ذات پر مبنی مردم شماری میں سماجی تنظیموں کی شمولیت کی ضرورت : ڈاکٹر جاوید عالم خان

0

ڈاکٹر جاوید عالم خان

16جون کو مرکزی حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کو منعقد کرنے کیلئے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ملک کی 16ویں مردم شماری2026-27کے دوران منعقد کی جائے گی۔ گزشتہ مہینے ہی مرکزی حکومت نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ آبادی کی گنتی2027میں مکمل کرلی جائے گی۔1931کے بعد ملک میں ذات پر مبنی یہ پہلی مردم شماری ہوگی۔ حکومت نے نوٹیفکیشن کے ذریعے ذات پر مبنی مردم شماری کیلئے ایک روڈ میپ بھی تیار کیا ہے جس کے مطابق مردم شماری کے دوران او بی سی برادری کی گنتی کیلئے مرکزی اور صوبائی لسٹ کو ایک ساتھ استعمال کیا جائے گا۔ ویسے برفیلے علاقوں جیسے لیہہ، لداخ، کشمیر، ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ میں مردم شماری یکم اکتوبر 2026 سے شروع کی جائے گی۔ ابھی تک ذات پر مبنی مردم شماری کے عمل میں شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب ہی شامل کیے جاتے تھے لیکن موجودہ سینسس میں او بی سی ذاتوں کو بھی شامل کیا جائے گا، اس وقت او بی سی زمرے میں 2513 برادریاں مرکزی فہرست میں شامل ہیں۔ جو بھی او بی سی برادریاں مرکز کے زیر انتظام علاقوں اور صوبوں کی فہرست میں شامل ہیں، وہ بھی مرکزی فہرست کا حصہ ہوں گی اور ان کو بھی تعلیمی اداروں اور نوکریوں کے مواقع فراہم کیے جائیں گے لیکن زیادہ تر صوبے او بی سی برادریوں کیلئے اپنی خود کی فہرست تیار کیے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مختلف صوبوں میں ذات اور برادریوں کی صوبائی فہرست مختلف ہوگی۔ جہاں تک شیڈول کاسٹ کا تعلق ہے تو اس وقت ان کے یہاں 1270 برادریاں ہیں، اسی طرح سے شیڈول ٹرائب کے زمرے میں748برادریاں شامل کی گئی ہیں۔

مردم شماری کے پہلے مرحلے میں سرکاری عملہ ملک کے اندر ہر ایک گھر اور عمارت کی خصوصیات کا ریکارڈ تیار کرے گا، اس کے ساتھ ساتھ عمارتوں کے استعمال جیسے کہ رہائشی ہیں یا تجارت کے مقصد سے کیے جاتے ہیں، ان کے بھی اعدادوشمار تیار کیے جائیں گے۔ ان عمارتوں کی تعمیر میں جو بھی میٹیریل استعمال کیا گیا ہے، ان کے بھی اعدادوشمار جمع کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ان گھروں کے اندر کچھ بڑے سازو سامان کو بھی ریکارڈ کیا جائے گا۔ مردم شماری کے عمل میں کمروں کی تعداد، گھروں کی ملکیت، بجلی اور پانی کے ذرائع، بیت الخلا کے اقسام، ایندھن کا استعمال، ٹی وی، فریج، فون اور گاڑیوں کے بارے میں بھی گنتی کی جائے گی۔ پہلے مرحلے میں گھروں کے پروفائل، بنیادی سہولتوں کا استعمال اور لوگوں کی زندگی گزارنے کے حالات پر اعدادوشمار جمع کیے جائیں گے۔ یہ کام سال2026کے یکم مارچ سے 30ستمبر کے دوران کیا جائے گا۔

دوسرے مرحلے میں آبادی کی گنتی کی جائے گی اور اس کے تحت انفرادی طور پر سوال پوچھے جائیں گے جن کا تعلق نام، عمر، جنس، تاریخ پیدائش، گھر کے مالک کے ساتھ رشتہ، تعلیم، پیشہ، مذہب، ذات/قبیلہ، معذوری، ہجرت کی تاریخ وغیرہ وغیرہ۔ مزید بے گھر لوگوں کے اعدادوشمار بھی اکٹھے کیے جائیں گے۔ اس مرحلے میں ڈیموگرافی، سماجی، تعلیمی اور اقتصادی صورتحال کے بارے میں تفصیلات جمع کی جائیں گی۔ ان تفصیلات کا استعمال حکومت کے ذریعے پالیسی سازی اور اسمبلی و پارلیمنٹ کے حلقوں کی حدبندی میں کیا جائے گا۔

اعدادوشمار کو مرکزی سطح پر تیار کیا جائے گا اور اس کو کئی مرحلوں میں جاری کیا جائے گا، ساتھ ہی سب سے پہلے آبادی پر مشتمل عارضی ڈاٹا ٹیبل کو تیار کیا جائے گا اور بعد میں تفصیلی اعدادوشمار کو مہیا کرایا جائے گا۔ عارضی اعدادوشمار اس عمل کے دس دنوں کے اندر مہیا کرائے جائیں گے جبکہ حتمی ڈاٹا ٹیبل کو تیار کرنے میں چھ مہینے درکار ہوں گے۔ آنے والے مردم شماری کے عمل کو فروری2027تک مکمل کیے جانے کا امکان ہے۔

موجودہ سینسس کے طریقہ کار میں کافی بدلاؤ لانے کا بھی امکان ہے جیسے کہ اس بار پورا عمل ڈیجیٹل طریقہ کار سے کیا جائے گا۔ گنتی کرنے والے عملے کو اسمارٹ فون مہیا کرایا جائے گا جس میں تمام طرح کی انفارمیشن کو اپلوڈ کردیا جائے گا جس سے غلطی ہونے کا خدشہ کم ہوگا اور مردم شماری کے عمل میں تیزی لائی جاسکتی ہے۔ اسی طرح سے کاغذ اور قلم کا استعمال اس سینسس میں نہیں کیا جائے گا۔ موجودہ سینسس میں نئی کوڈنگ سسٹم کا استعمال کیا جائے گا جس سے کہ اعدادوشمار کے اندراج کو یکسانیت کے ساتھ پورے ملک میں کیا جاسکتا ہے اور کمپیوٹر کے استعمال کی وجہ سے مردم شماری کے عمل میں زیادہ تیزی لائی جائے گی۔ اس سینسس میں حکومت نے عوام کو یہ بھی موقع دیا ہے کہ وہ خود سے اپنے بارے میں معلومات اور تفصیلات ایپ کے ذریعے درج کر سکیں گے۔ اس کے لیے حکومت ایک یونک آئی ڈی بھی تیار کرنے کا پلان کررہی ہے اور حکومت کے ذریعے بنائے گئے پورٹل پر لاگ ان کرکے ذاتی معلومات کو درج کیا جاسکتا ہے۔ رجسٹرار جنرل آف انڈیا نے مردم شماری کے دونوں مرحلوں کیلئے تفصیلی سوالات تیار کیے ہیں تاہم یہ بھی کہا جارہا ہے کہ گزشتہ مردم شماری کے مقابلے اس بار سوالات بہت مختلف نہیں ہوں گے، گھروں کو لسٹ کرنے کیلئے34کالم میں اعدادوشمار اکٹھے کیے جائیں گے، وہیں آبادی کی گنتی کیلئے28کالم میں تفصیلات جمع کی جائیں گی۔ حکومت کے ذرائع کے مطابق نئے سوالات میں انٹرنیٹ، موبائل فون یا اسمارٹ فون، پینے کے پانی کے ذرائع، گیس پائپ لائن، گاڑیوں کی ملکیت، صاف ایندھن جیسے سوالات کو جوڑا جائے گا مگر زمینوں کی ملکیت اور تجارت جیسے سوالات کو ابھی تک شامل نہیں کیا گیا ہے۔ مردم شماری کیلئے تقریباً30لاکھ اساتذہ کا استعمال کیا جائے گا، اسی طرح سے ضلع اور تحصیل کی سطح پر ایک لاکھ سے زیادہ لوگ اس عمل کو مکمل کرنے میں مدد کریں گے، وہیں 46ہزار لوگوں کو ٹریننگ دینے کیلئے استعمال کیا جائے گا حالانکہ مردم شماری کے عمل میں کئی سارے چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑے گا جیسے کہ ڈیجیٹل معلومات ابھی بھی زیادہ تر سرکاری اور غیرسرکاری لوگوں کو مہیا نہیں کرائی گئی ہیں، اس کے علاوہ ملک کے بہت سارے علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولیات دستیاب نہیں ہیں، وہیں ذات پر مبنی مردم شماری کے عمل میں عوام کے اندر اپنی ذات برادریوں کے بارے میں بیداری کی کمی ہے لہٰذا ملی اور سماجی تنظیموں کو سینسس کے پورے عمل کے بارے میں بیداری کی ایک مہم چلانی چاہیے تاکہ مرکزی اور صوبائی سطح پر تیار کی گئی ذاتوں کی لسٹ کے بارے میں مسلم عوام کو آگاہ کرایا جاسکے، ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ لوگ اپنی ذات کو صحیح طریقے سے گنتی کرنے والوں کے اسمارٹ فون میں درج کرا سکیں۔ مزید مسجد اور وارڈ کی سطح پر کمیونٹی والنٹیئرز بنانے کی ضرورت ہے اور ان کی ٹریننگ بھی کی جانی چاہیے تاکہ وہ مردم شماری کے عمل میں سرکاری عملے کے ساتھ مل کر کام کریں اور اس عمل میں کوئی بھی گھر ایسا نہ ہو جو مردم شماری میں چھوٹ جائے۔ ملی اور سماجی تنظیموں کو متحدہ طور پر ایک پلیٹ فارم کے تحت مردم شماری کے عمل میں شامل ہونا چاہیے، اس کے علاوہ مختلف او بی سی ذات برادریوں کی تنظیموں کو بھی اس عمل میں شریک ہونا چاہیے۔

(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی کے ڈائریکٹر ہیں )
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS