ایران پر اسرائیل کے حالیہ مہلک فضائی حملے اور اس کے جواب میں ایرانی میزائلوں کی گونج نے مشرق وسطیٰ کو ایک بار پھر آگ اور بارود کی بھٹی میں جھونک دیا ہے۔ غزہ میں دو برس سے جاری اسرائیلی درندگی، جس میں 60ہزار سے زائد فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں، اس انسانی المیے کا وہ پیش خیمہ تھی جس نے پورے خطے کو بے یقینی، خوف اور تباہی کے دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ دہشت گرد ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کے ہاتھوں لکھی جا رہی یہ خونچکاں تاریخ صرف فلسطین،لبنان یا شام ہی نہیں اب ایران اور اس کے توسط سے پورے ایشیائی خطے کے امن کو غارت کرنے پرتلی ہوئی ہے۔ ایسے میں جب دنیا کے ضمیرپر خاموشی کا پہرا ہے، ہندوستانی حکومت کا اسرائیل کے حق میں یک طرفہ جھکاؤ، سفارتی کم فہمی ہی نہیںبلکہ اقتصادی خودکشی کے مترادف ہے۔
ہندوستان آج اس مقام پر کھڑا ہے جہاں ایک غیر ملکی جنگ براہ راست اس کے عوام کی زندگیوں، روزگار، کھانے پینے کی اشیا، توانائی اور ڈیجیٹل سلامتی کو زلزلے کی مانند ہلا سکتی ہے۔ خام تیل، جس پر ہماری توانائی کا 80 فیصد انحصار ہے، اگر مشرق وسطیٰ میں کسی بھی بندرگاہ خصوصاً آبنائے ہرمز کی بندش کا شکار ہوا تو نہ صرف قیمتیں آسمان سے باتیں کریں گی بلکہ تیل کی ترسیل بھی غیر یقینی ہو جائے گی۔ اس کا پہلا شکار ہماری کرنسی بنے گی جس کی قدر میں کمی ایک تسلسل کے ساتھ مہنگائی، درآمدی بوجھ اور زرمبادلہ کے ذخائر پر حملہ کرے گی۔حکومتی سطح پر عوامی فلاح کیلئے مختص بجٹ کاٹ کر تیل خریدنے پر صرف کیا جائے گا۔ بنیادی سہولیات جیسے تعلیم، صحت، راشن، سبسڈی اور روزگار اسکیمیں سب سے پہلے قربان گاہ میں رکھی جائیں گی۔ اگر یہ سب کچھ محض تزویراتی دوستی کے نام پر ہو رہا ہے تو یہ قوم کے ساتھ بدترین ناانصافی ہے۔
حکومت کی طرف سے چپ سادھ لینا یا اسرائیلی بربریت پر خاموشی اختیار کرنا ایک غیر ذمہ دارانہ طرزعمل ہی نہیں، بلکہ قومی مفادات کے برعکس ایک خطرناک کھیل ہے۔ ہندوستان کی بے حسی اس وقت اور زیادہ قابل گرفت ہو جاتی ہے جب اس کی اپنی تجارتی راہداری جیسے چاہ بہار بندرگاہ میں کی گئی کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری اور باسمتی چاول کی برآمدات ایران میں ادائیگی کی تاخیر سے بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ اس کے باوجود حکومت نہ تو جنگ کی مذمت کرتی ہے، نہ ہی جنگ بندی کیلئے کوئی سفارتی کوشش کرتی ہے۔ایسا لگ رہاہے کہ اسرائیل کے ہتھیاروں، مصنوعی ذہانت اور زرعی ٹیکنالوجی کی چمک نے ہندوستان کو اس حد تک اندھا کر دیا ہے کہ وہ ایک سفاک نسل کش ریاست کی دفاع میں اپنی معاشی خودمختاری کو گروی رکھ چکا ہے۔
مزید خطرناک بات یہ ہے کہ ہندوستان کا 95 فیصد انٹرنیٹ ڈیٹا ٹریفک مشرق وسطیٰ سے گزرنے والی زیر سمندر کیبلز پر انحصار کرتا ہے۔ جنگ کے دائرۂ کار میں ان کیبلز کی تباہی نہ صرف بینڈوتھ کی قلت، بلکہ پوری ڈیجیٹل معیشت، آئی ٹی سیکٹر، اسٹاک مارکیٹ اور مالیاتی نظام کو مفلوج کر سکتی ہے۔ 245 بلین ڈالر کی ڈیجیٹل معیشت ایک لمحے میں کریش کر سکتی ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جس پر شاید حکومتی ایوانوں میں کوئی غور نہیں ہو رہا۔
اسرائیل سے ہمارے دفاعی معاہدے جیسے ہیرون ڈرون، ہاروپ گولہ بارود اور دیگر جنگی ساز و سامان، ایک طرف اور ان معاہدوں کے سبب پیدا ہونے والی سفارتی پوزیشن دوسری طرف۔ جب ہم حیفہ پورٹ پر اڈانی گروپ کی 1.2 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کو دیکھتے ہیں جو انڈیا-مڈل ایسٹ-یوروپ اکنامک کوریڈور (IMEC) کا ستون ہے تو سوال یہ ہے کہ اگر یہ جنگ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو کیا ہماری سرمایہ کاری، منصوبہ بندی اور خارجہ پالیسی کا یہ ڈھانچہ باقی رہ پائے گا؟
ہندوستان اس وقت جس خطرناک موڑ پر کھڑا ہے، اس میں خاموشی یا اسرائیل نوازی محض اخلاقی دیوالیہ پن نہیں بلکہ سیاسی ناعاقبت اندیشی اور اقتصادی خودکشی ہے۔ جب دنیا کی معیشتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہوں تو غیر جانبداری کوئی اخلاقی انتخاب نہیں بلکہ معاشی اور تزویراتی مجبوری ہے۔ ہندوستان کو اگر واقعی عالمی سطح پر طاقتور بننا ہے تو اسے ہر اس جنگ کی مخالفت کرنی ہوگی جو انسانیت کے خلاف ہو، چاہے وہ اسرائیل کرے یا ایران، امریکہ کرے یا روس۔ ورنہ یہ خاموشی آنے والی نسلوں کی غربت، بھوک اور محرومی کا اعلان بن جائے گی۔
ہندوستانی حکومت اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لے تو عنقریب وہ دن دور نہیں جب جنگ کی آگ میں جھلستے مشرق وسطیٰ کی راکھ سے ہندوستانی خواب بھی جل کر خاک ہو جائیں گے۔ پھر نہ کسی اقتصادی راہداری کا فائدہ رہے گا، نہ ڈیجیٹل انڈیا کا خواب باقی بچے گا۔ تب ایک اسرائیلی ’’دوستی‘‘ کی قیمت ایک ارب چالیس کروڑ ہندوستانیوں کی فلاح سے چکانی پڑے گی اور تب تک شاید بہت دیر ہو چکی ہو گی۔