پروفیسر اخترالواسع
اسرائیل کو غلط فہمی تھی کہ اس نے جو کچھ غزہ میں کیا، وہ ایران کے ساتھ بھی کر لے گا لیکن صورتحال بالکل مختلف نکلی۔ ایران نے اسرائیل کا بھرپور مقابلہ کیا اور عالم اسلام کو ایک دفعہ پھر متحد ہونے کا موقع فراہم کر دیا۔یہ بتا دیا کہ جنگ ہتھیاروں سے نہیں، حوصلوں سے لڑی جاتی ہے۔
اسرائیل نے ایران پر حملہ کرکے جنگ کی شروعات تو کر دی تھی لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک خوددار اور غیرت مند ملک و قوم سے ٹکر لینے جا رہا ہے۔ عالم اسلام بھی ایران کا ہی ساتھ دے گا اور ایک دو نہیں بلکہ 21 مسلم ممالک کھل کر ایران کا ساتھ دیں گے مگر اسرائیل پھر بھی اپنے رویے سے باز نہیں آیا کہ امریکہ اس کی پشت پر تھا۔ اسرائیل اس کے سہارے مستقل جنگ پر آمادہ تھا۔ وہ اس کے لیے تیار نہیں تھا کہ ایران اس کا وہی حشر کرے گا جو اس نے غزہ کے علاقے میں موت کا رقص اور تباہی کی صورت میں دکھایا تھا۔ آخر میں امریکہ نے بھی ایران کے خلاف اپنی طاقت کا مظاہرہ کر لیا۔ ایران کو چاہے اس میں کتناہی نقصان ہوا ہو لیکن اس نے اپنی ایٹمی توانائی کو امریکیوں کے ہاتھوں برباد نہیں ہونے دیا۔
یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنا بہت مشکل ہے۔ ایک تو انہیں تباہ کرنے کی صلاحیت ہر ملک کے پاس نہیں ہے، اسرائیل کے پاس بھی نہیں۔ امریکہ کے پاس ہے تو اسے ان تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے کئی بڑے حملے کرنے پڑتے اور یہ ایران کی میزائلیں کرنے نہیں دیتیں، اس لیے ایرانی تنصیبات پر امریکی حملوں سے اس طرح کے نقصان کی خبر نہیں آئی ہے کہ ایران کے لیے انہیں دوبارہ شروع کرنا ناممکن سا ہو۔ ایران کے پاسداران انقلاب کے مشیر بریگیڈیئر جنرل ابراہیم جباری کا کہنا ہے، ’ ایرانی جوہری تنصیبات ایک حملے اور چند دھماکوں سے تباہ نہیں ہو سکتیں۔‘ ان کا ماننا ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ فردو کے حملے میں ناکام ہوا اور بنکر بسٹر بموں کا بھرم ٹوٹ گیا۔‘
ایران نے قطر کے امریکی ایئربیس پر حملہ کرکے امریکہ کے اپنی ایٹمی تنصیبات پر حملوں کا بدلہ لینے میں تاخیر نہیں کی۔ قطری وزارت خارجہ کی طرف سے العدید ایئربیس کو ایران کے نشانہ بنانے کی مذمت تو کی گئی لیکن اسے بہانہ بناکر قطر نے جنگ کا دائرہ بڑھانے کی کوشش نہیں کی۔ اس نے جنگ ختم کرانے کے لیے کامیاب جدوجہد کی، اس لیے قطر کا شکریہ ادا کرنا ہوگا، یہ ماننا پڑے گا کہ اس نے انتہائی ہمت، صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے ایران کے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہیں کی بلکہ اسرائیل اور امریکہ کی درخواستوں پر زور دیتے ہوئے ایران کو جنگ بندی پر راضی کرلیا۔ یہ جنگ بندی جو ایران نے امریکہ اور اسرائیل سے قطر کی ثالثی میں کی ہے، اس کے لیے کریڈٹ یا تو ایران کو جاتا ہے یا قطر کو۔ گرچہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد اسرائیل کی طرف سے ایران پر بمباری کی خبر آئی تھی لیکن ڈونالڈ ٹرمپ نے جنگ بندی پر واضح موقف اختیار کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ پر اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا، ’بم نہ گرائیں، اگر آپ نے ایسا کیا تو یہ ایک بڑی خلاف ورزی ہوگی۔ اپنے پائلٹوں کو فوراً واپس بلائیں۔‘دراصل العدید ایئربیس پر ایرانی حملے کے بعد ٹرمپ سمجھ گئے کہ اگر ابھی جنگ بندی نہیں کی گئی تو امریکہ ایک بڑی جنگ میں الجھ جائے گا۔ اس سے اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا، اسرائیل بھی تباہ ہو جائے گا، اس لیے وہ ایران کو تباہ کرنے کے جنون میں اس حد تک آگے نہیں بڑھے کہ جنگ طویل ہو جائے، جنگ کا دائرہ بڑھ جائے۔ ویسے ٹرمپ صاحب کے اب تک کے قول و عمل سے یہی لگتا ہے کہ وہ ناقابل بھروسہ ہیں۔ وہ صرف اور صرف امن کا نوبل پرائز حاصل کرنے کے لیے سارا کھیل کھیل رہے ہیں۔
اب جبکہ ایران جنگ بندی پر راضی ہوچکا ہے اور قطر کی ثالثی کو منظور کر چکا ہے تو یہ ضروری ہے کہ غزہ جنگ بھی مستقل طور پر ختم ہو، غزہ میں بھی پوری طرح امن قائم ہو۔ کسی طرح کی اسرائیلی جارحیت کو موقع نہ دیا جائے۔ تمام اسلامی ممالک مل کر اسرائیل کو اس کے انجام تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے مابین جو دو ریاستی معاملہ طے پایا تھا،اس کو یقینی بنائیں۔
(نمائندہ روزنامہ راشٹریہ سہارا سے گفتگو پر مبنی)
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس اسلامک اسٹڈیز ہیں)
[email protected]