ہندوستان کے 52ویں چیف جسٹس کے طور پر جسٹس بھوشن رام کرشنا گوائی کا عہدہ سنبھالنا ایک تاریخی موقع ہے۔ وہ نہ صرف ملک کے پہلے بدھ مت کے ماننے والے چیف جسٹس ہیں بلکہ دلت طبقے سے تعلق رکھنے والے وہ دوسرے جج ہیں جنہوں نے اس اعلیٰ عہدے تک رسائی حاصل کی ہے۔ اس تقرری کا مطلب صرف ایک عدالتی تقرری نہیں بلکہ ہندوستانی عدلیہ میں شمولیت، جامعیت اور سماجی انصاف کی ایک علامت بھی ہے۔
آج جس وقت جسٹس گوائی نے چیف جسٹس کا قلمدان سنبھالا ہے،عدلیہ اور ایگزیکٹیو کے درمیان بڑھتے ہوئے تنائو نے عوام کے ذہنوں میں عدلیہ کے اعتماد کو مجروح کیاہوا ہے۔ جسٹس ورما اسکینڈل اور عدلیہ کی شفافیت پر اٹھنے والے سوالات نے عوام میں عدلیہ کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ گوائی کی سب سے بڑی ذمہ داری ان تنازعات کو دور کرنا اور عدلیہ کے خلاف عوامی اعتماد کو بحال کرنا ہے۔ ان کا طریقہ کار سفارتی مہارت اور تحمل پر مبنی ہوگا تاکہ مواخذے کی کارروائی عدالتی طاقت کے سیاسی استعمال کا شکار نہ بنے۔
سپریم کورٹ کالجیم کے سربراہ کے طور پرجسٹس گوائی پر یہ دبائو ہے کہ وہ کالجیم نظام کو مزید شفاف بنائیں۔ گزشتہ دور میں کالجیم کی قراردادیں مختصر اور غیر وضاحتی رہی ہیں جس کی وجہ سے کئی بار تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ نئے چیف جسٹس کے تحت اس نظام میں بہتری کی امید ہے خاص طور پر ججوں کی تقرری میں جغرافیائی، جنس اور سماجی تنوع کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ عدالت میں خواتین کی تعداد انتہائی کم ہے اور تقرریاں اکثر ایک مخصوص ذات اور طبقے سے وابستہ ہوتی ہیں جس کا تدارک اب ناگزیر ہے۔
جسٹس گوائی کو سپریم کورٹ کے زیر التوا مقدمات کی بڑی تعداد کا بھی سامنا ہے۔ جنوری 2025 تک 82,445 مقدمات زیر التوا تھے، جو روزانہ اوسطاً 226 مقدمات کی سماعت کے باوجود حل نہیں ہوسکے۔ عدالت کی روزمرہ کارکردگی بہتر بنانے کیلئے گوائی کو مؤثر انتظامی فیصلے کرنے ہوں گے، خاص طور پر عبادت گاہوں کے قانون، وقف ایکٹ اور ازدواجی عصمت دری کے قوانین جیسے حساس اور قومی اہمیت کے حامل مقدمات پر ان کے فیصلے ملک میں جمہوریت اور آئینی حکمرانی کی راہ طے کریں گے۔
جسٹس گوائی کا رویہ ان کے پیش رو سے مختلف نظر آتا ہے۔ وہ زیادہ تحمل اور توازن کے ساتھ عدالتی معاملات کو دیکھتے ہیں مگر کبھی کبھار ان کے بیانات نے بحث بھی پیدا کی ہے جیسے دہلی کے بے گھر افراد کے معاملے میںان کے ریمارکس تنازع کا سبب بنے۔ تاہم ان کی کوشش ہے کہ عدالت عوام کے مسائل سے قریب رہے جیسا کہ انہوں نے پہلگام قتل عام کے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے سپریم کورٹ میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی۔
جسٹس گوائی نے کئی اہم فیصلوں میں حصہ لیا ہے جن میں اکثریتی رائے کے طور پر 2016 کی ڈیمونیٹائزیشن اسکیم کو برقرار رکھنا، آرٹیکل 370 کی منسوخی کی حمایت اور انتخابی بانڈ اسکیم کو غیر آئینی قرار دینا شامل ہے۔ ان کی ایک متفقہ رائے میں ذیلی درجے کی تجویز بھی شامل ہے جو کہ سماجی انصاف کے نئے زاویے کھولتی ہے۔ راہل گاندھی کے حق میں ایک اہم فیصلہ بھی ان کی قیادت میں آیا جس سے سیاسی اور عدالتی آزادی کی ایک نئی مثال قائم ہوئی۔
جسٹس گوائی کی ذاتی زندگی بھی دلچسپی کا مرکز ہے۔ ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس نے ڈاکٹر امبیڈکر کی تعلیمات سے متاثر ہو کر بدھ مت اختیار کیا۔ ان کا سفر ایک میونسپل اسکول سے لے کر ملک کی اعلیٰ عدالت تک رسائی، ہندوستانی عدلیہ میں سچائی اور محنت کی کہانی بیان کرتا ہے۔ یہ پس منظر انہیں عام شہری کے قریب رکھتا ہے اور عدلیہ کی ساکھ کو عوامی دلوں میں مضبوط کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔
جسٹس بی آر گوائی کا چیف جسٹس بننا ہندوستانی عدلیہ کیلئے نئے عہد کا آغاز ہے۔ انہیں نہ صرف عدلیہ کی شفافیت، انتظامی اصلاحات اور معاشرتی انصاف کی راہ ہموار کرنی ہے بلکہ عدلیہ اور ایگزیکٹیو کے درمیان بڑھتے ہوئے تنائو کو کم کرنا بھی ان کی اولین ذمہ داری ہوگی۔ ان کی عدالتی اور انتظامی حکمت عملی، عدلیہ کی عوامی ساکھ بحال کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ امید کی جانی چاہیے کہ وہ اپنی میراث اور تجربے کے ذریعے ہندوستانی عدلیہ کو ایک مضبوط، منصفانہ اور شفاف ادارے کے طور پر قائم رکھیں گے۔