ظلم و خیانت سے بھری تاریخ کے شواہد اور صہیونیت کی حتمی شکست کے آثار

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

فلسطین کے مزاحمت کار آج جو قربانیاں پیش کر رہے ہیں اور بربریت پسند صہیونیوں کے ہاتھوں شیر خوار بچوں تک شہادت کا جو جام شب و روز ان دنوں پی رہے ہیں ان کے پیش نظر اگر آج یہ دعویٰ کیا جائے کہ صہیونیت کو آخرکار شکست سے دوچار ہونا پڑے گا اور فلسطین کے مجاہدین آزادی ہی نتیجہ کے طور پر فاتح و سربلند ہوں گے تو اکثر لوگ اس بات کو کسی دیوانہ کا خواب کہہ کر مسترد کرنے کی کوشش کریں گے۔ حالانکہ تاریخ انسانی کے روشن ابواب اس پر دلالت کرتے نظر آتے ہیں کہ جن قوموں نے ظلم و بربریت اور خوف و دہشت کی زور پر اپنی حکومت قائم کی تھی ان کا وجود بہت جلد ختم ہوگیا اور وہ نشانِ عبرت بن کر رہ گئے۔

مسلمانوں کا معاملہ دوسری تمام قوموں سے بطور خاص نہایت مختلف ہے اور اس کے فکر و فہم اور جہد و عمل کا نتیجہ بھی بالکل الگ نوعیت سے نکلتا ہے۔ اسلامی روح سے جو لوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو مٹانا بالکل نا ممکن ہے کیونکہ یہ ان کے ایمان کا حصہ ہے کہ آخری امتِ پیغام ہونے کی وجہ سے اس کا قیامت تک باقی رہنا ناقابل تردید حقیقت ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو مسائل سے دوچار نہیں ہونا ہوگا، یا اس کے دشمن اس پر کبھی غالب نہیں آئیں گے۔ الہی نظام کائنات کی رو سے کبھی مسلمان کو غلبہ نصیب ہوگا تو کبھی انہیں شکست و ریخت کے عذاب سے بھی گزرنا ہوگا۔ خود آخری نبیؐ کی زندگی کے واقعات اس بات پر گواہ ہیں جن کی آخری امت مسلمان قرار دی گئی ہے۔ نبی کریم ؐکی زندگی میں یہ دیکھا گیا کہ کبھی بدر میں عددی قوت کی کمی کے باوجود بڑے لشکر پر ان کو فتح ملی تو کبھی احد میں قربانیاں پیش کرنی پڑی۔ خود نبی کریم ؐزخمی ہوگئے اور صحابہ کی صفوں میں شہداء کی تعداد بڑھ گئی۔ کبھی موتہ میں عظیم رومی لشکر کے مقابلہ مٹھی بھر جماعت اپنی سر زمین سے دور حدود اسلام کے دفاع کے لئے گئی اور عظیم صحابیوں کو شہادت کا جام پینا پڑا۔ خالد بن ولید کی حیرت انگیز جنگی مہارت کی وجہ سے بچا کھچا مسلمانوں کا لشکر پیچھے ہٹ گیا اور لشکر کو محفوظ کرکے خالد بن ولید مدینہ لے آئے۔ مسلمانوں کا طرز فکر کتنا مختلف ہوتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب خالد بن ولید لشکر کے ساتھ مدینہ پہنچے تو سپاہیوں کے اہل خانہ سمیت پورا مدینہ ان پر خاک پھینک کر کہنے لگا کہ تم بزدل ہو اور اسی لئے میدانِ جنگ سے بھاگ آئے ہو۔ بیوی اور بچوں تک نے انہیں لعن طعن کیا کہ تم سرحد اسلامی کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوجانے کے بجائے زندہ لوٹ کر مدینہ کیوں آگئے؟ یہ ہمارے لئے ننگ و عار کی بات ہے۔ باوجوداس کے نبی کریم ؐنے خالد بن ولید کی حکمت عملی کی تعریف کی تھی اور ان کی طرف سے دفاع کیا تھا اس کے باوجود اہل مدینہ لشکر کے میدانِ جنگ سے پیچھے ہٹ جانے پر خوش نہیں تھے۔ فتح و شکست کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا۔ مکہ کی فتح اور حنین کی ابتدائی دقتیں یہ بتاتی ہیں کہ فتح کے ساتھ ساتھ شکست و مشکلات سے بھی اسلام کا ابتدائی لشکر دو چار ہوا ہے۔ لیکن ہر بار وہ نئی قوت کے ساتھ کھڑے ہوئے اور اپنا مقصد حاصل کئے بغیر پیچھے نہیں ہٹے۔ کئی بار برسوں تک قربانیاں پیش کرنے کے بعد فتح کا منہ دیکھنا نصیب ہوا، لیکن اس کے باوجود مقصد حقیقی سے چشم پوشی اس امت کے علم برداروں نے گوارہ نہیں کیا کیونکہ انہیں یقین تھا کہ اگر وہ حق پر صبر و ثبات کے ساتھ قائم رہے تو فتح ان کا مقدر ہے۔ یہ تصور مسلمانوں میں بلاوجہ یا کسی خوش فہمی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوا ہے۔ وہ اسلامی تاریخ کی روشنی میں اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ان کے نبی کریم ؐنے قیصر و کسری پر قابو پانے اور ان کی سرزمینوں کو فتح کرنے کی بشارت اس حال میں دی تھی کہ وہ صحابہ کے ساتھ خندق کھودنے میں مصروف تھے۔ خندق کھود کر اپنا دفاع کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آ گئی تھی کیونکہ یہ آخری تدبیر بچ گئی تھی جس سے مدینہ کو بچایا جا سکتا تھا۔ سلمان فارسی کا تجربہ و مشورہ خندق کھودنے کے لئے مفید ثابت ہوا تھا۔ وجہ یہ ہوئی تھی کہ اس وقت بھی یہودیوں نے مسلمانوں کے ساتھ کئے گئے معاہدہ کی صریح مخالفت کرتے ہوئے مشرکین مکہ کے ساتھ معاہدہ کرلیا تھا اور مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی غرض سے لشکروں کا طوفان لے کر مدینہ پر چڑھ آئے تھے۔

نبی کریم ؐاور ان کے ساتھی سخت مالی مشکلات سے دوچار تھے۔ کھانے کے لئے مناسب مقدار میں غلہ تک موجود نہیں تھا۔ نبی کریم ؐنے اپنے مبارک شکم پر بھوک کی شدت کو برداشت کرنے کے لئے پتھر باندھ لئے تھے۔ ایسی حالت میں خندق کھودتے ہوئے ایک بڑا چٹان سامنے آ گیا جو کسی سے نہیں ٹوٹ رہا تھا۔ نبی کریم ؐ اور قائد اسلام کو اطلاع دی گئی۔ انہوں نے دست مبارک میں کدال لے کر اس زور سے مارا کہ چٹان ریزہ ریزہ ہوگیا۔ آپ نے اسی چٹان کے ریزہ ریزہ ہونے میں قیصر و کسری کے بکھر جانے کی تصویر دیکھی اور صحابہ کو بشارت دی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان کے حق پرست صحابہ نے ان کی وفات کے چند برسوں کے اندر ہی اس پیشین گوئی کی سچی تصویر اپنی آنکھوں سے دیکھی اور روم و فارس دونوں کا وجود اسلامی تہذیب میں ضم ہوکر ہمیشہ کے لئے گم ہوگیا۔ آج صہیونیوں نے فلسطین کی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں میں سے ہر ایک پر وحشت و درندگی کے جو دہانے کھول رکھے ہیں یہ ان کے تحریف شدہ تلمودی عقیدہ کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔ صہیونی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اپنے دشمن کو اس حد تک کچل دیں کہ ان کا دوبارہ اٹھنا مشکل ہو تو وہ محفوظ ہوجائیں گے۔ یہ محض ان کی خام خیالی اور تاریخ سے غفلت کا نتیجہ ہے اور اسی لئے وہ پوری شدت سے فلسطین و لبنان و شام پر حملے کر رہے ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ میکیاولی کا یہ فلسفہ اہل مغرب کی عسکری تنظیم کا حصہ ہو کہ دشمن کو مکمل طور پر کچل کر امن کا راستہ ڈھونڈا جائے یا انہیں مجبور کرکے اپنا باج گزار بنایا جائے جیسا کہ ان کی استعماری تاریخ بھی بتاتی ہے کہ انہوں نے اپنے سامراج کو قائم کرنے کے لئے ان وحشیانہ نسخوں پر عمل کیا ہے۔ لیکن آخرکار اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ فرانس و برطانیہ سے لے کر اٹلی و پرتگال اور اسپین کی تمام سامراجی قوتوں کو شکست کھاکر پیچھے ہٹنا ہی پڑا۔ مزاحمت و مقاومت کی قوتوں کے سامنے ان کا لاؤ و لشکر کچھ کام نہیں آیا۔ اگر جہاں بانی و جہاں داری کے لئے قوت و بربریت کا وجود ہی کافی ہوتا تو تاتاریوں اور منگولوں کی عظمت کا سکہ آج بھی چل رہا ہوتا۔ منگول تو صہیونیوں سے بھی زیادہ بے رحم و بے درد تھے۔ انہوں نے مغلوب قوموں کو جس شدت کے ساتھ کچلا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ لیکن جب مسلمانوں نے ان کا مقابلہ شروع کیا اور ظاہر بی برس نے عین جالوت کے مقام پر پہلی بار انہیں شکست دی تو پھر ان کا دائرہ سمٹنا شروع ہوگیا اور آخر کار ان کا کوئی نام و نشان تک باقی نہیں رہا۔ وہ تاریخ کے ملبہ میں دب کر اپنا وجود کھو چکے ہیں۔

یہ سب کچھ اس حال میں ہوا جبکہ منگولوں کی بہادری حقیقی تھی۔ وہ صہیونیوں کی طرح بزدل نہیں تھے۔ وہ ٹینکوں اور فضائی بمبار طیاروں کے پیچھے چھپ کر حملہ نہیں کرتے تھے۔ اس کے باوجود وہ خود کو قائم نہیں رکھ سکے۔ خود مغربی سامراجوں کی شکست اس کی دلیل ہے کہ ظلم و بربریت کو دوام نہیں ہے۔ فرانس کو الجزائر میں، اٹلی کو لیبیا میں اور پرتگالیوں اور اسپین کو مغربی افریقہ اور مشرقی ایشیا میں جن نتائج سے دوچار ہونا پڑا وہ تاریخ کے انمٹ اسباق ہیں۔ ان سے ہر ظالم کو عبرت حاصل کرنا چاہئے۔ کیا عمر المختار کو پھانسی دے دینے سے لیبیا پر اٹلی کی گرفت مضبوط ہوگئی؟ کیا حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کو شہید کر دینے سے فلسطین کی آزادی کے لئے نوجوانوں نے اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کرنا بند کر دیا؟ کیا اسماعیل ھنیہ، یحی السنوار اور محمد السنوار کی شہادت کے بعد مزاحمت کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا؟ زمینی حقیقت بتاتی ہے کہ ایک ایسی مٹھی بھر جماعت کے مقابلہ میں صہیونیت کو کوئی فتح نصیب نہیں ہوئی ہے جو کئی برسوں سے مکمل حصار کو برداشت کر رہی ہے۔

اسرائیلی صہیونیوں کو چاہئے کہ وہ عرب مسلمانوں کے مقابلہ میں اپنی تاریخ کو ہی ایک بار غور سے پڑھ لیں تو انہیں اپنی شکست کی تصویریں صاف نظر آ جائیں گی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ فاطمی خلافت کی کمزوری کے عہد میں صلیبیوں نے 1099 میں شام و فلسطین پر سخت حملے کئے اور شہر قدس پر قابض ہوگئے۔ وہاں صلیبیوں نے مسلمانوں کی اکثریت کو ذبح کردیا اور ان کی عورتوں کو قیدی بنا لیا اور اس کی ڈھیر پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ لیکن ان کی حکومت باقی نہیں رہ سکی۔ محض 85 برس کے بعد صلاح الدین ایوبی نے دوبارہ حق کا پرچم فلسطین پر لہرا دیا اور ارض مقدس کو آزاد کرالیا، لیکن کسی ظلم کا ارتکاب تک نہیں کیا بلکہ دشمنوں کے ساتھ عفو درگذر کا برتاؤ کیا۔ جب صلاح الدین ایوبی کی اولاد میں اسلامی اسپرٹ اور وحدت باقی نہیں رہی تو صلیبیوں نے دوبارہ قبضہ کرکے عکا کی حکومت قائم کی جس میں قدس کو چھوڑ کر فلسطین کا ساحلی علاقہ اور موجودہ لبنان سب شامل تھا۔

یہ حکومت بھی زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکی اور ظاہر بی برس اور دیگر مملوک حکمرانوں نے انہیں آٹھ دہائی کے اندر آزاد کروالیا۔ منگول بھی فلسطین پر قابض ہوئے تھے، لیکن جس تیزی کے ساتھ آئے تھے اسی تیزی کے ساتھ انہیں وہاں سے بھاگنا پڑا۔ خود بوناپارٹ کی قیادت میں فلسطین پر حملہ ہوا۔ یہ حملہ صلیبیت کی بدلی ہوئی شکل تھی لیکن اصل میں صلیبی روح کے ساتھ ہی لڑی گئی تھی۔ بوناپارٹ نے غزہ میں سنگین جرائم کا ارتکاب کیا۔ یافا کے حاکم کو معاہدہ کے باوجود پھانسی دے دی اور فریب و بدعہدی کی نہایت بدترین مثال قائم کی،مگر اس کی حکومت بھی وہاں برقرار نہیں رہ سکی۔ خود اس کی فوج طاعون و بھوک سے ہلاک ہوگئی۔ وہ اپنے آلات حرب و ضرب کے باوجود شکست سے دوچار ہوا کیونکہ عکا کے بہادروں نے ان کا مقابلہ پوری قوت و بہادری کے ساتھ کیا تھا۔ بوناپارٹ کا جو مقدر فلسطین میں ہوا تھا وہی مصر میں بھی ہوا۔ یہ تمام تاریخی شہادتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ صہیونیت کو شکست ملے گی اور مزاحمت کار ہی فلسطین میں باقی رہیں گے۔

صہیونیوں کا عدم بقاء قانون فطرت کے عین مطابق ہے۔ صہیونی اس لئے باقی نہیں رہ سکتے کیونکہ رحم و انسانیت اور بقائے باہم کے اصول کی پابندی ان کی طبیعت کا خاصہ ہی نہیں ہے۔ وہ فریب و غداری اور خیانت کا ایسا چشمہ ہیں جو کبھی خشک نہیں ہوتا۔ نسل پرستی و بربریت اور وحشت و بدکرداری ان کا جزو اصیل ہے۔ اسی لئے تاریخ میں وہ تیرتے ہوئے سیاہ بادل سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ایک طوفان اٹھے گا اور مطلع صاف ہوجائے گا۔ فلسطین کے ارباب مزاحمت سے انہیں خوف اسی لئے ہے کیونکہ انہیں اندازہ ہوگیا ہے کہ صہیونیت کی ملعون تاریخ دہرائی جانے والی ہے اور آٹھ دہائیوں کے بعد ان کی حکمرانی کو زوال لاحق ہوجائے گا۔ اسی بدحواسی کا نتیجہ ہے کہ صہیونی تلمودی شریعت کے مطابق بچوں اور عورتوں تک کو نہ صرف نہایت بے رحمی سے شہید کر رہے ہیں بلکہ بھوک و پیاس کی شدت سے پورے اہل فلسطین کو موت کے گھاٹ اتار دینے کی تیاری میں لگ گئے ہیں۔ لیکن ان کے یہی جرائم ان کے حتمی زوال کا ذریعہ ثابت ہوں گے۔

صہیونیوں، منگولوں اور مغربی استعماری قوتوں کے برعکس مسلمان جہاں بھی گئے وہاں کے باشندے بن کر رہے اور ان کا استقبال کیا گیا کیونکہ انہوں نے طاقت اور فریب کا استعمال نہیں کیا بلکہ رحمت وبرکت اور امن و آشتی کے پیامبر بن کر رہے۔ لیکن آج عرب اور مسلمان اس لئے بے حیثیت ہوگئے کیونکہ انہوں نے اپنے پیغام اور مقصد حیات سے چشم پوشی کر لی اور دشمنوں کے سامنے ذلت کی حد تک سپر انداز ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مالک کائنات نے انہیں ذلیل و بے قیمت کر دیا۔ آج فلسطین کے مزاحمت کار سخت آزمائش میں ضرور ہیں، لیکن انہیں گھبرانا نہیں چاہئے۔ اگر اس امتحان میں وہ کامیاب ہوگئے تو عظمت کی نئی صبح ان کے ہی سینوں سے نمودار ہوگی۔

(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS