این آر سی کا سایہ

0

ہندوستانی جمہوریت کی سانسیں آج ایک ایسی گرفت میں ہیں جسے ضابطہ نہیں،سازش کہا جانا چاہیے۔آئینی ادارے جن پر غیر جانب داری کی قسمیں کھائی جاتی تھیں،اب حکمراں جماعت کے ہاتھوں اپنی خودمختاری گروی رکھ چکے ہیں۔ تازہ مثال الیکشن کمیشن آف انڈیا ہے،جو انتخابی فہرستوں کی ’خصوصی نظرثانی‘ کے نام پر شہریوں سے ان کی شہریت کے ثبوت مانگ رہا ہے۔

گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن آف انڈیا نے دو تفصیلی رہنما ہدایات جاری کی ہیں، جن میں یکم جولائی 1987 سے 2 دسمبر 2004 کے درمیان پیدا ہونے والے ووٹروں کیلئے ایک خصوصی اعلامیہ فارم بھرنے کی ہدایت دی گئی ہے نیز ان ووٹروں سے اپنے والدین کے پیدائشی یا شہریت کے سرٹیفکیٹ جمع کرانے کوبھی کہا گیا ہے۔الیکشن کمیشن نے باضابطہ طور پر یہ واضح کیا ہے کہ صرف ووٹر لسٹ میں نام ہونا اب کافی نہیں ہوگا۔ متعلقہ ووٹروں کو اپنی شہریت کی حمایت میں ایک تحریری اعلان (Declaration) اور شہریت کے ثبوت کے طور پر مخصوص دستاویزات جمع کروانے ہوں گے۔ یہ کارروائی ’’انتخابی فہرستوں کی خصوصی نظرثانی‘‘ کے نام پر کی جا رہی ہے اور اس کی عملی شروعات بہار سے ہو رہی ہے۔ اس عمل کے تحت بلاک لیول افسران گھر گھر جا کر معلومات کی تصدیق کریں گے،یا ووٹر خود بھی آن لائن دستاویزات اپ لوڈ کر سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اس عمل کو ’گہری نظرثانی‘ کا نام دیا ہے،مگر یہ عمل درحقیقت ’گہری تطہیر‘ (purge) کا آلہ کار بنتا جا رہا ہے۔ شہریت کی اس نئی تعریف میں وہ لوگ سب سے پہلے کٹہرے میں کھڑے کیے جا رہے ہیں جو اپنی روزمرہ کی جدوجہد میں ہی پسے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کوبھی ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنے بوتھ لیول ایجنٹس کے نام پہلے ہی الیکشن کمیشن کو فراہم کریں۔ یہ ایک ایسی شرط ہے جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے اعتراض کیا ہے۔

مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے جمعرات کے روز الیکشن کمیشن کی جانب سے بہار اسمبلی انتخابات سے قبل جاری کردہ ان نئی ہدایات پر شدید تحفظات کا اظہار کیاہے۔انہوں نے کہا کہ یہ اقدام دراصل مغربی بنگال کو سیاسی طور پر نشانہ بنانے کی ایک منظم کوشش ہے، جہاں اگلے برس ریاستی انتخابات ہونے والے ہیں۔ممتابنرجی نے کہا کہ کمیشن کا رویہ منتخب حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ اس قدر تحقیر آمیز ہوچکا ہے کہ گویا وہ انہیںمجبور و مقہور مزدور سمجھ رہا ہو۔انہوں نے بوتھ لیول ایجنٹ کے نام پیش کرنے کی مانگ کو بھی سازش سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ یہ دراصل ہمارے بوتھ ایجنٹس کو خریدنے یا خوف زدہ کرنے کی کوشش ہے۔ ہمیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ ہم وہ معلومات مرکز کے حوالے کریں جنہیں صرف مقامی سطح پر ہی سنبھالا جانا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ عام لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں دینا چاہتے، وہ چاہتے ہیں کہ صرف بی جے پی کے غنڈے اور جماعتی کارندے ہی ووٹ ڈالیں۔

یہ سب کچھ اچانک نہیں ہو رہا۔ اس کے پیچھے 1986 کے شہریت قانون اور 2003 کی ترمیم کا استعمال کیا جا رہا ہے، جس کے مطابق وہ افراد ہندوستانی شہری کہلائیں گے جو یکم جولائی 1987 سے پہلے پیدا ہوئے ہوں یا جن کے والدین میں سے کم از کم ایک ہندوستانی شہری ہو۔ حکومت اسی قانونی بنیاد کو استعمال کرتے ہوئے یہ دلیل دے رہی ہے کہ ووٹروں کو شہریت ثابت کرنا ہوگی۔ لیکن عملی طور پر یہ تقاضا ایسے لاکھوں ووٹروں کو انتخابی عمل سے باہر دھکیلنے کا سبب بنے گا جو اپنے والدین کے دستاویزی ثبوت پیش کرنے کے قابل نہیں ہیں، خاص طور پر غریب،دیہی،قبائلی اور مہاجر طبقات جن کے پاس اپنے والدین سے متعلق کسی طرح کی کوئی دستاویز نہیں ہے۔ آسام میں 2019 میں جو این آر سی نافذ ہوا،اس میں 19 لاکھ لوگوں کو شہریت سے محروم قرار دیا گیا۔ اب اسی ماڈل کو انتخابی فہرستوں کی آڑ میں دہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

2019 میں شہریت ترمیمی قانون کے نافذ ہونے کے بعد جوآتش فشاں ملک گیر احتجاج کی صورت پھوٹ پڑا تھا،اس کے شعلے اب بھی قوم کے حافظے میں سلگ رہے ہیں۔ اس وقت حکومت نے کہا تھا کہ یکم جولائی 1987 سے قبل پیدا ہونے والے شہریوں کی شہریت تسلیم کی جائے گی۔ اب الیکشن کمیشن ان ہی تواریخ کو بنیاد بنا کر 1987 سے 2004 کے درمیان پیدا ہونے والوں پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔

انگریزی میں کہاوت ہے کہ The road to tyranny is paved with administrative formalitiesیعنی آمریت کی راہ عموماً سرکاری ضوابط کی آڑ میں ہموار کی جاتی ہے۔ یہاں بھی یہی ہو رہا ہے۔ ’اعلان شہریت‘ کے نام پر دراصل جمہوریت کی جڑیں کھودی جا رہی ہیں۔ اگر عوام کو دوبارہ اپنی شہریت ثابت کرنی ہے، تو کیا حکومت کو بھی اپنی نیت ثابت نہیں کرنی چاہیے؟ کیا وہ لاکھوں ہندوستانیوں کے جذبہ حب الوطنی کو محض چند سرکاری فارموں اور سرٹیفکیٹوں کے ذریعہ کسوٹی پر پرکھے گی؟ کیا ہم واقعی اس دور میں داخل ہوچکے ہیں جہاں ووٹ دینا اب کسی شہریت کے ثبوت پر منحصر ہوگا؟ اور اگر ایسا ہے تو آنے والے دنوں میں ’شہریت‘ اور ’جمہوریت‘ محض لغت کے الفاظ بن کر رہ جائیں گے، جن پر عمل درآمد صرف چند مخصوص طبقات کیلئے محفوظ ہوگا۔یہ صورتحال ہندوستان کے جمہوری وجود پر سوال ہے۔ ووٹر لسٹ سے نام کاٹنا دراصل عوام کی آواز کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ اور جب ووٹ دینے کا حق مشروط ہو جائے،تو پھر جمہوریت محض ایک دھوکہ رہ جاتی ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS