تم کون ہو؟ تم کہاں کے ہو؟

0

ہندوستان کے آئین کی رو سے ہر شہری کو ملک کے کسی بھی حصے میں عزت و وقار کے ساتھ جینے، کام کرنے اور بسنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن حالیہ واقعہ جس میں مغربی بنگال کے مرشد آباد اور مشرقی بردوان کے غریب محنت کشوں کو مہاراشٹر میں بنگلہ دیشی قرار دے کر زبردستی سرحد پار بنگلہ دیش دھکیل دیا گیا، اس آئینی حق کی صریح پامالی ہے۔یہ واقعہ گزشتہ ہفتہ اس وقت پیش آیا جب مغربی بنگال کے تین مزدوروں کو ممبئی میں حراست میں لینے کے بعد بارڈر سیکورٹی فورس نے مبینہ طور پر بنگلہ دیش میں دھکیل دیا اور بعدازاں 15 جون کو ریاستی حکومت کی مداخلت پر کوچ بہار ضلع میں واقع میکھلی گنج بارڈر سے ملک واپس لایا گیا۔

ایک طرف جہاں ریاستی حقوق، وفاقی ڈھانچے اور انسانی وقار کا مذاق اڑایا گیا، وہیں دوسری طرف زبان، مذہب اور شناخت کی بنیاد پر شہریوں کو مشکوک ٹھہرا کر ایک خطرناک رجحان کی بنیاد رکھ دی گئی ہے، جس کے نتائج نہ صرف آئندہ کی داخلی سیاست کو آلودہ کریں گے بلکہ انسانی حقوق کی عالمی درجہ بندی میں بھی ہندوستان کو کٹہرے میں لا کھڑا کریں گے۔

واقعہ کی تفصیل خود المناک سے زیادہ شرمناک ہے۔ مرشدآباد کے مینارالشیخ، نظام الدین شیخ اور مشرقی بردوان کے مصطفی کمال شیخ جو محنت مزدوری کیلئے ممبئی میں مقیم تھے، وہاں کی پولیس نے انہیں محض بنگلہ بولنے اورمسلمان ہونے کی بنیاد پر غیر ملکی قرار دے کر بی ایس ایف کے حوالے کر دیا۔ بی ایس ایف نے بغیر کسی عدالتی کارروائی کے انہیں کوچ بہار کے میکھلی گنج بارڈر کے راستے بنگلہ دیش میں دھکیل دیا۔ یہ محض ایک انتظامی غلطی نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے سیاسی منصوبے کی کڑی ہے، جس کا مقصد ملک کے مسلمانوںکو ان کے جائز حقوق سے محروم کرنا اور ان کے وجود کو مشکوک بنانا ہے۔

افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان افراد کے پاس آدھار کارڈ، ووٹر شناخت نامہ اور دیگر دستاویزی ثبوت موجود تھے، جنہیں انہوں نے پولیس اور بارڈر فورس کو دکھایا بھی مگر ان کے کاغذات کو محض اس لیے مسترد کر دیا گیا کہ ان کی زبان بنگلہ تھی اور مذہب ’’اسلام‘‘۔ کیا یہی ہندوستان ہے جس نے جمہوریت اور تنوع کے اصولوں کو اپنایا تھا؟ کیا ہم ایک ایسی ریاست میں جا چکے ہیں جہاں شہریت کے فیصلے پولیس تھانے میں اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ سرحدی چوکیوں پر بانٹے جا رہے ہیں؟

یہ ’’پش بیک‘‘ محض ایک اصطلاح نہیں، یہ ایک ذہنی، قانونی اور سیاسی پسپائی کا اعلان ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ایک شہری کو اس کی زبان،اس کی مذہبی شناخت اور اس کی غربت کی بنیاد پر وطن سے نکال دیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کسی مہاجر مزدور کی شہریت کا تعین اس کے روزگار کی جگہ، لباس یا زبان سے ہوگا؟ کیا ریاستی انتظامیہ اب شناختی کارڈز کی جگہ چہرے کے نقوش اور لب و لہجہ دیکھ کر شہریت کا فیصلہ کرے گی؟

اس سارے واقعہ میں بی ایس ایف کے کردار پر بھی سنگین سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک فوجی ادارہ، جس کا فریضہ سرحدوں کی حفاظت ہے، اب داخلی معاملات میں مداخلت کرکے عام شہریوں کو زبردستی غیر ملکی سرزمین پر دھکیل رہا ہے۔ اس عمل کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ اور اس کے خلاف کون سا احتسابی نظام حرکت میں آئے گا؟ تاحال بی ایس ایف کی جانب سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی ہے گویا ادارہ خود کو قانون سے بالا تر سمجھتا ہے۔

ترنمول حکومت اور وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کا رد عمل بھی محض رسمی رہا۔ اگر ریاستی شہریوں کے ساتھ ایسا ظلم ہوا ہے تو مہاراشٹر اور مرکزی حکومت کے خلاف بھرپور آئینی اور قانونی لڑائی کیوں نہیں چھیڑی گئی؟ کیا ریاستی حکومت کا کام صرف جذباتی بیان بازی اور وقتی واپسی کے انتظامات تک محدود رہ گیا ہے؟ اگر بنگال میں روزگار کے مواقع ہوتے تو یہ مزدور ملک کی دوسری ریاستوں میں دربدر کیوں ہوتے؟ اگر ممتا حکومت واقعی بنگالیوں کی محافظ ہے تو وہ بنگالی زبان بولنے والوں کو غدار قرار دینے والے بیانات اور پالیسیوں پر چپ کیوں سادھے ہوئے ہے؟

یہ محض چند افراد کے ساتھ ہونے والی زیادتی نہیں، بلکہ ایک اجتماعی خطرے کی علامت ہے۔ آج یہ واقعہ مرشد آباد کے شہریوں کے ساتھ ہوا ہے، کل کسی اور ریاست کے شہری اس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ زبان، لباس، کھانے کی عادت، یا مذہب کو شہریت کے فیصلے کی بنیاد بنانے کا سلسلہ اگر جاری رہا تو یہ ملک اپنے آئینی خدوخال کھو دے گا۔

فوری ضرورت ہے کہ اس واقعہ کی آزاد عدالتی تحقیقات کی جائیں، متعلقہ پولیس افسران اور بی ایس ایف اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی ہو اور متاثرہ مزدوروں کو ریاستی حکومت کی جانب سے معاوضہ اور تحفظ فراہم کیا جائے۔ نیز مہاجر مزدوروں کیلئے ایک شفاف، محفوظ اور باوقار نظام قائم کیا جائے تاکہ آئندہ کسی غریب کو محض اس کی زبان، شناخت یا مذہب کی بنیاد پر وطن بدر نہ کیا جا سکے۔
یہ ملک سب کا ہے۔ اور اگر کوئی ادارہ یا حکومت یہ طے کرے کہ کون اس ملک کا شہری ہے اور کون نہیں، تو یہ فیصلہ صرف قانون، عدالت اور آئین کا ہونا چاہیے نہ کہ بندوق، وردی اور تعصب کی زبان بولنے والوں کا۔ورنہ ایک دن یہی سوال ہر دروازے پر دستک دے گا کہ تم کون ہو؟ اور تم کہاں کے ہو؟

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS