عبیداللّٰہ ناصر
غزہ میں اسرائیل کی بربریت نت نئے ریکارڈ بنا رہی ہے -پاگل کتوں کے جھنڈ کی طرح اسرائیلی فوج نے سفارتی مشن پر آئے یوروپی ممالک کے ایک وفد کو بھی نشانہ بنا لیا حالانکہ اس حملے میں کوئی اتلاف جان نہیں ہوا لیکن یہ واقعہ اسرائیل کی دیدہ دلیری اور عالمی قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھنے کاایک اور ثبوت ہے۔ اسی طرح صحافیوں کی عالمی تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق 150 سے زیادہ صحافی بھی اسرائیلی بربریت کا شکار چکے ہیں۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ ایک چھوٹا سا ملک پوری دنیا کو ٹھینگے پر رکھے ہوئے ہے، نہ عالمی قوانین کی اسے فکر ہے اور نہ ہی مہذب سماج کے تقاضوں کا لحاظ۔ وہ قرون وسطیٰ کی بربریت کو ہی نہیں خود اپنی یہودی قوم پر ہٹلر کے مظالم کو بھی دہرا رہا ہے۔ ایمانداری سے دیکھا جائے تو وہ دنیا میں الگ تھلگ پڑ گیا ہے۔ پوری دنیا خاص کر یوروپی ملکوں میں اس کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ برطانیہ سمیت کئی یوروپی ملکوں نے غزہ میں نسل کشی کی مذمت کی ہے۔ برطانیہ نے اس سے تجارتی سمجھو تہ معطل کر دیا ہے۔ فرانس، اٹلی، جرمنی، پرتگال، اسپین وغیرہ نے اپنے یہاں اسرائیلی سفیروں کو طلب کر کے ان کی سرزنش کی۔ اقوام متحدہ ایک نہیں ہزاروں بار اسرائیل کی جارحیت کی مذمت کر چکا ہے، درجنون قراردادیں اس کے خلاف منظور ہو چکی ہیں، خود اسرائیل کے اندر سے بھی جنگ مخالف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ایک یہودی ربی نے کہا کہ پہلے ہم ہٹلر کی وجہ سے خوفزدہ ہوئے تھے اور اب نیتن یاہو کی وجہ سے شرمندہ ہیں۔ بس امریکہ اور س کی یہودی لابی اس کا سب سے بڑا سہارا بنی ہوئی ہے۔پوری ریڈ انڈین قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے والا امریکہ اب اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی کھلی چھوٹ دیے ہوئے ہے۔آزادی مساوات، بھائی چارگی وغیرہ کی نام نہاد امریکی اقدار محض لفاظی بنی ہوئی ہیں، امریکی تاریخ بدترین مظالم، انسانیت کشی اور قتل عام سے خون آلود ہے۔ ریڈ انڈینس کی پوری نسل ختم کر دی، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر لاکھوں جاپانیوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا جس کے اثرات بد ابھی بھی ان دونوں شہروں کے باشندوں کو جھیلنا پڑ رہے ہیں، ویتنام، عراق، افغانستان وغیرہ میں لاکھوں انسانوں کا خون ناحق اس کی گردن پر ہے۔ ایک امریکی فنکار نے درست کہا تھا: ’’کولمبس نے امریکہ تلاش کیا ،اچھا کیا، نہ کرتا تو اور اچھا ہوتا۔‘‘
