عبیداللّٰہ ناصر
اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہے کہ بہار میں ووٹر لسٹ کی تجدید کا جو سلسلہ الیکشن کمیشن نے شروع کیا ہے اور 2003 کے بعد کے ووٹروں سے جو دستاویز طلب کیے گئے ہیں، ان کی عدم فراہمی کی صورت میں سب سے زیادہ نقصان مسلم ووٹروں کو اٹھانا پڑے گا تو انہیں بہار کی زمینی صورت حال اور وہاں کے سماجی ماحول کو از سر نو سمجھنا ہوگا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مودی حکومت نے جب سے ہی شہریت جیسے حساس مسئلہ کا کھڑاگ شروع کیا ہے اور مسلمانوں کو اس کا نشانہ بنایا ہے، تبھی سے مسلمان چوکنا ہوگیا ہے اور اس نے ہر ممکن طریقے سے ضروری کاغذات حاصل کر لیے ہیں، اس سلسلہ میں خود میرے گاؤں میں جن کے آباؤ اجداد برسوں پہلے گاؤں چھوڑ کر جا چکے تھے، ان کے بھی پوتے پر پوتے تک گاؤں آ کر یہاں کی رہائش جیسے گھر، زمین بھلے ہی فروخت ہوچکی ہے، مگر اس کے پرانے کاغذات تحصیل یا ضلع مال خانے سے نکلوا کر لے گئے ہیں۔ اس کا سب سے برا اثر بہار کے مہا دلت اور دلت ووٹروں پر پڑے گا جن کے پاس جائیداد کے نام پر صرف ایک جھونپڑی ہے جس کا کوئی کاغذ ان کے پاس نہیں ہے جو اکثر سیلاب میں بہہ جاتی ہے اور انہیں نقل مکانی کرنی پڑتی ہے۔ ایک موقر انگریزی اخبار نے ایک الیکشن سروے شائع کیا ہے جس کے بموجب صرف دلت، مہادلت اورمسلمان ہی نہیں، الیکشن کمیشن کی اس کارروائی سے اعلیٰ ذاتوں برہمن، ٹھاکر، بھومیہار اور کائستھ برادریوں کے لوگ بھی ڈرے ہوئے ہیں، دوسری جانب الیکشن کمیشن خود کنفیوژن کا شکار لگتا ہے۔بہار کے چیف الیکٹورل افسر بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعہ کچھ کہتے ہیں اور دہلی میں چیف الیکشن کمشنر اس کا با لکل الٹا بیان جاری کرتے ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ کمیشن اپنے احکام پر قائم ہے، اب سارا دار و مدار سپریم کورٹ پر ہے، مگر ایماندا ری کی بات یہ ہے کہ عوام کو اس سے بھی کوئی خاص امید نہیں ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یا تو فیصلہ کمیشن کے حق میں آئے گا یا معرض التوا میں چلا جائے گا اور کمیشن اپنی من مانی میں کامیاب رہے گا ۔
ہندوستان کے غریب سے غریب، کمزور سے کمزور شخص کے پاس آئین کا دیا ہوا ووٹ دینے کا اختیار ہے جسے کسی کو بھی چھیننے کا حق نہیں ہے۔ ہندوستان کا ہر بالغ بھلے ہی اس کے پاس کوئی کاغذ ہو یا نہ ہو، ووٹ دینے کا حق دار ہے۔ الیکشن کمیشن کا آئینی فرض ہے کہ وہ ہر ووٹر کے لیے آسانی سے ووٹ دینا یقینی بنائے نہ کہ اس کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ ایک اندازے کے مطابق الیکشن کمیشن کے اس تغلقی فرمان سے20تا25فیصد جائز ووٹر ووٹ دینے سے محروم ہوسکتے ہیں، رہ گیا شہریت کا معاملہ تو اس کے تعین کا اختیار الیکشن کمیشن کو نہیں ہے۔
