خواجہ عبدالمنتقم
ملک اور ملک کے کسی حصے میں ایمرجنسی کا اعلا ن ایک آئینی کارروائی ہے اور یہ اعلان ناگہانی حالت میں صرف آئین کی ناگہانی حالت سے متعلق دفعات کے مطابق ہی کیا جا سکتا ہے،نہ کہ من مانے ڈھنگ سے۔جہاں تک ہمارے ملک کی بات ہے یہاں کسی مطلق العنان حکمراں یعنی ڈکٹیٹر کی حکمرانی نہیں ہے۔ یہاں صرف آئین کو بالادستی حاصل ہے۔ قانون کی حکمرانی یاقانون کی بالادستی (Rule of law)کامطلب یہ ہے کہ سرکار کی جو بھی کارروائی ہو، اس کا کوئی نہ کوئی قانونی جواز ہونا چاہیے۔ 1961 میں ہمارے لاء کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ کوئی قوم جمہوری ڈھنگ سے تب تک نہیں چل سکتی جب تک کہ اسے قانون کی بالادستی اور اس کی اہمیت کا مکمل احساس نہ ہو۔ قانون کی برتری، حکام وسرکار کو من مانے ڈھنگ سے کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔کوئی بھی شخص قانون سے بالا تر نہیں ہے۔
ایمرجنسی کا اعلان صرف آئین کی دفعہ 352کے تحت ہی کیا جا سکتا ہے، اس دفعہ کی عبارت درج ذیل ہے جو بالکل واضح ہے :
.352ناگہانی حالت کا اعلان نامہ۔اگر صدر مملکت مطمئن ہوجائیں کہ ایسی شدید ناگہانی حالت موجود ہے جس سے بھارت یا اس کے کسی حصے کی سلامتی کو جنگ، بیرونی حملہ یا مسلح بغاوت کا خطرہ ہے تو وہ اعلان نامے کے ذریعہ پورے بھارت یا اس کے کسی علاقے کی نسبت، جس کی اعلان نامہ میں صراحت کی گئی ہو، اس منشا کا اعلان کرسکتے ہیں(موجودہ صورت حال میں کرسکتی ہیں)۔
تشریح:۔ناگہانی حالت کا ایسا اعلان نامہ، جس میں یہ قرار دیا جائے کہ بھارت یا اس کے کسی حصہ کی سلامتی کو جنگ یابیرونی حملے یا مسلح بغاوت کا خطرہ ہے، حقیقی طور پر جنگ یا ایسا کوئی حملہ یا بغاوت واقع ہونے سے پہلے کیا جاسکے گا جبکہ صدر مطمئن ہو کہ اس کے واقع ہونے کافوری خطرہ ہے۔
(2)فقرہ (1) کے تحت اجرا کیے ہوئے اعلان نامے کو مابعد اعلان نامے سے تبدیل یا منسوخ کیاجاسکتا ہے۔
(3) صدر تب تک فقرہ(1) کے تحت اعلان نامے یا ایسے اعلان نامے میں تبدیلی کا اعلان جاری نہ کریں گے جب تک اسے یونین کابینہ (یعنی کابینہ جو دفعہ75کے تحت مقرر ہ وزیراعظم اور کابینہ درجے کے دیگر وزرا پر مشتمل ہو) کا یہ فیصلہ کہ ایسا اعلان جاری کیا جائے تحریری طور پر موصول نہ ہو۔
(4) اس دفعہ کے تحت جاری کیا گیا ہر اعلان نامہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں رکھا جائے گا اور سابقہ اعلان نامے کو منسوخ کرنے والے اعلان نامے کے سوا اس کا نفاذ ایک مہینے کی مدت منقضی ہونے پر ختم ہوجائے گا تاوقتیکہ ایسی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی اسے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی قرارداد کے ذریعے منظور نہ کر دیا جائے لیکن اگر اعلان نامہ(جو سابقہ اعلان نامہ منسوخ کرنے والا اعلان نامہ نہ ہو) اس وقت جاری کیا جائے جب لوک سبھا توڑدی گئی ہو یا لوک سبھا کو توڑا جانا اس فقرہ میں، محولہ ایک مہینے کی مدت کے دوران واقع ہو اور اگر اعلان نامہ کی منظوری کی قرار داد راجیہ سبھا نے منظور کردی ہو لیکن لوک سبھا نے اس مدت کے ختم ہونے سے پہلے منظور نہ کی ہو تو اسی تاریخ سے جس پر لوک سبھا کی اس کی مکرر تشکیل کے بعد پہلی بارنشست ہو،30 دن کے ختم ہونے پر اعلان نامہ کا نفاذ ختم ہوجائے گا بجز اس کے کہ مذکورہ تیس دن کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی لوک سبھا بھی اعلان نامہ کی منظوری کی قرار داد کو منظور کر دے۔
