این جی او کے ذریعہ شہریت قانون کے خلاف عرضی داخل،سی اے اے بچوں کے مخصوص زمرے کو غیر شہری قرار دیتا ہے
نئی دہلی: ایسوسی فار پروٹیکشن آف سول رائیٹس آف انڈیا نے سٹی زن شپ (امینڈمنٹ)ایکٹ کے خلاف ایک پٹیشن داخل کرکے درخواست کی ہے کہ عدالت عظمی اس قانون کو غیر دستور قراردےکر نافذ نہ ہونے دے۔ یہ پٹیشن سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کے ذریعے داخل کی گئی۔ جسمیں درخواست کنندگان خود اے پی سی آر ہوگا اور ساتھ ہی رفیق احمد اور ایڈوکیٹ شعیب انعامدار ہونگے۔ اس پٹیشن میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ”عدالت اس قانون کو کالعدم قرار دے اس لئے کہ یہ قانوں ملک کے آئین، اس کی روح اور بنیادی حقوق سے راست متصادم اور امتیاز و تفریق پر مبنی ہے“۔”شہریت مذہب کی بنیاد پر نہیں دے سکتی“۔ مذکورہ بالا وجوہات اور دلائل کی بنیاد پر درخواست گزار عدالت عظمی سے اپیل کرتے ہیں کہ یہ قانون بچوں کے کچھ خاص طبقوں کو غیر ریاست قرار دیتا ہے۔ جس میں بچوں کے حقوق پر خصوصی زور دیا گیا۔ درخواست میں شہریانہ ایکٹ 1955 کے سیکشن 3(1)کو بھی صوابدیدی طور پر چیلنج کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس میں ”مختلف ادوار میں ہندوستان میں پیدا ہونے والے بچوں کو شہریت دینے کے لئے مختلف پیرامیٹرز وضع کیے گئے ہیں“۔اس سے اندازہ ہوا کہ دفعہ 3(1)ان کی تاریخ پیدائش کے مطابق بچوں کے ساتھ مختلف سلوک کا بندوبست کرتی ہے اور تاریخ کے مطابق درجہ بندی کی بنیاد پر بچوں کے کچھ زمرے کو بے بنیاد قرار دیتی ہے ، جو صریحاً من مانی ہے۔”درخواست دہندگان یہاں امپیگڈ ایکٹ کے ساتھ ساتھ امپویڑنڈ پروویڑنز اور امپیڈڈ نوٹیفیکیشن کو بھی چیلینج کررہے ہیں ، کیونکہ یہ دستور ہند کے آرٹیکل 13،14،15،21، 51 (c) اور 51-A کی خلاف ورزی ہے۔مزید ، یہ بھی کہا گیا ہے کہUnited Nations Convention on the Rights of the child 1990 کی بھی خلاف ورزی ہے ، جس پر ہندوستان دستخط کنندہ ہے۔درخواست میں مزید کہا گیا کہ شہریت کا نیا قانون بعض مذاہب کی شہریت کی حیثیت کی اہلیت کی حیثیت سے پیش گوئی کرتا ہے جو سیکولرازم کے اصول کے منافی ہے اور یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہے۔
این جی او کے ذریعہ شہریت قانون کے خلاف عرضی داخل،سی اے اے بچوں کے مخصوص زمرے کو غیر شہری قرار دیتا ہے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS