روس کی طرف سے یوکرین پر زبردست حملوں کی خبر ہے۔ یوکرین پر روس کے 355 ڈرونوں سے بمباری کرنے کی خبر ہے۔ ان میں 12 لوگوں کی ہلاکتوں کی خبر ہے۔ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔ ان حملوں نے امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو کافی دلبرداشتہ کر دیا ہے۔ ان کی طرف سے روس پر پابندی کا انتباہ دیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے روسی سربراہ ولادیمیر سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’آخر انہیں کیا ہو گیا ہے؟ وہ بہت سے لوگوں کو مار رہے ہیں۔‘ ٹرمپ نے پوتن کو ’بالکل پاگل‘ تک قرار دے دیا ہے۔ کیا امریکہ کے صدر کی ناراضگی یا ان کی باتوں کا کچھ اثر ولادیمیر پوتن اور یوکرین جنگ پر پڑے گا؟ اس کا جواب ناقابل فہم نہیں۔
جنگ تو جنگ ہے، اس میں انسانوں کا خیال کرکے پھول نہیں برسائے جاتے، اپنی جیت اور اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے بارود برسائے جاتے ہیں، جنگ جاری رہتی ہے تو لوگوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے، یہ بات الگ ہے کہ کئی لیڈروں کے لیے کسی جنگ میں انسانوں کے مارے جانے سے انسانیت خطرے میں پڑجاتی ہے اور کسی جنگ میں انسانوں پر بمباری کو باجواز بنانے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ جنگ جنگ ہے اور ہر جنگ میں انسان ہی مارے جاتے ہیں، اس لیے ایک جنگ سے اس طرح چشم پوشی نہیں کی جانی چاہیے کہ انسانوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ دراز ہوتا جائے اور دوسری جنگ پر توجہ مرکوز کرکے خود کو انسانوں کا ہمدرد ثابت کرنے کی کوشش کی جائے لیکن اتفاق سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ایک طرف غزہ جنگ ختم کرانے کے لیے دنیا کی بڑی طاقتیں سنجیدگی اور قوت ارادی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہیں، عالمی لیڈران بیانات سے کام چلا رہے ہیں تو دوسری طرف یوکرین جنگ پر وہ واویلا مچاتے ہیں۔
انسانیت کا یہ دوہرا پیمانہ عالمی برادری کیسے مان سکتی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ غزہ جنگ شروع ہونے سے پہلے بھی دنیا کے امن پسند لوگ یوکرین جنگ کے خلاف تھے، یوکرین میں عام لوگوں کے ساتھ جو ہو رہا تھا، اس کے خلاف تھے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ جنگ جاری رہے، اسی لیے جنگ ختم کرنے کی کوششوں کے ساتھ نظر آتے تھے۔ اس طرح کے لوگ اس معاملے میں امریکہ اور یوروپی ممالک کے ساتھ نظر آتے تھے کہ یوکرین میں انسانوں کی ہلاتوں کا سلسلہ رکنا چاہیے، اس وقت روسی سربراہ ولادیمیر پوتن پر اخلاقی دباؤ بڑھنے لگا تھا مگر غزہ جنگ کے شروع ہونے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی یوروپی ممالک نے حماس کو مٹانے کے نام پر جس طرح اسرائیل کا ساتھ دیا اور عام لوگوں کی ہلاکتوں کو نظراندازکرتے رہے، یہ بات عالمی برادری کے لیے ناقابل فہم نہیں رہ گئی کہ دنیا کے کئی ممالک ہر جنگ کے خلاف نہیں ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ جنگ کی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں کہ اس کے کیا اثرات ان کے مفاد پر پڑیں گے۔ ایسی صورت میں انسانیت کی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ کیا اس بات سے انکار ممکن ہے کہ غزہ جنگ شروع ہونے، وہاں بڑی تعداد میں لوگوں کے مارے جانے، اسکولوں، اسپتالوں، ایمبولینسوں پر اسرائیلی بمباری کو باجواز بنانے یا انہیںنظرانداز کرنے کی وجہ سے بڑی طاقتیں روسی بمباری کے خلاف پرزور طریقے سے نہیں بول پا رہی ہیں۔
وہ پرزور طریقے سے اگر بولنا چاہتی ہیں تو یہ سوال خود بخود سامنے آجاتا ہے کہ انسانوں کی حفاظت وہ یوکرین میں ہی کیوں کرنا چاہتی ہیں، غزہ میں بھی کیوں نہیں؟ دونوں ہی جگہ انسان مارے جارہے ہیں۔ دونوں کا درد یکساں طور پر کیوں نہیں محسوس کیا جاتا؟ آج امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ روسی سربراہ ولادیمیر پوتن سے ناراض نظر آرہے ہیں، یوکرین جنگ ختم کرانے کے لیے ایک طرح سے اپنی بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں لیکن اسرائیل تو روس جیسا طاقتور نہیں ہے، غزہ جنگ ختم کرانے میں ڈونالڈ ٹرمپ کو پھر کیا دشواریاں پیش آرہی ہیں؟ اہل غزہ کو مصر اور اردن میں بسانے کے لیے وہ ’غزہ پلان‘ کیوں لائے، غزہ جنگ ختم کراکر ان کی طرف سے ایک اچھی مثال قائم کرنے اور روس پر دباؤ بنانے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ غزہ میں بھی کافی لوگ مارے جاچکے ہیں اور یوکرین میں بھی۔ ٹرمپ غزہ جنگ ختم کراکر روس پر یوکرین جنگ ختم کرنے کے لیے دباؤ بنائیں، کیونکہ انسان کہیں بھی مارا جائے، کسی وجہ سے بھی مارا جائے، اس پر دکھ ان تمام لوگوں کو ہوتا ہے جن کے سینے میں حساس دل ہے اور جن کے لیے کوئی جنگ انسانیت سے زیادہ قیمتی نہیں ہوسکتی۔
edit2sahara@gmail.com