاروں پر کام کر رہا ہے۔ الزام ہے کہ انتخابی فہرستوں میں جان بوجھ کر رد و بدل کر کے رائے دہندہ کا جھکائو اپنے حق میں کیا جا رہا ہے۔ اسی ماحول میں جب حکومت کی ساکھ دائو پر لگی ہو،ایسے میں ایک ’’تحفہ‘‘ دیناوہ بھی مفت بجلی کی شکل میں،صاف ظاہر کرتا ہے کہ عوام کو رام کرنے کی پرانی چال ایک بار پھرآزمانی ہے۔

اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو نے بجاکہاہے کہ نتیش جی کو 18 سال بعد مفت بجلی یادآئی،جب الیکشن قریب ہے۔ یہ عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ یہ وہی تنقید ہے جو ماضی میں نتیش نے کجریوال پر کی تھی۔آج وہی نشتر ان کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بی جے پی،جو ہمیشہ ’ریوڑی کلچر‘ کی مخالف رہی ہے،آج اس اسکیم پر خاموش بلکہ نیم رضامند نظر آتی ہے۔ 16 جولائی 2022 کو وزیراعظم نریندر مودی نے ’ریوڑی کلچر‘ کو نئے ہندوستان کیلئے خطرہ قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی پالیسیاں ملک کو اندھیروں میں دھکیل دیں گی۔ 2023 میں انہوں نے مفت بجلی کی گارنٹی کو ’’مہنگی بجلی کی تیاری‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ تو اب کیا یہ سمجھا جائے کہ بہار میں بی جے پی بھی اسی اندھیرے میں روشنی تلاش کر رہی ہے؟

حال ہی میں نتیش کمار نے بزرگوں اور بیوائوں کی پنشن میں 700 روپے کا اضافہ کیا،خواتین کیلئے سرکاری نوکریوں میں 35 فیصد ریزرویشن کا اعلان کیااور ٹیچر بھرتی کیلئے فوری امتحانات کرانے کی ہدایات بھی دیں۔ یہ سب کچھ اگست سے نومبر تک ہونے والے متوقع اسمبلی انتخابات سے عین قبل ہو رہا ہے۔ گویا نتیش حکومت عوامی مفادات کے مفروضہ بوجھ تلے وہ سب کچھ کر گزر رہی ہے جو عام دنوں میں محض ’ریوڑی‘ کہلاتا تھا۔
نتیش کمار کا یہ بدلتا ہوا چہرہ نہ صرف ان کی سیاسی مجبوریوں کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ ہندوستانی سیاست میں اصول،وقتی فائدے کے آگے اکثر ماند پڑ جاتے ہیں۔ جہاں کل کے وعدے آج کے نعروں میں بدل جائیں اور آج کے بیانات کل کی ہزیمت کا باعث بنیںوہاں حکمت عملی اور نیت کے درمیان فاصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔

لہٰذا،یہ فیصلہ محض بجلی کا نہیں بلکہ سیاسی بجلی گری ہے، جس کی چمک سے عوام کو فی الوقت روشنی ضرور مل سکتی ہے، مگر اس کے پیچھے چھپی انتخابی تاریکی کو نظرانداز کرنا دانشمندی نہیں۔ یہ مفت بجلی کا نہیںمفت امیدوں کا ’سرکٹ‘ ہے جو شاید ووٹوں کا کرنٹ پیدا کرے،یا شاید کرنٹ لگ جائے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS