ڈاکٹر محمد فاروق
گائے کو ماں کہنے والے اور اس کے تحفظ کے نعرے پر سیاست چمکانے والے اگر خود اس کے سوداگر بن جائیں تو اسے کیا کہا جائے؟ آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کے زیر سایہ چلنے والا گروکھوتی کثیر مقصدی زرعی منصوبہ (Garukhuti Multipurpose Agricultural Project)ایک ایسے سیاسی اور مالی گھوٹالے کی شکل اختیار کر چکا ہے،جو صرف بدانتظامی نہیں،بدنیتی کا بھی کھلا ثبوت ہے۔ خود کفیل کسانوں کے خواب کو حقیقت بنانے کے نام پر شروع ہونے والا یہ منصوبہ، جس کیلئے دارنگ ضلع کے سیپاجھر میں77000 بیگھہ اراضی تجاوزات سے پاک کی گئی، ابتدا ہی سے مشکوک عزائم کی آماجگاہ بن گیا۔ اس زمین سے 10 ہزار سے زائد بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کو زبردستی بے دخل کیا گیا،ان پر غیر قانونی بنگلہ دیشی ہونے کے الزامات عائد کیے گئے اور پھر بے رحمی سے ان کے گھروں کو مسمار کر کے زمین کو ’’گئو ماتا‘‘ کے تحفظ کیلئے مختص کر دیا گیا۔
گرکھوتی زرعی پروجیکٹ کا بظاہر مقصد جدید زراعت، مویشی پروری اور خود کفالت کی طرف قدم بڑھانا تھا۔ لیکن یہ منصوبہ جس انداز میں گائے خریداری،ان کی تقسیم اور بعد میں ان کے مرنے یا غائب ہونے کے مراحل سے گزرا،اس نے اس پروجیکٹ کو محض ایک سیاسی تماشہ اور مالی لوٹ کھسوٹ کی نذر کر دیا۔یہ منصوبہ دراصل گائے کے گرد گھومتا تھا۔ دعویٰ کیا گیا کہ گجرات سے درآمد کی جانے والی گر نسل کی گائیں آسام کی معیشت میں دودھ کے انقلاب کی بنیاد بنیں گی۔ لیکن جو گائیں گجرات سے منگوائی گئیں وہ یا تو بیمار تھیں یا بانجھ تھیں۔ جانوروں کے ماہرین نے پہلے ہی نشاندہی کر دی تھی کہ یہ مویشی نہ افزائش کے قابل ہیں نہ دودھ دینے کے قابل ہیں،مگر اس کے باوجود 300 گائیں نیشنل ڈیری ڈیولپمنٹ بورڈ کے نیشنل ڈیری سروسز (NDDB-NDS) کے ذریعے خریدی گئیں۔ جن میں سے صرف 210 پروجیکٹ سائٹ پر پہنچیں۔ 90 گائیں مختلف سیاسی نمائندوں، وزیروں، ایم ایل ایز اور ایک مخصوص نجی کمپنی کو 66000روپے فی کس کی شرح سے بیچ دی گئیں۔ حکومت نے سرکاری خزانے سے خریدی گئی گائیں اپنی سیاسی نرسری کے کھلاڑیوں میں اس مہارت سے بانٹ دیں گویا سرکاری اسکیم نہیں بلکہ پارٹی فنڈ کی تقسیم ہو رہی ہو۔ گرکھوتی میں جو 210 گائیں پہنچیں،ان میں سے 56 چند ہی دنوں میں ہلاک ہوگئیں اور باقی بچنے والی گائیں گجرات واپس بھیج دی گئیں۔ اب جب یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر گائیں رکھنے کی گنجائش ہی نہ تھی تو 300 گائیں کیوں خریدی گئیں؟ تو وزیراعلیٰ اور ان کے رفقاء کی زبانوں پر چپ کا قفل پڑ جاتا ہے،یا بات کا رخ بدل دیا جاتا ہے۔
