جمہوریت کو جب کسی قوم کی اجتماعی زندگی کا نصب العین بنا لیا جائے تو اس کی بنیادوں کو ہلانے والا ہر عمل صرف ایک سیاسی بحران نہیں بلکہ تہذیبی سانحہ ہوتا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں 25 جون 1975 کا دن اسی نوع کا ایک سانحہ تھا۔ ایمرجنسی کا وہ اعلان جس نے آئینی جمہوریت کو چند لمحوں میں ذاتی اقتدار کی بھینٹ چڑھا دیا، آج پچاس برس بعد ایک بار پھر قومی حافظے میں تازہ ہو رہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اسے ہندوستانی جمہوریت کا ’’تاریک ترین باب‘‘ قرار دیتے ہوئے کانگریس کو نشانہ بنایا اور 1975 کی ایمرجنسی کو یاد دلاتے ہوئے اس کے مظالم، آئینی پامالی، میڈیا کی گھٹن اور سیاسی گرفتاریوں کو اجاگر کیاہے۔ مگر کیا آج جب وہ خود اقتدار کے تخت پر فائز ہیں، ان کی حکومت میں جمہوریت اپنی اصل روح کے ساتھ سانس لے رہی ہے؟ یا یہ ایک خاموش، تدریجی اور کہیں زیادہ پیچیدہ جبر کی صورت اختیار کر چکی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ جس ایمرجنسی کو کانگریس کی آمرانہ ذہنیت کا مظہر کہا گیا وہ کم از کم ایک سرکاری اعلان کے ساتھ آئی تھی اور اپنی تمام تر شدت کے باوجود ایک واضح آئینی انحراف تھی جس کا وقت، دائرہ اور انجام طے شدہ تھا۔ مگر آج کی فضا میں جہاں انتخابات بھی ہوتے ہیں، پارلیمنٹ بھی چلتی ہے، میڈیا بھی بظاہر آزاد ہے، وہاں جمہوریت رفتہ رفتہ اس سطح پر پہنچ چکی ہے جہاں وہ جمہوریت کے ہی لبادے میں دم توڑ رہی ہے۔ یہ ایک ایسی غیر علانیہ ایمرجنسی ہے جو نہ صرف خطرناک ہے بلکہ ماضی کی آمریت سے زیادہ دھوکہ دہ ہے۔
کانگریس کے رہنما جے رام رمیش نے بجا طور پر کہا ہے کہ 2014 سے ملک ایک منظم خاموش جبر کی گرفت میں ہے جس میں اختلاف رائے کو بغاوت سے تعبیر کیا جا رہا ہے، صحافت کو اشتہارات اور ای ڈی کے چھاپوں کے ذریعے قابو میں لایا جا رہا ہے، کسانوں کو خالصتانی اور طلبا کو نکسل وادی قرار دیا جا رہا ہے، عدلیہ کی بے حسی نے بنیادی حقوق کے تحفظ کو ایک خواب بنا دیا ہے اور آئینی ادارے محض رسمی کٹھ پتلیوں میں بدل چکے ہیں۔ اگر 1975 میں سنسرشپ حکم ناموں کی صورت میں تھی تو آج صحافت خود اپنے اوپر سنسرشپ نافذ کرنے پر مجبور ہے۔صحافی اپنے الفاظ کی قیمت جان دے کر چکارہے ہیںاورسچ بولنے والوں کوپس دیوار زنداں دھکیلا جارہا ہے، تو اسے جمہوریت نہیں بلکہ خوف کا راج ہی کہاجائے گا۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ گزشتہ گیارہ برسوں میں UAPA، PMLA اور بغاوت کے قوانین کا استعمال غیرمعمولی حد تک بڑھا ہے؟ کیا یہ بھی محض وقتی ضرورت ہے کہ ای ڈی، سی بی آئی اور این آئی اے جیسی ایجنسیاں بیشتر کارروائیاں اپوزیشن لیڈروں، سماجی کارکنوں، ادیبوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف کر رہی ہیں؟ اگر آج سپریم کورٹ میں بنیادی آئینی مقدمات برسوں التوا کا شکار ہیں اور الیکشن کمیشن تک سیاسی جھکائو کے الزامات سے بری نہیں ہو پایا تو کیا ہم جمہوریت کی مضبوطی کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟ اگر انتخابات کا مطلب محض ووٹ ڈالنا رہ گیا ہے اور وہ بھی میڈیا کے شور، انتخابی بانڈز کے غیر شفاف بہائو اور نفرت انگیز بیانیوں کے درمیان تو اس کو انتخابی جمہوریت کہا جا سکتا ہے، حقیقی جمہوریت نہیں۔
نریندر مودی کی حکومت نے اس بیانیے کو خوبصورتی سے قائم کیا ہے کہ وہ آئین کے محافظ اور ایمرجنسی کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والے ہیں۔ مگر اسی بیانیے کے اندر چھپی وہ عملی حقیقتیں ہیں جو آئین کوآج محض ایک حوالہ بنا کر رکھ چکی ہیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی وراثت کا بارہا حوالہ دینے والی یہی حکومت ان قوانین کو فروغ دیتی ہے جو پسماندہ طبقات، دلتوں اور اقلیتوں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔سی اے اے اور این آرسی، لو جہاد قانون، مساجد کے تنازعات، وقف قانون، یکساں سول کوڈ کی آڑ میں عقیدے کی مداخلت یہ سب کسی مخصوص نظریے کو قومی اقدار کی جگہ دینے کی کوشش ہے جوآئین کے سیکولر اور تکثیری مزاج کے منافی ہے۔
ایمرجنسی صرف اسی وقت خطرناک نہیں ہوتی جب وہ سرکاری طور پر نافذ کی جائے، وہ اس وقت زیادہ مہلک ہوتی ہے جب وہ روزمرہ کی قانونی کارروائی، پالیسی سازی، پولیس فورس، عدالتی خاموشی اور میڈیا کی لابیوں میں پھیل جائے۔ 1975 کی ایمرجنسی میں دشمن نظر آتا تھا، آج وہ اندرون میں چھپا بیٹھا ہے۔ عدلیہ، میڈیا، سول سوسائٹی سب پر ایسا خاموش دبائو ہے کہ گویا جمہوریت اب صرف رسمیات کا مجموعہ رہ گئی ہے۔
آج جب ہم پچاس سال پرانی ایمرجنسی کی مذمت کرتے ہیں تو ہمیں اتنا ہی شدید تجزیہ آج کے سیاسی جبر پر بھی کرنا ہوگا۔ کیونکہ وہ ظلم جو خاموش ہو کر کیا جائے وہ سب سے زیادہ گہرا اور پائیدار ہوتا ہے۔ جمہوریت اگر واقعی زندہ ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اختلاف کو جرم نہ سمجھیں اور تنقید کو غداری نہ بنائیں۔