صبیح احمد
ایران کی جدید تاریخ تنازعات کی ایک سیریز پر مبنی ہے جس سے اس کی سیاسی شناخت کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے۔ ایران میں 1979 کے یرغمال بحران سے لے کر امریکہ کے ساتھ سفارتی تعطل اور اہم نیوکلیائی تنصیبات پر تل ابیب کے فوجی حملے اور سینئر ایرانی فوجی عہدیداروں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل کے ساتھ اس کے جاری تصادم تک ایران بار بار شدید کشیدگی کے دور سے گزرا ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ 13 جون یعنی جمعہ کی رات ایران پر حملہ کیا جس کا اعلان شدہ مقصد واشنگٹن اور تہران کے درمیان تعطل کا شکار نیوکلیائی مذاکرات کے دوران ایران کی تیز رفتار نیوکلیائی پیش رفت کو روکنا تھا۔ ایران نے بھی بھرپور جوابی حملہ کیا۔ لڑائی کے تازہ ترین دور میں دونوں فریقوں کو کافی جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ ایران کی دشمنی وقت کے ساتھ ساتھ مزید گہری ہوتی رہی ہے، جس میں متعدد براہ راست اور پراکسی جنگیں، خفیہ آپریشنز اور میزائل حملے شامل ہیں۔
یہ سب 46 سال پہلے یرغمالیوں کے بحران سے شروع ہوا تھا۔ ایران کے امریکہ نواز شاہ محمد رضا شاہ پہلوی کے تختہ پلٹنے کے لیے آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں کامیاب اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی طلبا نے 4 نومبر 1979 کو امریکی سفارت خانہ پر قبضہ کر لیا اور 52 سے زیادہ امریکیوں کو حراست میں لے لیا، جن میں چارج ڈی افیئرس سے لے کر عملہ کے چھوٹے سے چھوٹے اہلکار تک شامل تھے۔ یہ بحران اس وقت شروع ہوا جب واشنگٹن نے ایران کے معزول شاہ کو علاج کے لیے امریکہ جانے کی اجازت دی۔ 6 ماہ کے سفارتی تعطل کے بعد امریکہ نے یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے 24 اپریل 1980 کو تہران میں فوجی آپریشن شروع کیا۔ یہ آپریشن کسی یرغمالی کو بازیاب کیے بغیر 8 امریکی فوجیوں کی موت کے ساتھ ختم ہوا۔ الجزائر کے ثالثوں کی ثالثی میں 20 جنوری 1981 کو تمام 52 افراد کی رہائی کے لیے ایک معاہدہ طے پانے تک امریکی شہری 444 دنوں تک یرغمال رہے۔ امریکہ کو امریکی بینکوں میں منجمد ایران کے تقریباً 8 بلین ڈالر کے اثاثوں کو واپس کرنا پڑا۔ اس بحران کے بعد ایران بین الاقوامی برادری میں کافی حد تک الگ تھلگ رہا۔ اس کے بعد ایران-عراق جنگ شروع ہوئی جو 8 سال تک جاری رہی۔
عراق نے 22 ستمبر 1980 کو اپنے پڑوسی ملک ایران پر باضابطہ طور پر حملہ کر دیا۔ جنگ کو ختم کرنے میں تقریباً 8 سال لگے۔ اس لڑائی کے دوران نصف ملین فوجی اور عام شہری مارے گئے۔ جولائی 1988 میں کئی ناکام حملوں اور جوابی کارروائیوں کے بعد دونوں ممالک نے سلامتی کونسل کی قرارداد 598 کے تحت اقوام متحدہ کی ثالثی میں جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ جنگ باضابطہ طور پر 20 اگست 1988 کو ختم ہوئی۔ جنگ کے دوران ایران کے واحد اتحادی شام اور لیبیا تھے۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان ایک اور انوکھی جنگ ہوئی جسے ’ٹینکر وار‘ کہا جاتا ہے جو زمین پر تنازع کے طور پر شروع ہوئی اور بڑھتے بڑھتے سمندروں تک پھیل گئی۔ اس دوران دونوں فریقوں نے خلیج فارس اور آبنائے ہرمز میں ایک دوسرے کے تجارتی بحری جہازوں اور آئل ٹینکروں پر حملہ کیا۔ ان کے اپنے بحری جہازوں کے علاوہ غیر جانبدار جہازوں کو بھی نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں تنازع کوبین الاقوامی رنگ دے دیا گیا۔ ترکی کے ایک آئل ٹینکر ’اٹلس اول‘ کو سب سے پہلے عراق کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا۔ یونانی ٹینکر اسکیپ ماؤنٹ بھی عراقی حملے کا نشانہ بن گیا۔ ان حملوں کے نتیجے میں خلیج میں امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کی بحری موجودگی میں اضافہ ہوگیا۔
ادھر حزب اللہ کے ایران کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں اور یہ ایران کے زیر قیادت مزاحمت کے محور کا ایک اہم جز ہے جسے ایران اور اس کی اسلامی انقلابی گارڈ کور کی حمایت حاصل ہے۔ یہ محور لبنان میں حزب اللہ،فلسطینی مسلح گروپ حماس، غزہ پٹی اور مغربی کنارہ میں فلسطینی اسلامی جہاداور یمن میں حوثی گروپ پر مشتمل ہے۔ ارجنٹائنا کے شہر بیونس آئرس میں 17 مارچ 1992 کو اسرائیلی سفارتخانہ پر دہشت گردانہ حملہ ہوا جس کے نتیجے میں 29 افراد ہلاک ہوئے۔اس حملے کی ذمہ داری حزب اللہ سے وابستہ اسلامی جہاد سے منسوب کی گئی۔ ایک اور حملہ 18 جولائی 1994 کو ہوا، جس میں ارجنٹائن میں ایک یہودی کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا اور 85 افراد ہلاک ہوئے۔ 25 جون 1996 کو 25000 پاؤنڈ دھماکہ خیز مواد سے لدے ایک ٹینکر نے سعودی عرب کے شہر ظہران میں امریکی فضائیہ کے ملٹری ہاؤسنگ کمپلیکس خوبر ٹاورس کو اڑا دیا جس کے نتیجے میں امریکی فضائیہ کے 19 اہلکارہلاک اور 500 کے قریب زخمی ہوئے۔ حملہ اتنا طاقتور تھا کہ اس نے 8 منزلہ عمارت کو منہدم کر دیا۔ حملہ آوروں کی شناخت ایران نواز عسکریت پسند گروپ سعودی حزب اللہ کے ارکان کے طور پر ہوئی۔ حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کر دیا جس میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے اور 250 سے زائد یرغمال بنالیے گئے۔ اس کے بعد غزہ میں بڑے پیمانے پر اسرائیلی فوج نے حملہ شروع کر دیا اور حماس کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ہزاروں فلسطینیوں کو ہلاک اور بے گھر کر دیا۔ ایرانی صدر نے حماس کو اسرائیل پر حملہ کرنے پر مبارکباد دی۔ ایران نے آخری بار 13 اپریل 2024 کو 13 دن قبل دمشق میں ایرانی سفارتخانہ پر ہونے والے تل ابیب کے حملے کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیل پر 170 ڈرون، 30 سے زیادہ کروز میزائل اور 120 سے زیادہ بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا۔
مجموعی طور پر اسرائیل اور ایران تقریباً نصف صدی سے 1979 کے ایرانی انقلاب، شاہ ایران کے زوال اور اسلامی جمہوریہ کے قیام کے بعد سے، وقفہ وقفہ سے بالواسطہ جنگ لڑتے آ رہے ہیں۔ اسرائیل میں حفاظتی آئرن ڈوم کی ایجاد نے صورت حال کو بدل دیا ہے اور جب گزشتہ سال ایران کا بڑا میزائل اور ڈرون حملہ ناکام ہوا تو اس نظام کی افادیت ثابت ہوگئی اور خطہ میں طاقت کا توازن تبدیل ہوگیا، تاہم اس ناکامی نے ایرانی قیادت کے ذہن میں یہ بات مزید پختہ کر دی کہ طاقت کا توازن بحال کرنے کے لیے انہیں نیوکلیائی ہتھیاروں کی ضرورت ہے اور اس سے اسرائیل کے خلاف نئی دفاعی صلاحیت بھی ملے گی۔ بہرحال -2025 2024کے دوران ایران کی جغرافیائی و سیاسی حیثیت میں نمایاں کمزوری پیدا ہوئی ہے کیونکہ اس دوران حزب اللہ کو عسکری لحاظ سے کمزور کر دیا گیا، شام میں اسد حکومت کا زوال آیا، حماس خود اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور اکتوبر 2024 میں تہران کے فضائی دفاعی نظام پر کامیاب اسرائیلی حملے کیے گئے۔ ان تمام عوامل سے حوصلہ پاکر اسرائیل نے متنازع نیوکلیائی پروگرام کی آڑ میں ایران پر بھر پور حملہ کر دیا۔ لیکن اسرائیل نے اس حقیقت کو نظرانداز کردیا ہے کہ ایران نے گزشتہ کئی برسوں میں قابل ذکر پیش رفت کی ہے، اپنی یورینیم افزودگی کی صلاحیتوں کو بہتر اور جدید بنایا ہے۔ یہ سب کچھ ڈونالڈ ٹرمپ کے 2018 میں کیے گئے اس فیصلے کا براہ راست نتیجہ ہے جس میں انہوں نے یکطرفہ طور پر 2015 کے نیوکلیائی معاہدہ سے امریکہ کو نکال لیا تھا۔
ایران کے سامنے آئندہ چند دنوں میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی متوقع اور ناگزیر جوابی کارروائی کی نوعیت اور دائرۂ کار کس حد تک محدود رکھے۔ کیا وہ صرف اسرائیل سے جنگ تک محدود رہے، یا اسے وسعت دے کر خلیج میں موجود امریکی اہداف کو بھی نشانہ بنائے۔ تہران امریکہ کو اس حملے میں شریک سمجھتا ہے، اگرچہ امریکہ نے اس کی تردید کی ہے اور اسے اسرائیل کی یکطرفہ کارروائی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ ایران اس بیانیہ کو تسلیم کرے، تاہم اگر ایران نے امریکہ کو نشانہ بنایا تو اسے امریکی فوجی ردعمل کا خطرہ مول لینا پڑے گا اور یہ ردعمل ممکنہ طور پر خطہ کی تیل کی تنصیبات پر حملے کی صورت میں بھی سامنے آ سکتا ہے۔ ایران کی طرف سے ایسا غیرمنطقی فیصلہ کرنے کا امکان کم ہے اور اسی وجہ سے پورے خطہ میں جنگ کے پھیلنے کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے۔ لیکن جنگ کی سمت ابھی تک طے نہیں ہوئی ہے، نہ ہی اس کی کوئی واضح حد بندی ہوئی ہے، اور اس کا بہت زیادہ انحصار جنگ کے بارے میں تہران کی تشریحات اور اندازوں پر ہوگا۔