(5) اس طرح منظور کیا گیا اعلان نامہ جب تک کہ اسے منسوخ نہ کیا جائے فقرہ(4) کے تحت اعلان نامہ کی منظوری کی دوسری قرار داد منظور ہونے کی تاریخ سے 6 مہینے کی مد ت ختم ہونے پر نافذالعمل نہ رہے گا۔
بشرطیکہ اگر اور اتنی بار جتنی بار ایسے اعلان نامہ کے نفاذ کو جاری رکھنے کی منظوری کی قرار داد پارلیمنٹ کے دونوں ایوان منظور کرتے ہیں، ایسا اعلان نامہ بجز اس کے کہ منسوخ کیا جائے اس تاریخ سے جس پر وہ اس فقرہ کے تحت دیگر طور پر نافذنہ رہتا 6 مہینوں کی مزید مدت کے لیے نافذ رہے گا۔مزید شرط یہ ہے کہ اگر 6 مہینوں کی کسی ایسی مدت کے دوران لوک سبھا کا توڑا جانا واقع ہوجائے اور ایسے اعلان نامہ کے نفاذ کو جاری رکھنے کی منظوری کی قرار داد کو راجیہ سبھا نے منظور کردیا ہو لیکن مذکورہ مدت کے دوران لوک سبھا نے اسے منظور نہ کیا ہو تو ایسا اعلان نامہ اس تاریخ کو جس پر لوک سبھا کی اس کی مکرر تشکیل کے بعد پہلی بار نشست ہو، 30 دن پورے ہونے سے پہلے لوک سبھا بھی اعلان نامے کی منظوری کی قرار دا د کو منظور کردے۔
(6) فقرہ (4) اور (5) اغراض کے لیے کسی قرار داد کو پارلیمنٹ کا کوئی ایوان صرف اس ایوان کی کل رکنیت کی اکثریت کے ذریعہ او راس ایوان کے موجود اور رائے دینے والے کم سے کم دو تہائی ارکان کی اکثریت سے منظور کرے گا۔
(7) متذکرہ فقروں میں درج کسی امر کے باوجود صدر فقرہ (1) کے تحت جاری کردہ کسی اعلان نامے کو یا ایسے اعلان نامے کو تبدیل کرنے والے کسی اعلان نامے کو اگر لوک سبھا ایسے اعلان نامے کی نا منظوری کی یا اس کے نفاذ کو نامنظورکرنے کی قرار داد منظور کرے، منسوخ کر دیں گے۔
(8) جب لوک سبھا کے ارکان کی کل تعداد کاد سواں حصہ اپنے دستخط سے(الف) اگر اجلاس جاری ہو تو اسپیکر کو، یا(ب) اگر اجلاس جاری نہ ہو تو صدر کو،اپنی اس منشا کا تحریری نوٹس دے کہ فقرہ(1) کے تحت جاری کردہ اعلان نامے کے نفاذ کو یا اس اعلان نامہ کو بدلنے والے کسی نافذہ اعلان نامہ کو، جیسی کہ صورت ہو، نامنظور کرنے کی نسبت قرار داد پیش کی جانی چاہیے تو اس صورت میں اسپیکر یا صدر کو، جیسی کہ صورت ہو، مذکورہ نوٹس موصول ہونے کی تاریخ سے چودہ دن کے اندر اس قرار داد پر غورو خوض کرنے کے لیے ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جائے گا۔
(9)صدر کو اس دفعہ کی رو سے جو اختیار عطا کیا گیا ہے اس میں جب جنگ یا بیرونی حملہ یا مسلح بغاوت ہو یا جنگ یا بیرونی حملہ یا مسلح بغاوت کا فوری خطرہ ہو تو مختلف وجوہ کی بناء پر مختلف اعلان نامے اجرا کرنے کا اختیار شامل ہوگا خواہ فقرہ(1) کے تحت صدر کا پہلے ہی سے اجرا کیا ہوا کوئی اعلان نامہ موجودہو یانہ ہو اور ایسا اعلان نامہ نافذ العمل ہو یا نہ ہو۔
یاد رہے کہ آئین کی دفعہ 355 کے تحت مرکزی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام ریاستوں کو بیرونی حملے اور اندرونی شورش سے محفوظ رکھے اور اس بات کا اطمینان کرے کہ ہر ریاست کی حکومت آئین کی دفعات کے مطابق ہی چلائی جائے۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]