پروفیسر اسلم جمشید پوری
موجودہزمانے میں اردو کے فروغ کی بات کی جائے تو مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل یا تردد نہیں ہے کہ اردو زبان کا تحفظ مدارس سے ہے۔ آج ہر طرف نظریں دوڑائیں، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونیورسٹی، جوہر لعل نہرو یونیورسٹی،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،مانو،حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی،بنارس ہندو یونیورسٹی، الٰہ آباد یونیورسٹی، لکھنؤ یونیورسٹی، گورکھپور یونیورسٹی، پٹنہ یونیورسٹی یا مختلف کالجز میں اردو کلاسز، اسکولوں میں جو طالب علم ہوتے ہیں،ان میں سے 80 فیصد مدرسوں کے طالب علم ہوتے ہیں۔بلکہ اب تو اساتذہ بھی مدرسے سے آرہے ہیں۔ دراصل مدارس میں عربی، فارسی اور اردو کا رواج ہے۔زیادہ تر مذہبی کتا بیں اردو میں ہیں۔مدارس کے فارغ طلبا میں اردو کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔لہٰذا یہ مان لینا چاہیے کہ آج اردو کا تحفظ مدارس کے ذریعہ ہو رہا ہے۔
دارالعلوم،دیو بند ملک ہی نہیں عالمی شناخت رکھنے والا مذہبی ادارہ ہے۔تقریباً پونے دو سو سالہ یہ ادارہ مذہب کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی بھی بیش بہا خدمات انجام دے رہا ہے۔فی الحال اس میں طلبا کی تعدادپانچ ہزار سے زائد ہے۔ سیکڑوں اساتذہ تدریس علم و ادب میں منہمک ہیں۔ ہاں یہ بات بھی درست ہے کہ دارالعلوم،دیو بند اور دیگر مدارس کے طلبا اردو زبان پر تو عبور رکھتے ہیں،لیکن ادب سے کم واقف ہو تے ہیں۔لیکن ان میں بہت سے اوصاف ہوتے ہیں،اگر انہیں سلیقے سے تراشا خراشا جائے تو یہ بہت کار آمد ہوسکتے ہیں۔ماضی میں بہت سے شعرا و ادبا کا تعلق مدارس سے رہا ہے۔ مولانا حالی، مولانا شبلی، ابوالکلام قاسمی، قاضی جمال حسین، ظفر احمد صدیقی، حبیب الرحمن علیگ، الطاف احمد اعظمی،شمس الحق عثمانی،انجم عثمانی، ظفر کمالی، حقانی القاسمی،خواجہ اکرام الدین، ابوبکر عباد، شمس الہدیٰ دریا آبادی، فاروق احمد صدیقی،اسلم قاسمی،محمد مستمر،مفتی راحت علی صدیقی قاسمی،احسن ایوبی،حسین احمد شاہ، ابواللیث شمسی، بدرالدین فریدی، ثناء اللہ دوگھری، ابرار اجراوی، حنیف خان،عمیر منظر،امتیاز وحید، شہاب، ظفر اعظمی، مشتاق تجاوری،شمس کمال،عطاء الرحمن قاسمی،عنایت اللہ سبحانی،محمد علم اللہ، غلام زرقانی، وارث مظہری، عبدالودود قاسمی، فاروق اعظم، الطاف قاسمی علیگ اوردیگر لوگوں نے مدارس کی اپنی صلاحیتوں کو ادب میں بھی خوب استعمال کیا ہے۔ ادب میں بھی کافی نام کمایا ہے۔
دارالعلوم صرف ایک ادارہ نہیں، بلکہ ایک تحریک بھی ہے۔ اس تحریک نے نہ صرف مذہب کو ملک اور بیرونِ ملک فروغ اور تحفظ دیا بلکہ اردو کی تبلیغ و اشاعت بھی کی۔اس ادارے کی خدمات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ یہاںدیواری میگزینوں(Wall Magazines) کی روایت خاصی قدیم ہے۔یہاں ایک ایک ہاسٹل سے کئی کئی دیواری میگزین نکلتی ہیں۔ یہ سبھی طلبا کی رائٹنگ میں ہوتی ہیں۔یہ میگزین ہر شہر اور علاقے کے طلبا کے ذریعہ شائع ہوتی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق 60سے زائد اس قسم کے رسالے دارالعلوم سے نکلتے ہیں۔کچھ کے نام ملاحظہ ہوں۔ صبح نو(سیتامڑھی)، البیان (جھارکھنڈ- اوڈیشہ)، الاصلاح (پورنیہ)، پیام نیپال (نیپال)، الجوہر(رامپور)، الوجدی (مدھیہ پردیش)، الفضل(امروہہ)، السلطان(سلطان پور)، ندائے آزاد (رانچی)، پاسبان(اعظم گڑھ)، القاسم (سہارنپور)، الاحد(دیو بند)، النصیر( باغپت)وغیرہ۔ان سے طلبا میں خود اعتمادی اور خوش خطی کاجذبہ پروان چڑھتا ہے۔ان کے اندر صحافیانہ صلاحیتوں کا فروغ ہوتا ہے نیز ان کے اندر صفحہ تیارکرنے اور ایڈیٹنگ کی ذمہ داری فروغ پاتی ہے۔یعنی طلبا کو میدانِ صحافت میں لانے کا بہترین ذریعہ اس قسم کی میگزین ہو تی ہیں۔
دارالعلوم میں قرآن اور حدیث کی تو بھرپور تعلیم دی جاتی ہے،ساتھ ہی وہاں طب،منطق،ریاضی،فلسفہ وغیرہ کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔نئے عہد میںکمپیو ٹراور انگریزی کی تعلیم ناگزیر ہوگئی ہے۔ان دونوں کا استعمال آج ہر قدم پر ضروری ہوگیا ہے۔اسی کے پیش نظر دارالعلوم میں اس کی تعلیم بھی دی جانے لگی ہے۔انگریزی اور کمپیو ٹر کے یہاں الگ الگ شعبے قائم ہیں، جن سے طلبا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہی نہیں یہاں آن لائن نظام بھی ہے جس میں فتوؤں کے جوا ب دیے جاتے ہیں۔اس کے تحت ہرآن لائن سوال کا جواب بھی آن لائن دیا جاتا ہے۔اس کا بھی الگ شعبہ ہے۔
دارالعلوم میں ایک بڑی لائبریری’’ شیخ الہند لائبریری‘‘ بھی ہے۔اس کی شاندارسات منزلہ وسیع و عریض عمارت دیکھنے لائق ہے۔ پہلی دو منزلوں پر ہال بنائے گئے ہیں، جن میں کوئی کانفرنس یا بڑا جلسہ ہوسکتا ہے۔ تیسری منزل پر حدیث کی کلاسز اور اوپر کی چار منزلوں پر کتابیں ہیں، جن میں مذہبی صحائف، گیتا، رامائن، وید، تورات، انجیل، اورنگ زیب کے ہاتھ سے لکھا ہوا قرآن مجید اور بے شمار مخطوطے شامل ہیں۔ ساتھ ہی اس میں دنیا بھر کے علوم و فنون کی کتابیں بھی دستیاب ہوں گی۔اس کی چھت پر ہیلی پیڈ بنانے کا منصوبہ تھا لیکن بعض حفاظتی پیمانوں کے سبب مقامی انتظامیہ نے اس کی اجازت نہیں دی۔ لائبریری میں کمپیوٹر نظام لاگو ہے۔ یہاں عربی کے علاوہ دنیا کی بے شمار زبانوں کی ہزاروں کتب موجود ہیں۔لائبریری کو ڈیجیٹل بھی کیا جارہا ہے۔ مکمل ہونے کے بعد یہ دنیا ایک بڑی لائبریر ی میں شمار ہوگی۔
دارالعلوم میں مختلف کورسز کی تعلیم دی جاتی ہے۔ تدریب فی التدریس، تکمیل تفسیر، تخصص فی الحدیث،تکمیل افتاء،تدریب فی الافتاء،تکمیل ادب عربی،تخصص فی الادب العربی،ڈپلومہ ان انگلش لینگویج اینڈ لٹریچر،ڈپلومہ ان کمپیوٹر ایپلی کیشنز، ڈپلومہ برائے انشاء و صحافت، تحفظ ختم نبوت، مطالعۂ عیسا ئیت و دیگر مذاہب،تحفظ سنت( مطالعۂ غیرمقلدیت)، محضرات ِ علمیہ( مطالعۂ ادیان و فرق)خوش خطی، خیاطی، قرأتِ عشرہ، قرأت سبعہ،تجوید بروایت حفص-اردو، تجوید بروایت حفص-عربی، حفظ قرآن، ناظرہ قرآن جیسے بہت سارے کورس چلتے ہیں۔
اب یہاں کے طلبا ملک کے دیگر امتحانات میں بھی اپنے پر چم بلند کر رہے ہیں۔یہیں کے ایک طالب علم وسیم الرحمن نے سول سروسز کا امتحان پاس کرکے یہ ثابت کیا تھا کہ دارالعلوم کے طلبا کسی بھی میدان میں دیگر طلبا سے پیچھے نہیں ہیں۔بہت سے دوسرے مقابلہ جاتی امتحانات میں بھی دارالعلوم کے طلبا اب آگے آرہے ہیں اور کامیاب بھی ہورہے ہیں۔ یہاں بھی داخلوں اور امتحانات کا ایک نظام ہے۔یہاں ہر سال شوال کے مہینے میں داخلے ہو تے ہیں اور سالانہ امتحان رمضان سے قبل ختم ہوجاتے ہیں۔ ہندوستان کے ہزاروں مدرسے دارالعلوم کے پیٹرن کی ہی کاپی کرتے ہیں۔دارالعلوم میں پڑھائی کا ایک نظام ہے جس میں ٹائم ٹیبل ہوتا ہے،جس کے تحت طلبا کی مختلف کلاسز لگتی ہیں۔ یہاں ہندوستان کے کونے کونے سے اور پوری دنیا کے بیشتر ممالک کے طلبا علم دین سیکھنے آتے ہیں۔دارالعلوم کی اپنی ڈگری اور ڈپلومہ ہوتے ہیں، جنہیں کئی ریاستوں، یونیورسٹیز اور ایجو کیشن سینٹر میں منظوری حاصل ہے۔جہاں یہاں کے فارغ طلبا کے مختلف کورسیز میں داخلے ہو تے ہیں۔
آج ہم ہندوستان کے جن اداروں پر فخر کرسکتے ہیں، ان میں ’دارالعلوم،دیوبند‘ بھی ہے۔جہاں دینی تعلیم کو اولیت حاصل ہے،مگر عصری تقاضوں کے مدنظر دنیاوی علوم بھی پڑھانے کا سلسلہ بہت پہلے سے شروع ہوچکا ہے۔ جس طرح علی گڑھ،اے ایم یو کے لیے مشہور ہے،ویسے ہی دیو بند ’ دارالعلوم‘ سے جانا جاتا ہے۔