حکومت کی اس فریب کاری اور مالی بدعنوانی کے خلاف کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسسٹ) نے علم احتجاج بلند کیا ہے۔ پارٹی کے ریاستی سیکریٹری سپرکاش تالوکدار نے گوہاٹی میں پریس کانفرنس کے دوران حکومت پر واضح الزامات عائد کیے۔ ان کے ساتھ مرکزی کمیٹی کے رکن اشفاق الرحمن،نین بھویان اور نیرنگ کش ناتھ بھی شریک تھے۔ آر ٹی آئی کے جوابات، اسمبلی میں وزرا کے بیانات، میڈیا رپورٹیں اور منصوبے کے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے ثابت کیا کہ پورا پروجیکٹ تضادات، جھوٹ اور مالی بے ضابطگیوں کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ کسی جگہ 24 گایوں کا ذکر ہے، کہیں 98،کہیں 122 اور پھر اچانک 300 کاذکرآجاتاہے۔ گورنر کی بجٹ تقریر میں 108 گایوں کا ذکر آیا،جب کہ پروجیکٹ افسر کا کہنا ہے کہ وہاں فی الحال 210 گائیں موجود ہیں،جن کے ساتھ 130 بچھڑے بھی ہیں۔ ان سب بیانات میں سچائی کے بجائے صرف دھوکہ نظرآرہاہے۔ سی پی آئی ایم نے مطالبہ کیا ہے کہ اس پورے گھوٹالے کی وقت مقررہ عدالتی تحقیقات کسی موجودہ یا ریٹائرڈ جج کی نگرانی میں کی جائے۔ انہوں نے وزیر زراعت اتل بورا، پروجیکٹ آفیسر یوگبرتا ناتھ خود وزیراعلیٰ ہیمنت سرما کے بیانات میں تضادات کو بے نقاب کرتے ہوئے اسے ایک مربوط دھوکہ دہی سے تعبیر کیا۔
سی پی آئی ایم نے صرف مالی گھپلے کا انکشاف نہیں کیا بلکہ سیاسی اقربا پروری پر بھی سوال اٹھایا۔ وزیر جینتا ملہ بروا کی اہلیہ کے فارم پر آمدنی میں چند سالوں میں 1.91لاکھ روپے سے 77 لاکھ تک کا اچانک اضافہ،اس شبہ کو جنم دیتا ہے کہ زرعی منصوبے کی آڑ میں کالا دھن سفید کرنے کی راہ نکالی گئی ہے،جس کا تعلق جل جیون مشن جیسے قومی منصوبوں کے فنڈز سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔اس کے خلاف سی پی آئی(ایم) نے 4 جولائی کو ریاست گیر بند بلایا تھاجو عوامی غصے کا آئینہ دار ثابت ہوا۔ اس بند میں کسان، مزدور، طلبا‘ دانشور اور عام شہری شامل ہوئے۔ انہوں نے واضح پیغام دیا کہ اب سرکاری لوٹ مار برداشت نہیں کی جائے گی۔
اس شرمناک کہانی کی سب سے کربناک جہت یہ ہے کہ جب اس معاملے نے میڈیا کی توجہ حاصل کی تو ہیمنت سرما نے نام نہاد ’’گائے کے گوشت کی برآمد‘‘ پر زور دینے کی ہدایت دے کر اصل گھوٹالے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی۔ اس کے بعد سے ہی اچانک ہر دوسرے دن مندروں سے گائے کا گوشت ’’برآمد‘‘ہونے لگا۔
یہ تمام حقائق بتارہے ہیں کہ گروکھوتی کثیر مقصدی زرعی منصوبہ،منصوبہ نہیں،ایک سیاسی جرم ہے۔ اور اس کا ہر کردارچاہے وہ وزیر ہو، ایم ایل اے ہو، یا پروجیکٹ آفیسراس جرم کا شریک ہے۔ آج آسام کی زرخیز زمین زہرآلود ہوچکی ہے۔ جہاں کبھی فصل اگتی تھی، آج وہاں سازش کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ گائے اب دودھ دینے والا جانور نہیں بلکہ سیاسی منافع کا ذریعہ بن چکی ہے۔ عوام کے پیسوں سے خریدی گئی گائیں وزیروں کے کھونٹوں پر بندھی ہیںاور غریب کسان اپنی چھت،اپنی زمین اور اپنے مستقبل سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہ پروجیکٹ زرعی انقلاب نہیں،بلکہ ریاستی استحصال اور مذہبی سیاست کی بے رحم داستان ہے۔ اگر انصاف واقعی زندہ ہے تو یہ گھوٹالہ ہیمنت بسوا سرما کے سیاسی زوال کی بنیاد بنے گا۔ ورنہ گرکھوتی کی زمین پر صرف گایوں کا خون نہیں،جمہوریت کا جنازہ بھی دفن ہو چکا ہے۔