امن غزہ سے ابھی دور ہے!

0

جنگ اگر ایک بار شروع ہو جائے تو پھر یوں ہی ختم نہیںہو جاتی، اسے ختم کرنے کے لیے دونوں فریقوں کو پرخلوص جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ایسا نہ ہونے پر جنگ ختم نہیں ہو پاتی ہے، فائر بندی بھی آسان نہیں ہوتی ہے۔ اسی لیے غزہ میں فائر بندی کی کوشش تادم تحریر ناکام ہو چکی ہے جبکہ کل تک ایسا لگ رہا تھا کہ فائر بندی ہو جائے گی۔ امریکہ کی طرف سے تو یہاں تک بیان آگیا تھا کہ دونوں فریقوں کے مخلصانہ مذاکرات جاری رکھنے پر 60 دن کی جنگ بندی میں توسیع ممکن ہے مگر اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے یہ بیان دے کر اندیشہ پیدا کر دیا تھا کہ جنگ بندی کے معاہدے میں ترمیمات قبول نہیں۔ پھر بھی یہ لگتا تھا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اگر اسرائیلی حکومت پر زور ڈالیں گے تو وہ فائر بندی کے لیے تیار ہو جائے گی۔ ایران کے خلاف حالیہ جنگ بھی اسرائیل نے صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے بظاہر دباؤ ڈالنے پر ہی روکی تھی لیکن حماس، ایران نہیں ہے کہ اسرائیل یا امریکہ کو زیادہ سوچنا پڑے۔ ایران کے خلاف جنگ جاری تھی تو اس کے حملوں سے اسرائیلی علاقے غزہ کا منظر پیش کرنے لگے تھے مگر حماس سے اس طرح کے جواب کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اسی لیے اسرائیلی فوج روزانہ ہی آسانی سے درجنوں فلسطینیوں کو شہید کر ڈالتی ہے۔ اسے یہ اطمینان رہتا ہے کہ ان حملوں کی وجہ سے اس کا کچھ نقصان نہیں ہوگا، خطے کے ممالک میں بے چینی کی لہر بھی پیدا نہیں ہوگی، کیونکہ حماس، ایران نہیں ہے۔

امید مثبت ہی رکھی جانی چاہیے لیکن فی الوقت فائر بندی کے سلسلے میں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی ہے۔ فائر بندی کے لیے قطر میں جب تک حماس اور اسرائیل کے مابین بالواسطہ مذاکرات کا پہلا دور چل رہا تھا، ایسا لگتا تھا کہ چند دنوں کے لیے ہی سہی، فائر بندی ہو جائے گی مگر مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے۔ ذرائع کے حوالے سے جو رپورٹ آئی ہے، وہ کم دلچسپ نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’دوحہ میں بالواسطہ مذاکرات کی پہلی نشست کے بعد اسرائیلی وفد کو اتنا اختیار حاصل نہیں کہ وہ حماس کے ساتھ معاہدہ کرسکے،کیونکہ اس کے پاس کوئی حقیقی اختیار نہیں۔‘اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے یہ بات پہلے ہی بتا دی تھی کہ ’فائر بندی مذاکرات میں شریک اسرائیلی مذاکرات کاروں کو واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ ان شرائط پر فائر بندی کا معاہدہ کریں جو اسرائیل نے منظور کی ہیں۔‘یعنی امن کی خاطر وہ کچھ بھی نہ کریں، فائر بندی بھی اسرائیل کے مفاد کا خیال کرتے ہوئے ہی کریں لیکن اس طرح کے مذاکرات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے جس میں ایک فریق کو طاقت کا کچھ زیادہ احساس ہو، وہ دوسرے فریق سے فائر بندی نہیں بلکہ اپنے حکم کی تعمیل چاہتا ہو مگر حماس کو اتنا جھک کر ہی اگر کوئی معاہدہ اسرائیل سے کرنا ہوتا تو کب کا کرچکی ہوتی، اہل غزہ کی اتنی قربانیوں کے باوجود اسرائیلی فوجیوں کو یہ احساس دلانے کے لیے کوشاں کیوں رہتی کہ اس نے بہت کچھ کھو دیا ہے، اہل غزہ زخموں سے چور ہیں مگر حوصلہ شکن نہیں ہیں، اس لیے انہیں جھکانے کا خواب نہ دیکھے۔

دراصل غزہ جنگ کو جاری رکھ کر اسرائیل اپنی ساکھ بد سے بدتر بنا رہا ہے، خطے میں اس کا دبدبہ کم ہو رہا ہے، ایران سے حالیہ جنگ میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں۔ اسے اگر بھرپور جواب دیا جائے تو اس کے لیے مسئلے پیدا ہونے لگتے ہیں اور ہمیشہ امریکہ اسے بچانے کی پوزیشن میں نہیں رہتا، کیونکہ مشرق وسطیٰ میں دبدبہ برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کو اپنے فوجی اڈوں کی حفاظت کرنی ہے جبکہ بات زیادہ بڑھ جانے پر اس کے فوجی اڈے اسی طرح خطرے میں آجائیں گے جیسے حالیہ اسرائیل- ایران جنگ میں آگئے تھے۔ اس وقت امریکی حکومت نے اگر جنگ کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہوتی تو امریکہ کے فوجی اڈوں پر ایرانی فوج علامتی حملوں کے بجائے اصل حملے کرتی۔ اس کا جواب اگر امریکہ دے بھی دیتا تو اس خطے میں اس کے مفاد خطرے میں پڑ جاتے، اس کا اثر اس کی اقتصادیات پر پڑتا مگر امریکی حکومت کو غالباً ایسا لگتا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں سے اس خطے میں اس کے مفاد پر کچھ اثر نہیں پڑے گا۔ اسی لیے فائر بندی کے لیے وہ اس طرح اسرائیلی حکومت پر دباؤ نہیں ڈال رہی ہے جیسے اس نے ایران کے خلاف جنگ کو ختم کرنے کے لیے ڈالا تھا لیکن یہ بات طے سی ہے کہ غزہ جنگ امریکہ اور اسرائیل کے بھی دیرپا مفاد میں نہیں ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS