صبیح احمد
سیاست اور سفارت میں کسی بھی چیز کو استقلال و استحکام حاصل نہیں ہوتا۔ 90 کی دہائی میں کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ جس گروپ نے سوویت یونین (روس) کو افغانستان سے کھدیڑا، دہائیوں بعد روس اسی گروپ کے وارثین کے ساتھ ہاتھ ملانے اور رشتے قائم کرنے والا پہلا ملک بن جائے گا۔ افغانستان میں روس یا ماضی کے سوویت یونین کی یادیں کوئی زیادہ خوشگوار نہیں رہی ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کافی پیچیدہ رہے ہیں۔ 1979 سے 1989 تک وہ افغان مجاہدین کے خلاف لڑتا رہا۔ اس جنگ میں 15,000 سے زیادہ سوویت فوجی مارے گئے جس کے نتیجے میں وہ 1989 میں افغانستان سے انخلا پر مجبور ہوا تھا۔
روس بالآخر افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔ یہ فیصلہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو سکتا ہے یا پھر وقتی مفاد پرستی۔ روس کے اس قدم سے ترغیب پا کر خطہ کے ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک بھی اس سمت میں آگے بڑھ سکتے ہیں اور افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کرکے خطہ میں سفارتی اور سیاسی دور کا نئے سرے سے آغاز کر سکتے ہیں۔ اگلا نمبر چین کا ہو سکتا ہے۔ چین کے لیے افغانستان کافی اہمیت رکھتا ہے، خاص طور پر چین کو ایشیا، یوروپ اور افریقہ سے روڈ، ریلویز اور بندر گاہوں کے ذریعہ جوڑنے والے اس کے اولوالعزم ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئٹیو‘(بی آر آئی) پروجیکٹوں کے لیے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی صورتحال میں، خواہ وہاں حکومت کسی کی بھی ہو، چین نے افغانستان سے ا پنا رشتہ ہمیشہ بنائے رکھا۔ چین کا موقف ہے کہ افغانستان کو دنیا سے الگ تھلگ نہیں ہونا چاہیے۔ روس کے اس فیصلے پر چین نے فوری طور پر مثبت ردعمل کا اظہار کیا۔ چین نے روسی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے افغانستان اور بین الاقوامی برادری کے درمیان روابط میں اضافہ کی حمایت کی ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ روس کے اس فیصلے کے بعد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ایک دو ملک کی جانب سے انفرادی مفاد حاصل کرنے کی کوشش تک محدود ہوجائے! کیونکہ مغرب اور بالخصوص امریکہ یہ قطعی نہیں چاہے گا کہ طالبان کے سیاسی و سفارتی قد میں اضافہ ہو اور دنیا کے ممالک کے ساتھ اس کے رشتے استوار ہوں۔ امریکہ کی یہ کوشش ہوگی کہ کم از کم اس کے حامی ممالک اس میں دلچسپی دکھانے سے گریز کریں۔ البتہ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کے ممالک طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں روس کی تقلید کرتے ہیں یا مغرب کا انتظار۔
بہرحال 90 کی دہائی میں یعنی طالبان حکومت کی پہلی مدت کار میں صرف پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وہ 3 ملک تھے، جنہوں نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ اس مرتبہ یہ بازی روس لے گیا ہے۔ 2021 میں طالبان کی اقتدار میں دوبارہ واپسی کے بعد روس پہلا ملک تھا جس نے کابل میں اپنا تجارتی نمائندہ دفتر کھولے رکھا اور افغانستان سمیت جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کو اپنی گیس فروخت کرنے کے ارادے کا اعلان کیا۔ گزشتہ 4 سال سے ان کے سفارت کار کابل میں موجود ہیں۔ 2017 سے روس اس وقت کی کابل انتظامیہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں بھی کردار اداکر رہا تھا۔ ان کوششوں میں پاکستان، چین اور وسطی ایشیائی ممالک بھی شریک تھے۔ ان رابطوں کے علاوہ جولائی 2024 میں روسی صدر ولادیمیر پوتن کے بیان سے دونوں کے درمیان تعلقات میں اس وقت گرمجوشی کے اشارے ملے، جب انہوں نے طالبان کو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی‘ قرار دیا تھا۔
روس یوروپ سمیت مغرب میں خود پر عائد پابندیوں کی وجہ سے چین کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بنا رہا ہے اور وسطی ایشیا کے ساتھ بھی اس کی دلچسپی تاریخی رہی ہے۔ روس کے خصوصی صدارتی ایلچی برائے افغانستان ضمیر کابلوف نے طالبان حکومت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ’معروضی شراکت دار‘ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ ’اس خاص معاملے میں وہ(طالبان حکام) ہمارے معروضی اتحادی ہیں جن کی ہمیں ہر معنی میں مسلح کرنے کے لیے حمایت کرنی ہوگی تاکہ وہ بین الاقوامی دہشت گردی کے ان تمام چھوٹے سے چھوٹے ٹھکانوں کو کامیابی سے کچل سکیں۔‘ لیکن یہ تعاون محض عملی نہیں بلکہ نظریاتی بھی ہے۔ پوتن نے 2022 میں ایک اہم بیان میں کہا تھا کہ ’ایک ملٹی پولر دنیا میں حقیقی جمہوریت بنیادی طور پر کسی بھی تہذیب کی اپنے راستے پر چلنے اور اپنے سماجی و سیاسی نظام کو منظم کرنے کی صلاحیت کے بارے میں ہے۔ اگر امریکہ یا یوروپی یونین کے ممالک کو یہ حق حاصل ہے تو ایشیا کے ممالک، اسلامی ریاستوں اور خلیج عرب کی بادشاہتوں کو بھی یقینی طور پر یہ حق حاصل ہے۔‘ یہ نظریات قدامت پسند مسلم دنیا میں مقبول ہیں کیونکہ یہ ایک متبادل غیر مغربی نظام کا وعدہ کرتے ہیں۔
ماسکو کا یہ فیصلہ کچھ حد تک حیران کن بھی ہے کیونکہ افغان طالبان نے ابھی تک دوحہ معاہدے پر من و عن عمل نہیں کیا۔ افغان طالبان کی حکومت عبوری ہے اور وہاں پر جمہوری حکومت ابھی تک قائم نہیں ہوئی اور نہ اس بات کی نفی کی جا سکتی ہے کہ افغانستان کی زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔ پاکستان سمیت کئی ممالک الزام لگاتے ہیں کہ افغانستان کی زمین ان کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود ماسکو کا طالبان کو افغانستان کی رسمی حکومت تسلیم کرنے کا اعلان طالبان کے لیے ایک سیاسی پیش رفت ہے۔ یہ یقینا طالبان کے افغانستان پر حاکمیت کے دعوؤں اور افغان سرزمین سے بیرون ممالک کے لیے خطرہ نہ بننے کے بیانات کو تقویت دیتا ہے۔ 2024 میں ماسکو میں دہشت گردانہ حملوں اور ان میں داعش خراسان کی ایک شاخ کے ملوث ہونے کی رپورٹس کے باوجود ماسکو کا فیصلہ تصدیق کرتا ہے کہ روس طالبان کے سیکورٹی اقدامات سے مطمئن ہے۔ یہ پیش رفت عالمی سیاست کے لیے بیحد اہمیت کی حامل ہے۔ روس تمام شعبوں میں کابل کے ساتھ باہمی مفاد کے لیے تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے۔ دنیا میں مختلف ممالک کی جانب سے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا، سفارت خانے کھولنا اور مختلف تجارتی معاہدے کرنا خطہ کی سیاست کے لیے بہت معنی خیز ہے۔
اس سے پہلے ہندوستان کے خارجہ سیکریٹری نے رواں سال جنوری میں افغان طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے دبئی میں ملاقات کی تھی اور تعلقات بہتر بنانے پر زور دیا تھا۔ ابھی حال ہی میں وزیر خارجہ جے شنکر نے بھی امیر متقی سے ٹیلی فون پر بات چیت کی تھی۔ حالانکہ ہندوستان نے ابھی تک طالبان حکوت کو باضابطہ تسلیم نہیں کیا ہے لیکن عملی طور پر حکومت ہند کے موجودہ افغان سرکار سے مسلسل روابط رہے ہیں۔ درحقیقت ہندوستان کا افغانستان میں بہت کچھ دائو پر لگا ہے۔ ہندوستان نے وہاں مختلف پروجیکٹوں میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ جلد یا تاخیر سے، ہندوستان کو بھی اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔ کچھ ماہ قبل امریکہ نے افغان طالبان کے موجودہ وزیر داخلہ سراج الدین حقانی(امریکہ کے مطابق حقانی نیٹ ورک کے سربراہ) کو ’دہشت گردوں کی فہرست‘ سے نکال دیا ہے۔
امریکہ نے سراج الدین حقانی کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی تھی لیکن اب سراج الدین حقانی سمیت ’حقانی نیٹ ورک‘ کے بعض دیگر اراکین کو اس فہرست سے خارج کر دیا گیا ہے۔ لیکن افغانستان سے تعلقات قائم کرنے والے ملکوں میں چین سب سے بازی لے گیا ہے۔ اس نے ابتدا ہی سے افغان طالبان سے بہتر تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور افغانستان میں تجارتی معاہدے بھی کر رکھے ہیں۔ چین کی جانب سے بہت پہلے کابل میں اپنا سفیر بھی تعینات کیا گیا ہے جبکہ مختلف تجارتی معاہدوں کے حوالے سے بات چیت بھی جاری ہے۔دراصل افغانستان مختلف ممالک کے لیے ایک کاریڈور کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ ممالک افغانستان کو معاشی فائدے کے لیے ایک راستہ سمجھتے ہیں اور اسے تجارت کے لیے استعمال کرنے کے لیے راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ افغانستان میں امن کا قیام وسطی اور جنوبی ایشیائی خطہ میں تجارت کے لیے افغانستان کی اہم گزر گاہ ہونے کے ناطے ناگزیر ہے اور طالبان حکومت کو بھی اپنے استحکام کے لیے تجارتی تعلقات کی اشد ضرورت ہے۔