روزگار کا نیا فریب: اعداد و شمار کا جادو یا سچائی کا انکار؟

0

یہ وہ عہد ہے جہاں بے روزگاری کا خاتمہ منصوبہ بندی سے نہیں،لغت میں تبدیلی سے کیا جا رہا ہے۔ جی ہاں،اب اگر کوئی شہری ہفتے میں صرف ایک گھنٹہ کام کرے تو حکومت ہند کے مطابق وہ ’’روزگار یافتہ‘‘ شمار ہوگا۔ یہ نیا زاویۂ فکر شاید دنیا کے کسی بھی معقول نظام معیشت میں قابل قبول نہ ہو،لیکن ہندوستان میں یہی تعریف روزگار کے اعداد و شمار کو خوبصورت بنانے کیلئے رائج کی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا ایسی اصلاحات اعداد و شمار کے پردے میں حقائق کو دفن کرنے کی چالاکی نہیں؟

مودی حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو عوام کو ترقی، خوشحالی، شفاف حکومت اور ہر سال دو کروڑ نئی ملازمتوں کا خواب دکھایا گیا۔ لیکن نیشنل سیمپل سروے آفس (NSSO) کی 2017-18کی رپورٹ نے اس خواب کی قلعی کھول دی۔ اس سروے کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح 6.1فیصد تک جا پہنچی،جو گزشتہ 45 برسوں میں سب سے بلند سطح تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب حکومت نے رپورٹ کو جاری کرنے سے بھی گریز کیا،جس سے سیاسی دبائو اور شماریاتی سچائی کے باہمی تصادم کا اندازہ ہوتا ہے۔

حکومت کے تازہ ترین پیریاڈک لیبر فورس سروے (PLFS) 2024 کے مطابق 15 سے 29 سال کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 15 فیصد ہے۔ ملک میں بے روزگاری کی مجموعی شرح 5.6فیصد بتائی گئی ہے،مگر اس کے پیچھے جو منطق ہے وہ چونکانے والی ہے کہ اگر کوئی فرد ہفتے میں صرف ایک گھنٹہ بھی کسی قسم کا کام کرتا ہے وہ بھی غیرمستقل،غیرپیشہ ورانہ یا عارضی نوعیت کا تو اسے Employedقرار دیا جاتا ہے۔

یہ تعریف اقتصادی حقیقتوں سے فرار کا راستہ ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کے معیار کے مطابق مکمل روزگار صرف اسی کو حاصل ہوتا ہے جو ہفتے میں کم از کم35 سے 40 گھنٹے کام کرتا ہو اور اسے اپنی مزدوری یا خدمات کے عوض مناسب اجرت ملتی ہو۔ کیا ہندوستان کے ان لاکھوں نوجوانوں کو،جو فقط چند گھنٹے عارضی کام کر کے بمشکل ایک وقت کی روٹی حاصل کرتے ہیں، روزگار یافتہ کہنا انصاف ہے یا محض خودفریبی؟

سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی(CMIE) کے مطابق جنوری 2025 میں ملک میں بے روزگاری کی شرح 7.5 فیصد تھی۔ کچھ ریاستوں میں یہ شرح حیران کن حد تک بلند ہے، ہریانہ میں30.7،راجستھان میں25.3 اور جموں و کشمیر میں18.6 فیصد ہے۔یہی وہ اعداد و شمار ہیں جنہیں نظرانداز کر کے حکومت اپنی کامیابی کے پرچم لہرائے بیٹھی ہے۔

جب ملازمتوں کی کمی،صنعتی زوال اور نجی شعبے کی سست روی جیسے عناصر واضح ہیں،تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ اعداد و شمار میں یہ خوبصورتی کہاں سے آئی؟ جواب صاف ہے کہ بے روزگاری کی تعریف بدل دی گئی ہے،جس طرح کالے دھن کے معاملے میں وعدے کیے گئے تھے کہ ہر ہندوستانی کے کھاتے میں یوں ہی 15-20 لاکھ روپے آئیں گے،اسی طرح روزگار کے میدان میں بھی کاغذی کامیابی کو زمینی حقیقت پر غالب کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔آج صورت حال یہ ہے کہ کروڑوں گریجویٹس اور پوسٹ گریجویٹس محض کنٹریکٹ بیس پر جزوقتی نوکریوں کے منتظر ہیں۔ ان کی تعلیمی قابلیت،ان کے خواب،ان کی توانائی سب ہفتے میں ایک گھنٹہ کام کی چھتری کے نیچے چھپائے جا رہے ہیں۔

یہ طرز حکمرانی صرف وعدہ خلافی نہیں،بلکہ ایک پوری نسل کے اعتماد سے کھلواڑ ہے۔حکومت انتہائی بے رحمانہ سیاسی چالاکی سے سچ کو فریب کے پردے میں چھپا کر پیش کررہی ہے۔
یاد رہے کہ جب قوموں کی ترقی کا اندازہ صرف تعریف کی بنیاد پر لگایا جانے لگے تو وہ صرف بین الاقوامی سطح پر مذاق نہیں بنتی بلکہ اندرونی اعتبار سے بھی کھوکھلی ہوجاتی ہے ’لہٰذا‘وقت کی پکار یہی ہے کہ روزگار کی تعریف کو زمینی حقیقتوں سے ہم آہنگ کیا جائے، اعداد و شمار کو شفاف اور غیرجانبدارانہ انداز میں جاری کیا جائے اور نوجوانوں کے خوابوں کو سیاسی نعرے نہیں،عملی مواقع فراہم کیے جائیں۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہندوستان کی معیشت صرف کاغذوں میں ترقی یافتہ ہوگی اور حقیقت میں فقط نئے اعداد و شمار کے ساتھ وہی پسماندگی،وہی بے بسی،وہی انتشار باقی رہے گا۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS