عبدالماجد نظامی
21مئی 2025 کو مغربی کنارے کے شہر جنین میں اسرائیلی فوج نے ایک یوروپی سفارتی وفد پر فائرنگ کی، جو فلسطینی پناہ گزیں کیمپ کا دورہ کر رہا تھا۔ اس وفد میں آئرلینڈ، برطانیہ، فرانس، اٹلی، جرمنی، پرتگال اور اسپین جیسے یوروپی ممالک کے نمائندے شامل تھے۔ اسرائیلی فوج نے اس فائرنگ کو محض ’’وارننگ شاٹس‘‘ قرار دیا، لیکن یہ واقعہ بین الاقوامی سفارتی آداب اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، مگر اس کی عالمی سطح پر سخت مذمت ہوئی اور کئی یوروپی ممالک نے اپنے احتجاجی نوٹس جاری کیے۔ آئرلینڈ کے نائب وزیراعظم سائمن ہیرس نے اسے ناقابل قبول قرار دیا، فرانس اور اٹلی نے اسرائیلی سفیروں کو طلب کیا، جبکہ یوروپی یونین نے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب اسرائیل کی غزہ اور مغربی کنارے میں جارحیت اپنی انتہا پر ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے اسرائیلی فوج نے فلسطینی علاقوں میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیاں کی ہیں جن میں نہ صرف مسلح مزاحمت کرنے والے افراد بلکہ عام شہری بھی ہلاک ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق غزہ میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک 53,000 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد میں بچے، خواتین اور بزرگ شامل ہیں۔ اسپتال، اسکول، مسجدیں اور پناہ گزیں کیمپ بھی نشانہ بنے ہیں، جس سے علاقے کا انسانی المیہ مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ عالمی تنظیمیں بارہا جنگ بندی کا مطالبہ کر چکی ہیں مگر اسرائیل نے اسے مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ غزہ پر اپنا مکمل کنٹرول برقرار رکھے گا، جس کا مطلب فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
اسرائیل کی اس جارحیت نے نہ صرف فلسطینیوں کی زندگیوں کو تباہ کیا ہے بلکہ اس نے عالمی امن و سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ عالمی برادری میں اسرائیل کی اس پالیسی پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ کئی ممالک، خاص طور پر یوروپی ممالک نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ جنگ بندی کرے اور انسانی حقوق کا احترام کرے، مگر اسرائیل نے سخت گیر رویہ اپنایا ہوا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے یہ اقدامات کر رہا ہے، مگر اس کے حملوں میں عام شہریوں کی جانیں جارہی ہیں۔ اس تناظر میں سفارتی وفد پر حملہ اسرائیل کی جارحیت کی ایک اور مثال ہے کہ وہ نہ صرف فوجی بلکہ سفارتی اور انسانی حدود کو بھی پامال کر رہا ہے۔
اسرائیلی جارحیت کا ایک اور انتہائی تشویشناک پہلو صحافت پر حملے ہیں۔ صحافیوں کو اغوا، حراست اور جان لیوا حملوں کا سامنا ہے۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کے مطابق جنوری، 2025 تک غزہ میں کم از کم 152 صحافی اور میڈیا ورکرس ہلاک ہوچکے ہیں۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2024 میں دنیا بھر میں ہلاک ہونے والے صحافیوں کی سب سے زیادہ تعداد اسی خطے سے تھی، جن میں 85 صحافی اسرائیل-غزہ جنگ کے دوران مارے گئے، ان میں 82 فلسطینی تھے۔ یہ اعداد و شمار اس خطے میں صحافت کے لیے موجود خطرات کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں اور عالمی برادری کے لیے ایک سخت چیلنج ہیں کہ وہ آزادیٔ صحافت اور انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے موثر اقدامات کرے۔
عالمی برادری کے ردعمل کی بات کی جائے تو اسرائیل کی جارحیت پر کئی ممالک نے اپنے اپنے انداز میں سخت موقف اپنایا ہے۔ برطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدوں کو معطل کیا ہے، فرانس، اٹلی، جرمنی، پرتگال اور اسپین نے اسرائیلی سفیروں کو طلب کر کے احتجاج کیا ہے اور یوروپی یونین نے اسرائیل کی کارروائیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے بھی اس جنگ کو روکنے کے لیے متعدد قراردادیں منظور کی ہیں جن میں فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی اور دو ریاستی حل کی حمایت شامل ہے، تاہم امریکہ سمیت چند بڑے طاقتور ممالک نے اسرائیل کو کھلا سہارا دیا ہے، جس کی وجہ سے عملی اقدامات میں سنجیدگی نہیں آ سکی۔
یہ مسئلہ صرف ایک علاقائی تنازع نہیں بلکہ عالمی سطح پر انسانی حقوق، بین الاقوامی قوانین اور امن و سلامتی کا معاملہ ہے۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی، ان کی زمینوں پر قبضہ اور تشدد کی کارروائیاں عالمی انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں۔ اس وقت عالمی برادری کے سامنے دو راستے ہیں: یا تو وہ ان جرائم پر خاموشی اختیار کرے یا پھر مؤثر اور یکساں کارروائی کے ذریعے اسرائیل کو روکنے کے لیے مضبوط اقدامات کرے۔
یہی وقت ہے جب عالمی ضمیر کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔ صرف بیانات اور احتجاجی نوٹس سے کام نہیں چلے گا، بلکہ سخت اقتصادی پابندیاں، سفارتی تنہائی اور بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات کا آغاز کرنا ہوگا۔ اگر عالمی برادری اس بات میں ناکام رہی تو اس کا خمیازہ نہ صرف فلسطینی بلکہ پوری انسانیت کو بھگتنا پڑے گا کیونکہ ظلم کی آگ صرف غزہ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ وہ عالمی امن کو بھی ہلاک کر دے گی۔
یہ تنازع عالمی طاقتوں کے سیاسی مفادات، علاقائی سیاست اور مذہبی اختلافات کا پیچیدہ امتزاج ہے، لیکن انسانی جانوں کی بربادی کے اس پس منظر میں یہ ضروری ہے کہ سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر انسانی حقوق اور امن کو ترجیح دی جائے۔ فلسطینی عوام کی آزادی، ان کے بنیادی حقوق کی بحالی اور اسرائیل کی جارحیت روکنے کے لیے یکساں عالمی کوششیں ناگزیر ہیں۔ صحافیوں کی حفاظت، سفارتی مشنز کی عزت اور عام شہریوں کی جان و مال کی حفاظت عالمی اصولوں کی بنیاد ہے جسے ہر ملک کو تسلیم کرنا ہوگا۔
آج جب دنیا اسرائیلی جارحیت کی اس وحشیانہ تصویر کو دیکھ رہی ہے تو انسانی ضمیر کی بیداری اور ایک طاقتور عالمی ردعمل کی اشد ضرورت ہے۔ سفارتی وفد پر حملہ اور صحافیوں کی ہلاکتیں محض واقعہ نہیں، بلکہ ایک ایسی گھناؤنی حقیقت کا عکاس ہیں جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر عالمی برادری نے اس پر بروقت اور مؤثر کارروائی نہ کی تو تاریخ اسے ایک بڑے المیے کے طور پر یاد رکھے گی، لہٰذا سفارتی وفد پر حملہ اور فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے عالمی برادری کو فوری، یکجا اور مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کے بغیر نہ تو عالمی امن قائم رہ سکے گا اور نہ ہی انسانی حقوق کا تحفظ ممکن ہوگا۔ یہی وقت ہے جب انسانی ضمیر کو جاگنا ہوگا اور اسرائیل کو اس کے ظالمانہ اقدامات کی سزا دینی ہوگی تاکہ عالمی انصاف قائم ہو اور فلسطینیوں کو ان کا حق خودارادیت مل سکے۔ ورنہ ظلم کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور دنیا ایک ایسی تباہی کی زد میں آئے گی جو صرف جغرافیائی حدود تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کی تباہ کاریوں کا دائرہ عالمی امن اور انسانیت تک پھیل جائے گا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]