پروفیسر اسلم جمشید پوری
واہ رے انصاف! حد ہو گئی۔ ایک طرف سرکار ی وزیر ِمحترم کو بچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ایف آئی آر میں بھی ایسے معاملے لکھے جارہے ہیں جس سے وزیر محترم پر کوئی خاص کیس نہ بنے اور آسانی سے ضمانت ہو جائے۔خواہ ہائی کورٹ کا حکم ہو یا عدالت عظمیٰ کی سخت وارننگ۔اب سمجھ میں آگیا کہ پولیس تل کا تاڑ بھی بنا سکتی ہے اور پہاڑ کو بھی ذرّے میں تبدیل کرسکتی ہے۔یعنی پولیس کچھ بھی کر سکتی ہے،رسّی کو سانپ بنا سکتی ہے۔
ریاست ہریانہ میں الگ طوفان بپا ہے۔ پروفیسر علی محمودآباد اشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر ہیں۔اشوکا یونیورسٹی ہریانہ کے سونی پت کی شاہراہ پر واقع ہے۔پروفیسر علی خان محمودآباد یونیورسٹی کے ایسو سی ایٹ پروفیسر اور شعبہ سیاسیات کے صدر ہیں۔گزشتہ ہفتے انہیں ہریانہ پولیس نے ’’ آپریشن سیندور ‘‘ پر اعتراض کر نے پر گرفتار کر لیا تھا۔ہریانہ خواتین کمیشن کی چیئرپرسن محترمہ رینو بھاٹیہ اور ہریانہ کی بی جے پی کے مسٹر یوگیش کے اعتراض پر ہر یانہ پولیس نے پروفیسر علی خان محمود آباد کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔ہریانہ عدالت نے انہیں ’’ قانونی حراست ‘‘ میں دے دیا۔ پروفیسر کی گرفتاری پر پورے ہندوستان میں ہنگامہ مچ گیا۔ بعض لوگ ان پر نا زیبا تبصرے کرنے لگے اور انہیں ہر طرح سے برا بھلا کہا گیا۔دوسری طرف ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ان کی حمایت میں ہزاروں طالب علم،پروفیسرز اور دانشور آگئے۔ان لوگوں نے نہ صرف ہریانہ حکومت کو بلکہ عدالت عظمیٰ کو بھی پروفیسر علی خان محمودآباد کی بے گناہی کے بارے میں لکھا۔آئیے دیکھتے ہیں کہ پروفیسر خان نے اپنی پوسٹ پر کیا لکھا۔ان کے اصل الفاظ کیا تھے،کیوں بی جے پی کے لوگ چراغ پا ہوگئے۔
8مئی کو پروفیسر علی خان محمودآباد نے اپنی ایک پوسٹ میں لکھا: ’’میں بہت سے دائیں بازو کے مبصرین کو کر نل صوفیہ قریشی کی تعریف کرتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوں،لیکن شاید یہ لوگ اسی طرح ماب لنچنگ،گھروں کو مسمار کرنے اور بی جے پی کی منافرت سے متاثرہ افراد کے لیے آواز اٹھا سکتے ہیں کہ ان لوگوں کو انڈین شہری ہونے کے ناطے تحفظ دیا جائے ‘‘۔انہوں نے آگے لکھا: ’’دو خواتین فوجیوں کے ذریعے معلومات دینے کا نظریہ اہم ہے لیکن اس نظریے کو حقیقت میںبد لنا چاہیے،نہیں تو یہ محض منافقت ہے۔‘‘ پروفیسر علی خان نے پھر لکھا کہ عام مسلمانوں کو درپیش زمینی حقیقت اس سے مختلف ہے جو حکومت دکھانے کی کوشش کر رہی ہے۔لیکن ساتھ ہی یہ پریس کانفرنس (کرنل صوفیہ اور ونگ کمانڈر ویو میکا کی پریس بریفنگ) سے پتہ چلتا ہے کہ انڈیا تنوع میںیگانگت کی سوچ پر عمل پیرا ہے اور ایک خیال کے طور پر یہ ابھی پوری طرح سے مرا نہیں ہے۔‘‘پروفیسر علی خان نے اپنی پوسٹ کے آخر میں انڈین جھنڈے کے ساتھ ’جے ہند‘ بھی لکھا۔ان کے الفاظ میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ انہوں نے کرنل صوفیہ یا آپریشن سندور یا ونگ کمانڈر ویو میکا پر کوئی طنز کسا ہو۔یا کسی کی کھل کر تنقید کی ہو۔مگر ہریانہ سرکار،خواتین کمیشن اور بی جے پی نے ان کے خلاف مورچہ کھول دیا اور ہر یانہ پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔
دوسری طرف معاملہ مدھیہ پر دیش کا ہے،وہاں ایک وزیر نے آپریشن سندور پر ایسا بیان دیا کہ ہم سب ہندوستانیوں کی نگاہیں شرم سے جھک گئیں۔انہوں نے آپریشن سندور اور صوفیہ قریشی پر تبصرہ کر تے ہوئے کہا: ’’جنہوں نے ہماری بیٹیوں کے سندور اجاڑے تھے،ہم نے ان کی بہن بھیج کرکے ان کی ایسی کی تیسی کروائی۔‘‘ ان کا واضح اشارہ کرنل صوفیہ قریشی کی جانب تھا۔وہ انہیں آتنک وادیوں کی بہن بتلارہے ہیں۔ دراصل وہ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔انہیں اعلیٰ عہدے کے مسلمان قطعی پسند نہیں۔ان کے اس بیان نے پورے ہندوستان کو شرمسار کر دیا۔ ہندوستان کے ہر شہری نے اس کی بھرپور مذمت کی، لیکن ان کے اس بیان سے نہ تو بی جے پی شرمندہ ہوئی،نہ اس نے اس بیان کی مذمت کی اور نہ ہی اس وزیر کے خلاف کوئی قدم اٹھایا۔اس کے برعکس جب یہ معاملہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ پہنچا تو کورٹ نے وزیر کو خوب لتاڑ پلائی اور مدھیہ پر دیش پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تو پہلے کیس ہی نہیں بنایا۔لیکن جب دبائو بڑھا تو پولیس نے ایف آئی آر میں بھی ہلکی پھلکی دفعات لکھیں۔ یہاں تک کہ جب وزیر نے معافی مانگی تو ہنسی ان کے چہرے پر رقص کررہی تھی۔وزیر نے راحت کے لیے سپریم کورٹ کا رخ کیا۔ سپریم کورٹ نے بھی انہیں اس پر خوب سنائی اور ہائی کورٹ کے حکم پر سختی سے عمل کرنے کے لیے مدھیہ پردیش پولیس سے کہااور ایک ایس آئی ٹی کی تین رکنی کمیٹی تشکیل دی جو معاملے کی جانچ کر ے گی۔
بات صرف اتنی نہیں،مدھیہ پردیش کے نائب وزیراعلیٰ نے ایک اور عجیب و غریب بیان دیا کہ آپریشن سندور میں ہمارا ملک،فوج کے افسران اور اعلیٰ عہدیداران،سب کے سب وزیر اعظم مودی کے قدموں پر نثار رہے۔یعنی انہوں نے فوج کی بے عزتی کی اور مودی کی شان میں قصیدے پڑھے۔ان بیانات کے باوجود ان لوگوں کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوا۔ابھی تک کوئی گرفتاری یا انہیں عہدوں سے ہٹائے جانے پرعمل نہیں ہوا۔یہ سب کیا ہے ؟اس کے برخلاف پروفیسر علی خان محمودآباد کے بیان پر ان کی گرفتاری ہوئی۔وہ تو ہمارے یہاں ابھی سپریم کورٹ ہے،جہاں لوگوں کو انصاف ملتا ہے۔اس معاملے میں بھی سپریم کورٹ نے پروفیسر خان کو عبوری ضمانت عطا کر دی۔کیا یہی سب کا ساتھ،سب کا وکاس ہے۔