حکومت نہیں، آئین ہمارا رہنما ہے: عرفان قادری

0

عرفان قادری

ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس کی بنیاد آئین پر رکھی گئی ہے، نہ کہ کسی فرد، کسی جماعت یا کسی مذہبی مسلک پر۔ یہاں حکومتوں کا آنا جانا ایک جمہوری عمل ہے، لیکن آئین اپنی جگہ ایک مستقل ستون کی طرح قائم رہتا ہے۔ یہی آئین ہر ہندوستانی کو یکساں حقوق، آزادی اور انصاف عطا کرتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ وقت میں یہی آئین سنگین خطرات سے دوچار ہے اور اس کا سب سے بڑا سبب وہ حکومتی ذہنیت ہے جو آئین کو اپنی راہ کا پتھر سمجھتی ہے، منزل کا چراغ نہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی موجودہ حکومت نے گزشتہ برسوں میں جس انداز سے آئینی اداروں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا ہے، وہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔ چاہے الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری ہو، سپریم کورٹ کی خودمختاری ہو یا یونیورسٹیوں اور اقلیتی کمیشن کی آزادی-ہر ادارے کو ایک سیاسی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان اداروں کو غیر مؤثر بنا کر عوام کے اعتماد کو بھی کمزور کیا گیا ہے۔ آئینی اداروں کی آزادی کو محدود کرنا صرف ایک پارٹی کی جیت نہیں، پوری قوم کی ہار ہوتی ہے۔سب سے زیادہ نقصان دلت، پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کو ہو رہا ہے۔ جو حقوق انہیں آئین کے تحت حاصل تھے، آج انہیں چالاکی سے کمزور کیا جا رہا ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کا دائرہ سمٹ رہا ہے، تعلیمی اداروں میں نمائندگی گھٹائی جا رہی ہے اور اقلیتی اداروں کو غیر ضروری ضوابط میں الجھا کر ان کا دم گھونٹا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ظاہری قانون کے دائرے میں ہو رہا ہے، لیکن مقصد صرف یہ ہے کہ کمزور طبقے کبھی طاقتور نہ بن سکیں۔ انہیں صرف ووٹ بینک کی حد تک رکھا جائے، لیکن اقتدار کی اصل کرسی سے دور رکھا جائے۔

بی جے پی کے کئی اہم لیڈروں نے 2024کے انتخابات سے قبل صاف الفاظ میں آئین بدلنے کی بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان کی حکومت پھر سے آئے گی تو وہ آئین میں ترمیم کریں گے۔ اس اعلان کے بعد ملک کے عوام نے غیرمعمولی سیاسی بیداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بیساکھیوں پر کھڑا کر دیا۔ اکثریت کا غرور خاک میں ملا دیا گیا۔ عوام نے پیغام دیا کہ آئین کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ برداشت نہیں کی جائے گی۔ عوام نے یہ بھی سمجھ لیا ہے کہ آئین صرف ایک کتاب نہیں، یہ ان کے وجود، وقار اور آزادی کی دستاویز ہے۔

خصوصاً اترپردیش میں بی جے پی کو واضح نقصان پہنچا۔ وہاں کے دلت، پسماندہ اور اقلیتی طبقات نے یہ طے کر لیا ہے کہ 2027 میں اس جماعت کو اقتدار سے مکمل بے دخل کیا جائے گا۔ کیونکہ اگر اب بھی خاموشی اختیار کی گئی تو آئندہ نسلوں کو بنیادی حقوق کے حصول کے لیے بھی ترسنا پڑے گا۔ خاموشی ایک طرح کی رضامندی ہوتی ہے اور جب ظلم کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھائی جائے تو ظالم خود کو حق پر سمجھنے لگتا ہے۔خارجہ پالیسی میں بھی حکومت کی خودداری کہیں نظر نہیں آتی۔ جب پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی، پورے ملک نے متحد ہو کر حکومت کی حمایت کی۔ اپوزیشن نے بھی اختلافات بالائے طاق رکھ کر ایک آواز میں قومی سلامتی کی بات کی۔ لیکن جب امریکہ نے سیز فائر کا اعلان کیا تو حکومت نے کسی سخت جواب کے بجائے اسے فوراً قبول کر لیا۔ سوال یہ نہیں کہ سیزفائر کیوں ہوا، سوال یہ ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی میں اتنے مجبور کیوں نظر آتے ہیں؟ یہ وہی حکومت ہے جو خود کو وشو گرو کہتی ہے، لیکن عملی میدان میں وہ ایک طالب علم سے زیادہ نہیں دکھتی۔

حکومت کے اس طرز عمل نے یہ بھی ظاہر کر دیا ہے کہ جس وقت قوم یکجہتی کا مظاہرہ کرتی ہے، حکومت اسے ایک سیاسی موقع میں بدلنے کی کوشش کرتی ہے۔ میڈیا پر جشن کا ماحول بنایا گیا۔ فوج کی بہادری کا کریڈٹ سیاسی لیڈران لے رہے ہیں اور عوام کو ایک بار پھر جذباتی نعروں میں الجھایا جا رہا ہے۔ اصل مسائل جیسے بے روزگاری، مہنگائی، سماجی تفریق اور تعلیمی زوال پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔ ایسے میں ایک اور اہم مسئلہ ہے-ذات پر مبنی مردم شماری۔ اگر ملک میں حقیقی سماجی انصاف لانا ہے تو سب سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ کسے کتنا ملا ہے اور کسے محروم رکھا گیا ہے۔ یہ مردم شماری ہی وہ آئینہ ہے جو حکومت کے دعوؤں کی حقیقت کو عوام کے سامنے لا سکتی ہے۔ لیکن بی جے پی حکومت اس مردم شماری سے خوفزدہ ہے، کیونکہ اس کے بعد ان کا سماجی تانا بانا منہدم ہو سکتا ہے۔ ان کا ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کا نعرہ کھوکھلا ثابت ہو جائے گا۔حکومت کی کئی پالیسیاں جیسے این آر سی، سی اے اے، یکساں سول کوڈ اور نئی تعلیمی پالیسی دراصل اسی کوشش کا حصہ ہیں جس کا مقصد آئینی مساوات کے تصور کو مٹانا ہے۔ یہ پالیسیاں ایک مخصوص نظریے کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنائی گئی ہیں، جبکہ آئین سب کے لیے برابری کا حق دیتا ہے۔ ایسے میں اگر ہم خاموش رہے تو وہ دن دور نہیں جب دستور محض کاغذ کا ایک ٹکڑا رہ جائے گا اور عدلیہ بھی اپنے فیصلوں میں اکثریتی جذبات کے تابع ہوجائے گی۔جمہوریت صرف انتخابات کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے جس میں عوام کو ہر وقت چوکنا رہنا ہوتا ہے۔ اگر ادارے بکے ہوئے ہوں، میڈیا بکاؤ ہو اور عوام خاموش ہوں تو جمہوریت صرف نام کی رہ جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر شہری آئین کے تحفظ کو اپنی ذمہ داری سمجھے۔ ووٹ صرف ایک دن کا عمل نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے ایک مکمل شعور اور نظریہ ہونا چاہیے۔ بصیرت کے بغیر دیا گیا ووٹ، جمہوریت کو ڈکٹیٹرشپ میں بدل سکتا ہے۔

آج میڈیا کو سرکاری ترجمان بنا دیا گیا ہے۔ جو صحافی سچ بولتے ہیں، ان پر مقدمے چلائے جا رہے ہیں، انہیں جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔ طلبا اور سماجی کارکنوں کو دہشت گردی کے مقدمات میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ اگر آواز اٹھانا جرم بن جائے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جمہوریت اپنے اختتامی مرحلے میں ہے۔ یہ وقت خاموش تماشائی بننے کا نہیں، بلکہ بیداری اور مزاحمت کا ہے۔ان سب کے باوجود امید باقی ہے۔ عوام نے2024 میں جو سیاسی ہوش مندی دکھائی، وہ ایک مثبت اشارہ ہے۔ اگر یہی بیداری باقی رہی تو آئندہ چند برسوں میں ہم نہ صرف اس حکومت کا احتساب کریں گے بلکہ آئین کو مزید مضبوط بنانے میں بھی کامیاب ہوں گے۔ ہمیں اداروں کی آزادی، اقلیتوں کے حقوق اور آئینی اصولوں کو بچانے کے لیے ہر ممکن جمہوری جدوجہد کرنی ہوگی۔یاد رکھیں، حکومتیں بدلتی ہیں، مگر آئین ایک بار بدل جائے تو پھر اسے واپس لانا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم کس طرف کھڑے ہیں-طاقت کے ساتھ یا حق کے ساتھ؟ ہمارا پیغام صاف ہونا چاہیے:ہم حکومت کے ساتھ نہیں، آئین کے ساتھ ہیں۔ہم اقتدار کے وفادار نہیں، جمہوریت کے نگہبان ہیں۔ ہمیں کسی رہنما کی نہیں، آئین کی رہنمائی چاہیے۔

(مضمون نگار مسلم مجلس، اترپردیش کے جنرل سیکریٹری، ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS