عبدالماجد نظامی
ایران پر اسرائیلی جارحیت اور اس کے بعد امریکی صدر کی جانب سے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی کے اعلان سے اتنا تو صاف ہوگیا ہے کہ اسرائیل میں اتنا دم خم نہیں ہے جتنا کہ اس کا ہنگامہ کیا جا رہا تھا۔ ابتدائی مرحلہ میں اگرچہ اسرائیل نے اچانک حملہ کرنے کی وجہ سے ایران کی اہم عسکری اور علمی شخصیات کو شہید کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی لیکن جب ایران نے فوراً ہی اپنی کمزوریوں کا مداوا اور اسرائیل پر جوابی حملہ کرناشروع کیا تو صاف معلوم پڑ گیا کہ ایران کوئی لقمۂ تر نہیں ہے جس کو اسرائیل آسانی سے نگل جائے۔ چند ہی دنوں کی جوابی کارروائیوں میں ایرانی حکومت نے دنیا کو دکھا دیا کہ برسوں سے امریکی و مغربی پابندیاں جھیلنے کے باوجود اس نے اپنے ملک کی سیادت کے دفاع کا کافی اچھا انتظام کیا ہے اور ایران کو دھمکی دینا یا اس پر چڑھ بیٹھنا نہایت مشکل کام ہوسکتا ہے۔ باوجودیکہ اسرائیل کو امریکہ اور دنیا میں دوہرے معیار کی عالمی قیادت کرنے والا بر اعظم یوروپ اس کا ہر پل حامی و مددگار رہا ہے لیکن پھر بھی اس کے بس کی یہ بات نہیں تھی کہ ایران سے ایک طویل جنگ کے نتائج کو وہ برداشت کرسکے۔
اگر اسرائیل نے اپنے اس مجرمانہ حملہ کا سلسلہ دراز کیا ہوتا تو اس کا امکان قوی نظر آرہا تھا کہ اس کے تمام شہر ملبوں میں تبدیل ہوجاتے اور بھوتوں کے کھنڈرات کی طرح خوفناک منظر دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہوتے۔ اس کے سارے دفاعی نظام تقریباً بے سود ثابت ہو رہے تھے اور اس جنگ کی یومیہ اقتصادی قیمت اتنی مہنگی ہوگئی تھی کہ اسرائیل کے عوام میں سخت بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پائی جانے لگی تھی۔ ایک محفوظ اور پرامن ارض موعود کا جھانسہ دے کر دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطینیوں کی غصب شدہ زمینوں پر آباد کرنے کا جو خواب پورا کیا گیا تھا، اب اس کی جاذبیت بھی ماند پڑنے لگی تھی اور جس کو بھی جہاں راستہ ملتا تھا، وہ پہلی فرصت میں اسرائیل کو خیر آباد کہہ کر ان ملکوں میں واپسی کو ترجیح دیتا تھا جہاں سے کبھی آیا تھا۔ جو اسرائیل میں رہ گئے تھے، ان کو ہر وقت یہ خطرہ محسوس ہوتا تھا کہ کہیں ایرانی میزائلوں کا اگلا ہدف ان کا گھر بار اور اہل و عیال نہ ہوجائیں۔ خوف و دہشت اور مایوسی و نامرادی کے ان ناگفتہ حالات میں اسرائیل کے جنگی جرائم کے مرتکب وزیراعظم نیتن یاہو کو مجبوراً امریکہ سے مدد کی اپیل کرنی پڑی کہ وہ اس جنگ میں داخل ہو اور ایران کے عذاب سے اسرائیل کو محفوظ بنائے۔ امریکہ نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اسرائیل کو مایوس نہیں کیا اور اسرائیل کے مجرمانہ عمل میں اس کا شریک و ساجھی بن گیا۔
امریکہ نے ایران کے تین جوہری ٹھکانوں کو نشانہ بناکر اس کو مکمل طور پر نیست و نابود کرنے کا دعویٰ کردیا۔ لیکن اس کے فوراً بعد ہی خود امریکی خفیہ دفاعی ایجنسیوں نے اس راز سے پردہ اٹھا دیا کہ امریکی حملوں سے بھی ایران کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا ہے اور ایران کا جوہری پروگرام برسوں کے لیے نہیں بلکہ محض پانچ سے چھ مہینوں کے لیے پیچھے چلا گیا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جو اپنی غیر متوازن شخصیت اور بے بنیاد دعوؤں کے لیے مشہور ہیں، انہوں نے اپنے دعوے کو درست ثابت کرنے کے لیے خود اپنے خفیہ اداروں کی رپورٹ کو بھی غلط قرار دیا اور دنیا بھر میں امریکہ کی جگ ہنسائی کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ ان مسائل کی پیچیدگی کے ساتھ ساتھ اسرائیل و امریکہ نے اپنے سامنے جن جنگی اہداف کی تکمیل کو پیش نظر رکھا تھا، ان میں بھی انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ایران کے جوابی تیور نے امریکہ کو یقین دلا دیا تھا کہ خطہ میں موجود امریکی مفادات کو سخت نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ان مشکل حالات میں اچانک سے ڈونالڈ ٹرمپ کے لہجہ میں ایک پرفریب نرمی نظر آئی اور انہوں نے جنگ بندی کی کوششیں تیز کر دیں۔ ایران تو ویسے بھی جنگ کے خلاف تھا اور اپنے ملک و قوم کی ترقی کے مسئلوں میں ہی بس دلچسپی رکھتا تھا۔
لہٰذا ایران نے بھی ایک پرامن دنیا کے تصور کو عملی روپ عطا کرتے ہوئے اس بات کا یقین دلایا کہ اگر اسرائیل اپنی جارحیت سے باز آجاتا ہے تو وہ بھی حملوں کا سلسلہ روک دے گا۔ آخرکار اسرائیل پر جوابی کارروائی اور قطر میں موجود امریکی عسکری ٹھکانہ پر رمزی حملہ کے بعد ایران نے اپنے وعدہ کو پورا کیا۔ اگر جنگ بندی کے اعلان کے بعد بھی جارحیت کا راستہ کسی نے نہیں چھوڑا تو وہ اسرائیل تھا جو امریکہ کی حفاظت میں پروان تو چڑھتا ہے لیکن خود امریکہ کے مفادات کا لحاظ نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے جب ٹرمپ کے اعلانِ جنگ بندی کے باوجود بھی اسرائیل نے ایران کے خلاف حملہ کو جاری رکھا تو ٹرمپ کو علی الاعلان نیتن یاہو سے سخت و سست لہجہ میں بات کرنی پڑی اور آخرکار اسرائیل و ایران کے درمیان جنگ بندی ہوگئی۔ اب یہ کمزور سا معاہدہ کب تک برقرار رہتا ہے، اس پر ابھی تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکی صدر اپنی صلاحیتوں کا مؤثر استعمال کرکے غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت کے خاتمہ کی کوشش کریں کیونکہ گزشتہ دو برسوں سے وہاں عام فلسطینیوں کا جو قتل عام اسرائیل کر رہا ہے، اس کا جواز دنیا کے کسی فلسفہ و قانون میں نہیں ہے۔
جس بے دردی و بے رحمی سے فلسطینی بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور بیماروں تک کو ہولناک بموں سے ہلاک کیا جا رہا ہے اور ان تک غلہ و اناج یہاں تک کہ پانی اور دوا علاج کے سامان بھی پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے، وہ نہایت غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہونے کے ساتھ حد درجہ غیر انسانی عمل ہے۔ فلسطین کے مجاہدین آزادی کے پاس ایران کی طرح مضبوط دفاعی نظام نہیں ہے، اس کے باوجود اسرائیل نے اپنی مسلسل مجرمانہ جارحیت سے کوئی ہدف حاصل نہیں کیا ہے۔ اس ناکامی نے اسرائیل کو تقریباً پاگل بنا دیا ہے اور دنیا کے سامنے اس کی طاقت کا ہوائی محل فضا میں بے حیثیت ڈھنگ سے اڑ رہا ہے۔ اس سبکی کو مٹانے کے لیے وہ عام نہتے فلسطینیوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور یومیہ طور پر سیکڑوں قیمتی معصوم زندگیاں تباہ و برباد کی جارہی ہیں۔ اگر امریکہ اور مغرب یہ چاہتے ہیں کہ ان کے دوہرے معیار کی بڑی قیمت ان کی آئندہ نسلیں نہ چکائیں اور عالمی نظام میں کم سے کم ادنیٰ درجہ کی انسانیت اور قانون کی پاسداری کا عنصر باقی رہے تو یہ سب سے مناسب وقت ہے کہ ایران میں جنگ بندی کے بعد فلسطین پر جاری اسرائیلی بربریت کو روکا جائے۔
بھوک، پیاس اور بیماری و تنگ حالی کے ناقابل تصور حد تک کربناک حالات کا سلسلہ ختم کرکے فلسطین و غزہ میں امدادی اشیا کے پہنچنے کا راستہ ہموار کیا جائے کیونکہ پوری دنیا چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ فلسطینیوں پر جاری مظالم کو بند کرو۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جنگی جرائم کے مجرم نیتن یاہو پر ان باتوں کا کوئی اثر اس لیے نہیں ہو رہا ہے کیونکہ امریکہ کا مکمل تعاون اس کو حاصل ہے، ورنہ امریکی تعاون اور پشت پناہی کے بغیر غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت ایک دن بھی جاری نہیں رہ سکتی جیسا کہ ایران کے خلاف جنگ بندی کے اعلان سے ثابت ہوتا ہے۔ اب یہ وقت آگیا ہے کہ ٹرمپ جنگ مخالف اپنے دعوے کو حقیقت کا روپ عطا کریں اور غزہ میں جنگ بندی کو فوراً یقینی بنائیں تاکہ دنیا بھر کے عوام میں یہ امید پیدا ہوسکے کہ ابھی انسانیت کے سارے سوتے خشک نہیں ہوئے ہیں اور اب بھی ایک بہتر دنیا بنانے کا خواب دیکھا جا سکتا ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]