امریکہ کے بعد اسرائیل کا سب سے بڑا سہارا بے حس، بزدل، بے شرم، بے غیرت عرب حکمراں ہیں جن کا فلسطینیوں کے اتنے بڑے قتل عام اور کھلی نسل کشی کے بعد بھی خون نہیں کھولتا۔ تاریخ کے کسی دور میں عرب اتنے بزدل اور بے غیرت کبھی نہیں رہے، بھلے ہی اب عربوں میں خالد بن ولیدؓ اور صلاح الدین ایوبیؒ نہیں پیدا ہوں مگر اب تو کرنل ناصر اور شاہ فیصل بھی نہیں پیدا ہو رہے ہیں۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ یوروپی ملک اسرائیل کو سخت سست سنا رہے ہیں، نسل کشی روکنے کی آگاہی دے رہے ہیں، دوسری طرف کسی عرب حکمراں کے منہ سے اس بربریت کے خلاف آواز نہیں نکل رہی ہے۔ٹرمپ ابھی سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارت کا دورہ کر کے کھربوں ڈالر کا سودا کرگئے مگر کسی عرب حکمراں نے ان سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے کی بات تک نہیں کہی۔
دوسری طرف صدر ڈونالڈ ٹرمپ مشرقی وسطیٰ کا کامیاب دورہ کر کے وطن واپس آئے ہیں، ان کا یہ دورہ امریکی صدر سے زیادہ امریکہ کے ایک کامیاب تاجر جیسا دورہ تھا جس میں انہوں نے امریکہ کے لیے سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ کھربوں ڈالر کا سودا کیا اور لاکھوں ڈالر کے ذاتی تحفے تحائف حاصل کیے۔ ایک طرف انہیں شاہی استقبالیہ دیا جا رہا ہے، سونے چاندی سے مزین محلوں میں ’’آئیے حضور تشریف لائیے‘‘کہا جا رہا تھا، دوسری جانب غزہ میں فلسطینی بچے تڑپ تڑپ کر بھوکوں پیا سے مر رہے تھے اور اسرائیل کی وحشیانہ بمباری جاری تھی، کسی ایک عرب حکمراں نے ٹرمپ سے بمباری رکوانے اور غزہ میں امدادی سامان کی فراہمی کی بات کہنے تک کی ہمت نہیں دکھائی، دونوں سربراہان ’’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘‘ اور تحسین باہمی کا شرمناک منظر پیش کر رہے تھے۔ اس پورے دورہ کے دوران کمال ہوشیاری سے عالمی امور جیوپالیٹکس اور اسرائیل سے معا ملات کو پوری طور سے الگ رکھا گیا اور صرف تجارت پر توجہ دی گئی۔ سعودی عرب نے امریکہ سے 142بلین ڈالر کے اسلحہ خریداری کا سود ا کیا، یہ اسلحہ کس کے خلاف استعمال ہوگا، یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں اور اسلحہ کے دلالوں کی چاندی ہو گئی۔ اس کے علاوہ توانائی، کانکنی سیمی کنڈکٹروں کی سپلائی کے معاہدہ پر بھی صدر ٹرمپ اور شہزادہ سلمان نے دستخط کیے۔یہ سمجھوتہ تقریباً600ملین ڈالر کا ہے۔ قطر سے بھی 244بلین ڈالر کا سمجھوتہ ہوا ہے جس کے تحت قطر ایئر ویز کے210بوئنگ جیٹ جہاز خریدے جائیں گے۔ہوائی اور بحری سلامتی کے لیے38بلین ڈالر کے سمجھوتے پر بھی دستخط ہوئے۔ابوظہبی نے مصنوعی انٹلیجنس سیمی کنڈکٹر توانائی اور صنعتی زمروں کا ٹریلین ڈالرس کا سمجھوتہ کیا۔ظاہر ہے اتنے بڑ ے بڑ ے سودوں کے بعد ٹرمپ نے ان ملکوں کے سربراہوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے۔ ریاض میں اپنی تقریر میں عرب سربراہوں کی تعریف کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے شہزادہ سلمان اور قطر کے امیر شیخ تمیم الثانی کو بے مثال شخصیت قرار دیا اور شام کے نوجوان انقلابی صدر احمد الشرع کو نوجوان، پرکشش، اسمارٹ اور ماضی کا بہادر جنگجو قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ خلیجی ملکوں کے سربراہ خطہ میں ایک نئے مستقبل کی داغ بیل ڈال رہے ہیں، جہاں مشرقی وسطیٰ شورش کے بجائے تجارت کے لیے جانا جائے گا، وہ دہشت گردی کے بجائے ٹیکنالوجی ایکسپورٹ کرے گا۔ اس میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس سے قبل عرب سربراہوں نے ملک میں ٹیکنالوجی، صنعتی ترقی وغیرہ کی جانب ویسی توجہ نہیں دی تھی جیسی وہ اپنی تیل کی دولت سے حاصل کر سکتے تھے، اب اگر وہ اس جانب توجہ دے رہے ہیں، جدید ترین ٹیکنالوجی حاصل کر رہے ہیں اور اس کے لیے امریکہ سے سمجھوتے بھی کر رہے ہیں تو اس کا خیر مقدم ہونا ہی چاہیے لیکن پڑوس میں بھائی کا خاندان ایک غنڈے موالی کی بربریت کا شکار ہو، اس کے معصوم بچوں کی لاشیں سڑ رہی ہوں اور اس موالی کے سرپرست سے اس کے خلاف شکایات کا ایک لفظ بھی زبان پر نہ لائیں تو آپ کچھ بھی ہوں، انسان نہیں ہیں ۔
ایک کامیاب تاجر کہیں یا ایک کامیاب ڈپلومیٹ، صدر ٹرمپ نے اس بار اپنے مشرقی وسطیٰ کے دورے میں اسرائیل کو بالکل الگ رکھا تھا، انہوں نے حو ثیوں اور حماس سے معاہدہ کیا اور ایران سے مسقط میں نیوکلیائی مسئلہ پر مذاکرات بھی کیے اور نیتن یاہو کے اس مسئلہ پر اعترا ض کو نظرانداز کر دیا۔ نیتن یاہو چاہتے ہیں کہ ایران کی نیوکلیائی تنصیبات کوختم کر دیا جائے لیکن امریکہ ایران سے گفتگو کر رہا ہے، مسقط مذاکرات کے بعد ایران نے بھی نرم رخ اختیار کیا ہے، ظاہر ہے یہ امریکی رخ میں نرمی کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا ہے۔ اپنے سابقہ رویہ کے بر خلاف اس بار انہوں نے نہ عربوں کے مذہب اور کلچر پر کوئی تنقید کی، نہ انہیں اپنی روایتی بدزبانی کا نشانہ بنایا، بدلے میں وہ اپنے ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے اور روزگار بڑھانے کے لیے کھربوں ڈالر کے تجارتی سمجھوتے کر آئے ہیں۔
کیا امریکہ اسرائیل کے مقابلہ عربوں کو ترجیح دے گا اور کیا عرب ملک غزہ میں فلسطینیوں کی مکمل نسل کشی کے اسرائیل امریکہ منصوبہ کو خاموش خفیہ منظوری دے چکے ہیں؟اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے، امریکی نائب صدر وانس اسرائیل کا دورہ ملتوی کر چکے ہیں، ان سب کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ امریکہ میں یہودی لابی اتنی مضبوط ہے کہ وہ کسی امریکی صدر کو اسرائیل کی حمایت سے دستبردار نہیں ہونے دے گی۔ ایک طرف یہ تجارتی معاہدے ومذاکرات سے اسرائیل کو دور رکھنا، نیتن یاہو کی گرفتاری پر عالمی عدالت کوسزا دینا، غزہ پر وحشیانہ بمباری کی وجہ سے کئی یوروپی ملکوں کا اسرائیل سے تجارتی رشتہ منقطع کرنا، روس-یوکرین مذاکرات شروع ہوتے ہی ناکام ہو جانا، ہندوستان-پاکستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی، دنیا ایک گورکھ دھندہ بنتی جا رہی ہے جس کے مستقبل کی پیش گوئی کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن سا دکھائی دیتا ہے۔