ہندوستان کی ارضی حقیقت اس وقت ایک المناک تضاد کی تصویر بنی ہوئی ہے کہ ایک جانب ’’وشو گرو‘‘ بننے کا خواب، دوسری جانب جھلستی ہوئی زمین، تپتے ہوئے شہر اور دم گھٹاتی فضا۔ درجہ حرارت روز بہ روز اس سطح کو چھو رہا ہے جس کے بعد انسانی جسم کی برداشت دم توڑ دیتی ہے۔ 45 ڈگری سیلسیس کی وہ حد، جس پر پسینے سے زیادہ جان نکلتی ہے، اب محض موسمیات کے اعداد و شمار نہیں بلکہ مزدور کے ماتھے کا دکھ، کسان کی کمر کا درد اور شہری سانسوں کی خراش بن چکی ہے۔ یہ حرارت محض موسمی انقلاب نہیں بلکہ اقتصادی زوال کا پیش خیمہ ہے،ایک ایسا بحران جو پیداوار، محنت اور انسانی بقا کے بنیادی اصولوں کو چیلنج دے رہا ہے۔
ایسے میں اگر ملک کی نجات کا راستہ ایئرکنڈیشنر کی مصنوعی ٹھنڈک میں تلاش کیا جا رہا ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم صرف جسم کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں، نظام کو نہیں۔ اور جب حکومت ’اے سی‘ کے درجہ حرارت کو بیس اور اٹھائیس ڈگری کے درمیان محدود کرنے کی بات کرتی ہے تو دراصل وہ خود اس حقیقت کا اعتراف کر رہی ہوتی ہے کہ بحران کا حل صرف مشین میں نہیں، مزاج اور منطق میں ہے۔
اسی تناظر میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند محسوس ہوتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے وزارت ماحولیات کے اس نوٹیفکیشن کوگزشتہ دنوں کالعدم قرار دیا ہے جو گزشتہ آٹھ برسوں سے ان صنعتوں کو تحفظ دے رہا تھا جنہوں نے ماحولیاتی کلیئرنس کے بغیر ہی کان کنی یا تعمیرات جیسے آلودہ منصوبے شروع کر دیے تھے۔ اس فیصلے نے ماحولیاتی انصاف کو وقتی سہی، مگر ٹھوس شکل دی ہے۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں کان کنی اور شہری پھیلاؤنے مقامی ایکو سسٹم کو جڑ سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔
تاہم، ان دو واقعات، عدالتی فیصلہ اور اے سی کے استعمال پر مجوزہ پابندی کے درمیان بظاہر کوئی تعلق نظر نہ آتا ہو لیکن اگر سطح کے نیچے جھانکا جائے تو دونوں ایک ہی ماحولیاتی بحران کے مختلف مظاہر ہیں۔ عام فہم میں کہا جا رہا ہے کہ چونکہ آلودگی کم ہوگی تو گرمی بھی کم ہوگی اور اس کے نتیجے میں ’اے سی‘ کے استعمال میں بھی کمی آئے گی۔ یہ دلیل اتنی ہی خوش فہمی پر مبنی ہے جتنا یہ تصور کہ سورج ہر روز زمین کے گرد چکر کاٹتا ہے۔
سائنس ہمیں بالکل مختلف منظرنامہ دکھاتی ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق گزشتہ چالیس برسوں میںہندوستان اور جنوبی ایشیا میں درجہ حرارت میں فی دہائی صرف 0.09 ڈگری سیلسیس اضافہ ہوا ہے جب کہ باقی دنیا میں یہ شرح 0.30ڈگری سیلسیس رہی۔ اس کی ایک بڑی وجہ ماہرین فضائی آلودگی کو بتاتے ہیں، خاص طور پر ایروسول ذرات، جو سورج کی روشنی کو سطح زمین تک پہنچنے سے روک کر ایک مصنوعی ٹھنڈک فراہم کرتے ہیں۔ ان ذرات میں سلفیٹ، دھواں اور اسموگ شامل ہیں جو نہ صرف شمسی توانائی کو واپس خلا میں منعکس کرتے ہیں بلکہ بادلوں کی تشکیل میں بھی تبدیلی پیدا کر کے زمین کی سطح کو ٹھنڈا رکھتے ہیں۔
لیکن یہ ٹھنڈک کوئی نعمت نہیں بلکہ صحت کیلئے ایک زہر ہے۔ 2021 کی گلوبل برڈن آف ڈیزیز اسٹڈی کے مطابق ہندوستان میں صرف ایروسول آلودگی سے 20 سے 30 لاکھ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے مقابلے میں گرمی کی لہر سے مرنے والوں کی تعداد ایک سے 6 لاکھ کے درمیان رہی۔ یہ اعداد و شمار اس دردناک سچائی کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہمیں دو متوازی آفات کا سامنا ہے، ایک مرئی، دوسری غیر مرئی؛ ایک موسمی، دوسری صنعتی؛ ایک فوری، دوسری مسلسل۔
گنگا کے میدانوں جو دنیا کے سب سے آلودہ علاقوں میں سے ہیں، میں صنعت، زرعی دھواں اور ٹھوس ایندھن کا استعمال مسلسل ایروسول کی مقدار کو بلند رکھے ہوئے ہے۔ اور یہ فضائی چادر ہمیں جس طرح عارضی ٹھنڈک دیتی ہے اسی شدت سے ہمیں خاموش موت کی طرف بھی لے جا رہی ہے۔
ہمیں یہ تلخ سچائی قبول کرنی ہوگی کہ نہ تو ٹھنڈک مصنوعی تدابیر سے مستقل قائم رہ سکتی ہے اور نہ ہی ترقی ایسی بنیادوں پر ممکن ہے جو ماحولیاتی تباہی کے ملبے پر استوار ہو۔ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ ایک امید کی کرن ضرور ہے، لیکن جب تک اسے ایک جامع، ہمہ جہت ماحولیاتی پالیسی کا پیش خیمہ نہ بنایا جائے یہ محض قانونی فتح کہلائے گی ماحولیاتی نجات نہیں۔ آلودگی، گرمی اور بڑھتی ہوئی اموات کا مثلث اسی وقت شکست کھا سکتا ہے جب ریاست، صنعت اور سماج مل کر اس کے خلاف صف آرا ہوں۔
’اے سی‘ کا استعمال ہو یا اس کی حدبندی کسی ہمہ گیر وژن کے بغیر یہ سب جزوی تدابیر ہیں جو بیکار ہیں۔ ہمیں ایسی حکمت عملی درکار ہے جو نہ صرف گرین ہائوس گیس کے اخراج پر قدغن لگائے بلکہ صحت عامہ، شہری منصوبہ بندی اور توانائی کے قابل تجدید ذرائع کو قومی ایجنڈے کا بنیادی حصہ بنائے۔ ترقی صرف جی ڈی پی کے گراف سے نہیں ماپی جاسکتی، یہ ان سانسوں سے بھی تولی جاتی ہے جو ہم آلودہ فضا میں گھٹ گھٹ کر لیتے ہیں، ان ہڈیوں سے بھی جو جھلستی دھوپ میں محنت کرتی ہیں اور ان خوابوں سے بھی جو اکثر شدید گرمی کی لہر میں دم توڑ دیتے ہیں۔