ہریانہ کے بعد مہاراشٹر اسمبلی الیکشن میں ووٹر لسٹ میں کی گئی مبینہ ہیر پھیر اور اس کے بعد ووٹوں کی تعداد میں12 تا 15فیصد اضافہ اور پھر بی جے پی کی ہاری ہوئی بازی کو جیت میں بدل دینے کے الزام اور راہل گاندھی کے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ پیش کی گئی عذر داری کا ہوا ہوائی جواب دے کر الیکشن کمیشن نے اپنی پہلے سے ہی برباد ہو چکی ساکھ کو اور مٹی میں ملادیا تھا۔اس بدنامی اور بد اعتمادی پر شاید اب بھی اس کا دل نہیں بھرا تھا، اس لیے بہار اسمبلی الیکشن کے لیے نئی ووٹر لسٹ تیار کرنے کا تغلقی فرمان،جسے خصوصی گہری نظر ثانی(اسپیشل انٹینسیو ریویزن)کا نام دیا ہے، جاری کردیا۔ یہ در اصل مودی حکومت کی پرانی اسکیم شہریت کا قو می رجسٹر تیار کرنے کی سازش کی جانب ایک قدم ہے کیونکہ جب اس اسکیم کا اعلان ہوا تھا، تب اس کی زبردست مخالفت ہوئی تھی،دہلی کے شاہین باغ اور لکھنؤ میں گھنٹا گھر جیسا تاریخی احتجاج ہوا تھا اور حکومت کو اپنا قدم پیچھے ہٹانا پڑا تھا، مگر وہ اسکیم ختم نہیں ہوئی تھی، اب الیکشن کمیشن کے ذریعہ اسے بہار میں نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے بعد پورے ملک میں یہ نافذ ہوگی۔اس پورے عمل کا واحد مقصد زیادہ سے زیادہ مسلمانوں، دلتوں اور آدی باسیوں کو انتخابی عمل سے دور رکھنا ہے تاکہ ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا جو سنہری موقع اس وقت آر ایس ایس کے ہاتھ میں آیا ہے، وہ رائیگاں نہ جائے۔ہندوستان کا الیکشن کمیشن دنیا کے بہترین الیکشن کمیشنوں میں شمار ہوتا تھا، اس نے صرف ہندوستان ہی نہیں اور بھی کئی نو آزاد ملکوں میں چناؤ کرائے ہیں، تھوڑی بہت الزام تراشیاں ضرور ہوتی رہیں، لیکن عمومی طور سے کمیشن کی ساکھ برقرار رہی تھی۔ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد جس طرح تمام آئینی اداروں میں سنگھ کی شا کھا ؤں سے نکلے یا اس کے نظریہ کے حامی لوگوں کو بٹھا کر ان کی خود مختاری، ایمانداری، غیر جانبداری اور آئینی تقاضوں سے وابستگی ختم کی گئی، الیکشن کمیشن اس کا سب سے بڑا شکا ر اور جیتی جاگتی مثال بن گیا ہے۔اگر الیکشن کمیشن کو اپنے قابو میں رکھنے کا منشا نہ ہوتا تو سپریم کورٹ کی ہدایت کو قانون بنا کر رد کرنے اور کمیشن کی تشکیل کے لیے بنائی گئی سہ رکنی کمیٹی سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ہٹا کر اس میں مرکزی وزیر داخلہ کو نہ شامل کیا جاتا، اس طرح حکومت نے اس سہ رکنی کمیٹی میں اپنے دو رکن شامل کر کے اپوزیشن کے لیڈر کی موجودگی کو محض شو پیس بنا دیا ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ہی فیصلہ کو اس طرح دھتا بتانے والے فیصلہ کے خلاف بنے قانون کی آئینی جانچ کے لیے دائر اپیل کو سپریم کورٹ آج تک معرض التوا میں ڈالے ہوئے ہے اور مودی جی ڈنکے کی چوٹ پر من مانی کر رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے اس اعلان کے بعد ہی سبھی سیاسی پارٹیاں سراپااحتجاج بنی ہوئی ہیں، ان کا یہ سوال بالکل حق بجانب ہے کہ 2024 کے پارلیمانی الیکشن کی ووٹر لسٹ پر اتنی جلد نظر ثانی کی ضرورت کیوں پیش آگئی اور اگر وہ ووٹر لسٹ مشکوک تھی تو 2024 کا پارلیمانی چناؤ بھی غلط ہوا، اسے کالعدم قرار دیا جانا چاہیے، مگر اقتدار کا نشہ کوئی دلیل کب سنتا ہے۔ اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ میں شمولیت کی اہلیت کے لیے حکومت کے جاری کردہ آدھار کارڈ سمیت تمام دستاویزوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ آدھار کارڈ تو پارلیمنٹ سے منظور شدہ قانون کے ذریعہ جاری کیے گئے تھے، الیکشن کمیشن کیا پارلیمنٹ سے بھی اوپر ہو گیا جو وہ اس کارڈ کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ پہلے سے جاری ہوا ووٹر کارڈ، راشن کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، منریگا کارڈ وغیرہ بھی قابل قبول نہیں ہوں گے، ہاں پاسپورٹ قبول کیا جائے گا۔ لیکن کیا پاسپورٹ بغیر آدھار کارڈ کے بن جاتا ہے؟ اتنا معمولی سا سوال بھی کمیشن کے ارباب حل و عقد کی سمجھ میں نہیں آتا۔2003 کے بعد بنے ووٹروں کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے نہ صرف اپنی تاریخ اور جائے پیدائش کا سرٹیفکیٹ دینا ہوگا بلکہ اپنے والدین کا برتھ سرٹیفکیٹ بھی دینا ہوگا۔الیکشن کمیشن نے اپنے نئے فرمان میں اپنی شہریت ثابت کرنے کی ذمہ داری ووٹروں پر ڈالی ہے جو مسلمہ قانونی اصولوں کے خلاف ہے اور متعدد عدالتیں بارہا یہ کہہ چکی ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی کی شہریت پر سوال اٹھاتا ہے تو اسے ثابت کرنا اسی کی ذمہ داری ہوگی نہ کہ مذکورہ شخص کی، لیکن کمیشن اس عدالتی قانونی اصول کو بھی نظرانداز کر رہا ہے، جن تعلیمی دستاویزوں کو تسلیم کرنے کی بات کہی گئی ہے، وہ ایک مذاق سے کم نہیں، کمیشن کو یہ فرمان جاری کرنے سے پہلے سرکاری ریکارڈوں سے تعلیم کے میدان کی حقیقت جان لینی چاہیے تھی، تب انہیں پتہ چل جاتا کہ بہار تعلیم کے معاملہ میں کتنا پچھڑا ہوا ہے اور مذکورہ دستاویز دینا ممکن ہی نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے تغلقی فرمان کے ذریعہ بہار کے تقریباً 8کروڑ ووٹروں میں سے نصف سے زائد کو صرف ایک مہینہ میں اپنی شہریت ثابت کرنے کا حکم دیا ہے، اس مدت میں سے تقریباً ایک ہفتہ گزار چکا ہے اور بہار کے لوگوں کے بموجب ابھی تک ان کے پاس بوتھ لیول افسران(بی ایل او) مذکورہ فارم لے کر نہیں پہنچے ہیں۔جولائی کا مہینہ نئے تدریسی سال کے آغاز کا ہوتا ہے، اسکولوں میں بچوں کے داخلے وغیرہ کا عمل ہوتا ہے، اس مہینہ اساتذہ کو مذکورہ ڈیوٹی پر لگانا بچوں کی تعلیم کے ساتھ بھی کھلواڑ کرنا ہے، مگر کون سنتا ہے فغان درویش۔
ویسے اطلاعات تو یہ بھی آ رہی ہیں کہ اس کام میں آر ایس ایس کے کارکنوں کو بھی لگایا گیا ہے یا رضاکارانہ طور پر وہ یہ کام کر رہے ہیں، ظاہر ہے اس کا سب سے بڑا مقصد مخالف ووٹروں خاص کر مسلمانوں اور دلتوں کے ناموں کو کاٹنا اور حامی ووٹروں کے نام بڑھانا ہے، آر ایس ایس والے یہ کام ہمیشہ کرتے ہیں چاہے رضاکار کے طور پر ہو، چاہے سرکاری عملہ جو اس کے نظریات کا حامی ہے، وہ سب یہ کام ہمیشہ کرتے رہے ہیں، دراصل انتخابی بدعنوانی کا سلسلہ ہی ووٹر لسٹ کی تیاری سے شروع ہوتا ہے۔
حیرت انگیز طور پر بی جے پی ہی نہیں نتیش کمار کی جنتا دل(یو) اور این ڈی اے میں شامل کوئی پارٹی اس خطرناک فرمان کے خلاف آواز نہیں اٹھا رہی ہے، صاف ہے کہ انہیں اس میں سیاسی فائدہ دکھائی دے رہا ہے جبکہ اپوزیشن نے اس کے خلاف تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے اور ایسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارم( اے ڈی آر) نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے مگر مودی حکومت کی منشا کو دیکھتے ہوئے کمیشن اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گا، اس کا امکان کم ہی ہے۔