پروفیسر عتیق احمد فاروقی
ملکی ہوابازی میں ترقی کے دعوے، عالمی معیار کے جہاز، تربیت یافتہ عملہ، اور اربوں روپے کے انفرااسٹرکچر کے باوجود جب ایک جدید ترین بوئنگ 787 محض پانچ منٹ میں خاک ہوجائے تو یہ صرف ایک حادثہ نہیں رہتا — بلکہ یہ پورے نظام کی جانچ، انسانی نااہلی اور ٹیکنالوجی کے زعم کا نوحہ بن جاتا ہے۔ یہ حادثہ ہمیں صرف مسافروں کی جان سے محروم نہیں کرتا، بلکہ قومی یقین، اعتماد اور ترقی کی سمت پر بھی گہرا سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔
12 جون کو احمد آباد میں پیش آنے والا طیارہ حادثہ ہندوستان کی ہوابازی کی تاریخ کا ایک ایسا اندوہناک باب ہے جسے فراموش کرنا ممکن نہیں۔ حادثے کے بعد سے لے کر اب تک — یعنی تقریباً ایک ماہ گزرنے کے بعد— قوم اب بھی اس صدمے سے سنبھل نہیں پائی ہے۔ اس دوران تحقیقاتی ایجنسیاں، ماہرین ہوابازی اور حکومت مسلسل اس کوشش میں مصروف ہیں کہ حادثے کے حقیقی اسباب تک پہنچا جا سکے اور مستقبل میں ایسے کسی سانحہ سے بچا جا سکے۔یہ حادثہ سردار ولبھ بھائی پٹیل بین الاقوامی ہوائی اڈے کے رن وے نمبر 23 سے ٹیک آف کے صرف پانچ منٹ بعد پیش آیا۔ جیسے ہی طیارے نے بلندی کی طرف پرواز کی، پائلٹ کی جانب سے ’’میڈے کال‘‘ دی گئی، جو کہ بین الاقوامی ایوی ایشن میں فوری خطرے کی نشاندہی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس لمحے سے لے کر طیارے کے زمین سے ٹکرانے تک کے محض چند منٹ نے کئی زندگیاں چھین لیں اور ان کے خاندانوں کو غم میں مبتلا کر دیا۔حادثے میں ایئر انڈیا کے بوئنگ 787 طیارے میں سوار مسافر اور عملے کے ارکان میں سے اکثریت ہلاک ہوگئی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق اب تک221 لاشوں کی شناخت ہو چکی ہے، جن میں کئی کی حالت ناقابلِ شناخت تھی اور ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے شناخت کا عمل مکمل کیا گیا۔ صرف ایک خوش نصیب ایسا تھا جو شدید زخمی حالت میں بچا لیا گیا۔
حادثے کے فوراً بعد جو ابتدائی مناظر میڈیا کے ذریعے سامنے آئے، وہ دل دہلا دینے والے تھے۔ آگ کی ہولناک لپٹیں، کالے دھوئیں کے بادل اور عمارتوں کی تباہی — یہ سب کسی قیامت صغریٰ سے کم نہ تھا۔ اس کے بعد جب تحقیقاتی ٹیمیں جائے حادثہ پر پہنچیں تو طیارے کا بلیک باکس بازیاب کر لیا گیا، جسے دہلی بھیجا گیا تاکہ اس کے تجزیے سے حادثے کے محرکات کا اندازہ لگایا جاسکے۔ایوی ایشن ماہرین کے مطابق، طیارے کے ٹیک آف کے دوران موجود زیادہ مقدار میں ایندھن، اس کے فوری شعلوں میں تبدیل ہونے کی ایک بڑی وجہ رہا۔ فیول ٹینک طیارے کے نچلے حصے میں موجود ہوتے ہیں اور حادثے کے وقت فوراً آگ کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرنے والوں میں بیشتر کی موت جھلسنے کی وجہ سے ہوئی۔
ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ(جو 2 جولائی کو ڈی جی سی اے کی جانب سے جاری کی گئی) میں حادثے کی ممکنہ وجوہات میں تکنیکی خرابی اور انسانی غلطی دونوں پہلوؤں کا ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، طیارے کے خودکار فلائٹ کنٹرول سسٹم میں چند لمحاتی خامیاں نوٹ کی گئیں، جن کی بروقت نشاندہی کے باوجود، شاید عملے کی جانب سے ان کا ازالہ نہیں کیا جا سکا۔ ماہرین نے مزید کہا ہے کہ ’’میڈے کال‘‘ کا بروقت دیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ پائلٹ اپنی مکمل پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ صورت حال کو قابو میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔پیشہ ورانہ اعتبار سے دیکھا جائے تو طیارے کے پورے سفر میں ٹیک آف اور لینڈنگ کے لمحات سب سے نازک ہوتے ہیں۔ ہوابازی کی تاریخ میں اب تک جتنے بھی حادثات ہوئے ہیں، ان میں تقریباً نصف انسانی غلطیوں، خاص طور پر پائلٹ کی چوک کے باعث پیش آئے ہیں، جنہیں تکنیکی زبان میں ’’ہیومن ایرر‘‘ یا ’’پائلٹ ایرر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ جدید ٹیکنالوجی اور فلائٹ مینجمنٹ سسٹم نے ان غلطیوں میں نمایاں کمی کی ہے، لیکن ہمیں یہ حقیقت کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ہر جدید ترین مشین کو چلانے والا بھی ایک انسان ہی ہوتا ہے۔
آج کے طیاروں میں ’’فلائٹ مینجمنٹ کمپیوٹر‘‘، ’’فلائٹ مینجمنٹ سسٹم‘‘، ’’انٹیگریٹیڈ الارم سسٹم‘‘ اور خود کار جانچ کے نظام نصب ہوتے ہیں، جو کسی بھی ممکنہ تکنیکی خرابی کی پیشگی اطلاع دے سکتے ہیں۔ یہ نظام نہ صرف پائلٹ کو کسی ممکنہ خطرے سے خبردار کرتے ہیں، بلکہ بسا اوقات پائلٹ کی دی گئی کمانڈ کی دوبارہ توثیق بھی چاہتے ہیں۔ اس کے باوجود، مکمل کنٹرول بہرحال پائلٹ اور کو پائلٹ ہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اگر کمپیوٹر سسٹم کی پروگرامنگ میں معمولی سی بھی کوتاہی ہو، یا کسی مقام پر انسانی لاپروائی آجائے تو ایک معمولی تکنیکی نقص بھی بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔ عام طور پر طیارہ حادثات کی پانچ بڑی وجوہات تسلیم کی جاتی ہیں: پائلٹ کی غلطی، تکنیکی خرابی، موسم کی شدت یا خرابی، تخریب کاری یا سازش اور دیگر انسانی غلطیاں۔ ان دیگر غلطیوں میں پائلٹ کے علاوہ فلائٹ انجینئر، ایئر ٹریفک کنٹرول، گراؤنڈ اسٹاف یا کارگو لوڈنگ ٹیم کی جانب سے کی گئی بے احتیاطیاں شامل ہیں۔ اس طیارہ حادثے نے نہ صرف ایوی ایشن سیکٹر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، بلکہ ہمارے نظام کے لیے ایک تنبیہ بھی ہے کہ جہاں ترقی کی رفتار تیز ہو، وہیں حفاظتی نظام کی مکمل پختگی بھی لازمی ہے۔ہندوستان جیسے ملک میں جہاں ہوابازی کے شعبے کی توسیع تیزی سے ہو رہی ہے اور دوم و سوم درجے کے شہروں میں بھی ہوائی سفر عام ہوتا جا رہا ہے، ایسے میں بوئنگ 787 جیسے جدید اور محفوظ سمجھے جانے والے طیارے کا یوں حادثہ کا شکار ہو جانا عام مسافروں کے اعتماد پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔حادثے کے بعد سے نہ صرف ہوابازی ادارے حرکت میں آئے، بلکہ متاثرہ خاندانوں کے لیے مختلف ریاستی حکومتوں نے مالی امداد، نفسیاتی مدد اور قانونی تعاون کی یقین دہانیاں بھی کرائیں۔ تاہم، کئی لواحقین نے تاخیر، افسرشاہی کی رکاوٹوں اور معلومات کی عدم دستیابی پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔ بعض متاثرہ خاندانوں نے عدالت سے بھی رجوع کیا ہے کہ حادثے کے ذمہ دار عناصر کو سامنے لایا جائے اور انصاف فراہم کیا جائے۔ ان مطالبات نے شہری ہوابازی کے پورے ڈھانچے کو شفافیت اور جوابدہی کی جانب مائل کرنے کا ایک نیا موقع فراہم کیا ہے، بشرطیکہ حکومت اس پر سنجیدگی سے عمل کرے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حادثے کے حقیقی اسباب تک جلد از جلد پہنچا جائے۔ شہری ہوابازی کی وزارت کے تحت کام کرنے والی ڈی جی سی اے (ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن) نے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے، جس میں ماہرین ہوابازی کے ساتھ ساتھ ایئر فورس کے تجربہ کار ماہرین کو بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ جانچ مکمل طور پر تکنیکی اور غیر جانبدارانہ ہو۔ کمیٹی کا ابتدائی کام جاری ہے اور جلد مکمل رپورٹ متوقع ہے۔جب تک تحقیقاتی کمیٹی کی حتمی رپورٹ منظرعام پر نہیں آتی، تب تک قیاس آرائیاں جاری رہیں گی اور وہ قیاس مسافروں میں بے چینی اور اداروں میں اضطراب پیدا کریں گے۔ ایسے میں میڈیا، ایوی ایشن اتھارٹی اور حکومت کی مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے کہ نہ صرف عوام کو وقتاً فوقتاً درست معلومات دی جائے، بلکہ ہر سطح پر احتیاطی اقدامات میں تیزی لائی جائے۔
یہ سانحہ ہمیں ایک بار پھر یہ سبق دے گیا ہے کہ ہوائی سفر جتنا سہل اور تیزرفتار ہوتا جا رہا ہے، اتنی ہی ذمے داری کے ساتھ اس کے حفاظتی پہلوؤں کو بھی مضبوط بنانا ہوگا۔ انسانی جانوں کی حفاظت کسی بھی ترقی یافتہ نظام کی پہلی شرط ہے — اور یہی اصول ہمیں آگے لے جا سکتا ہے۔