عبدالماجد نظامی
ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس2025کے مطابق دنیا کے 180ملکوں پر مشتمل فہرست میں ہندوستانی میڈیا کی رینک 151ہے۔ اگر اس رینک کا مقابلہ گزشتہ برس سے کیا جائے تو یہ مانا جائے گا کہ موجودہ سال میں ہندوستانی میڈیا کی حالت کچھ بہتر ہوئی ہے کیونکہ2024 میں ہندوستانی میڈیا 159ویں پائیدان پر کھڑا تھا۔ ایک عام قاری جو ہمارے ملک کے میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں پر بھروسہ کرکے اخبارات خریدتا ہے یا ٹیلی ویژن دیکھتا ہے، وہ اس رینک سے کیاسمجھے گا؟ اس کے ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ خیال تو ضرور کوندے گا کہ اس کے ساتھ چھل اور دھوکہ ہو رہا ہے اور جن خبروں اور تجزیوں کو وہ دیکھتا یا پڑھتا ہے، اس میں سچائی کا کوئی ذرہ تک موجود نہیں ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ وہ خود کو میڈیا اور اخبارات سے الگ کرلے گا جس کے نتیجہ میں وہ اپنے ملک کی سیاسی و سماجی اور اقتصادی و تعلیمی صورتحال سے بے خبر ہوجائے گا اور ایک ذمہ دار شہری ہونے کا اپنا کردار مناسب ڈھنگ سے ادا نہیں کر پائے گا۔
اب ذرا غور کیجیے کہ ہندوستان جو خود کو تمام جمہوریتوں کی ماں قرار دیتا ہے، کیا اس کے اندر ایسے صحافی پائے جاتے ہیں جو ملک کے عوام کی فکر کو بالیدگی بخشیں اور ارباب اقتدار سے تیکھے اور ضروری سوال پوچھیں تاکہ خود اس ملک کی جمہوریت صحتمند اور مضبوط رہ سکے؟ ہندوستان جس کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے پر ناز ہے، وہاں میڈیا کی ایسی درگت بنی ہوئی ہے کہ جب ورلڈ فریڈم انڈیکس نے اپنی فہرست تیار کی تو اس کا درجہ ہندوستان کے پڑوسی ممالک نیپال، مالدیپ، سری لنکا اور بنگلہ دیش سے بھی نیچے رکھا ۔ اس کا مطلب اس ملک میں فکر و عمل کی آزادی اب اتنی بھی نہیں بچی ہے جتنی کہ ہمارے پڑوس کے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ ہندوستانی میڈیا کی اس بری حالت پر ہمیں حیرت کا اظہار بالکل نہیں کرنا چاہیے کیونکہ گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ مدت میں لگاتار صحافت کو بے حیثیت بنانے میں خود صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنا کردار نبھایا ہے۔
یہ وہ صحافی ہیں جنہوں نے اپنے پیشہ کا احترام نہیں کیا اور اپنے ضمیر و قلم کا سودا سیاسی آقاؤں اور صنعت کاروں کے ہاتھ بخوشی کرنے پر راضی ہوگئے۔ اگر ان صحافیوں نے اپنے پیشہ کے ساتھ غداری اور عوام کے ساتھ بے ایمانی نہیں کی ہوتی تو ان کا وقار بڑھتا اور پیسے بھی کما لیتے جیسا کہ بعض انصاف پسند صحافیوں نے اسی ملک میں کیا ہے اور وہ ترقی کے ساتھ ساتھ عزت و وقار سے بھی نوازے جاتے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا کی اسی بدحالی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ’’رپورٹرس ود آؤٹ بارڈرس‘‘ نامی این جی او جو یہ فریڈم انڈیکس تیار کرتی ہے وہ پہلی بار ایسا کہنے پر مجبور ہوئی ہے کہ گلوبل پریس فریڈم بڑی مشکل حالت میں ہے۔ کیا یہ بات ہمارے ملک کے لیے شرم و عار کی نہیں ہے کہ نیپال جیسا ملک اس رینکنگ میں 90ویں پائیدان پر ہے، مالدیپ 104ویں اور سری لنکا139ویں پائیدان پر جبکہ ہم151ویں مقام پر کھڑے ہیں۔2023میں ہماری حالت اس سے بھی بری تھی۔
ہمارا درجہ 161واں تھا۔ اور یہ بالکل بعید بات نہیں ہے کہ آئندہ برس غالباً ہمارا مقام اس سے بھی نیچے چلا جائے۔ اس خدشہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ابھی پہلگام واقعہ کے بعد جب ہندوستان نے سرحد پار دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے ’آپریشن سندور‘ کا آغاز کیا تو ہندوستانی میڈیا کا وہ حصہ جس نے اپنی نااہلی اور ارباب اقتدار کی نعل بوسی کی وجہ سے ’گودی میڈیا‘ کا خطاب حاصل کیا ہے، نے ’آپریشن سندور‘ کی کوریج کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ اپنی تمام تر پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو بالائے طاق رکھ دیا بلکہ واضح اور صریح جھوٹ کو پورے ملک اور دنیا کے سامنے پوری ڈھٹائی اور مجرمانہ جرأتمندی کے ساتھ پیش کرنے سے بھی باز نہیں آیا۔ جس انداز میں کراچی بندرگاہ کی تباہی و اسلام آباد کو تباہ کرنے یہاں تک کہ پاکستان کے کئی شہروں کو برباد کر دینے سے متعلق جھوٹ کو مصنوعی ذہانت جیسی ٹکنالوجی کے استعمال سے پیش کیا گیا، اس نے پوری مہذب دنیا کے سامنے ہمارے ملک کو شرمسار کیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا سرحدوں سے زیادہ بڑی جنگ ملک کے عوام کے ذہنوں میں پیدا اور لڑی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ان ’گودی میڈیا ہاؤسز‘ سے وابستہ ننگ زمانہ صحافیوں نے شائستگی کا دامن مکمل طور پر چھوڑ دیا۔ جس قسم کی سوقیانہ زبان اور مغلظات کا استعمال بے روک ٹوک ہوتا رہا، اس کا تصور بھی کوئی سلیقہ مند انسان ایک صحافی سے نہیں کر سکتا تھا۔
دشمنوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنے اور نقطۂ ابال تک پہنچی ہوئی جنونی قومیت کے جوش میں یہ صحافی حضرات بھول گئے کہ وہ اپنے ہی ملک کے عام انسانوں کو خوف و دہشت کی نفسیات میں مبتلا کر رہے ہیں۔ جنگ کا موقع اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ بڑی ذمہ داری کے ساتھ حالات کو پیش کیا جائے اور خبر رسانی و تجزیہ نگاری کے لیے جو الفاظ اور تعبیرات استعمال کیے جائیں، ان میں ایسی متانت اور سنجیدگی ہو کہ ایک قاری و سامع و مشاہد کو بیجا دل برداشتگی کے ماحول سے نہ گزرنا پڑے۔ ساتھ ہی اس کا بھی لحاظ رکھا جائے کہ ملک میں عام بد امنی و اضطراب اور بے چینی کا ماحول پیدا نہ ہو۔ آخر اس طرح کے غیر ذمہ دارمیڈیا ہاؤسز کی کیا معنویت باقی رہ جائے گی؟ تاریخ انہیں کس نام اور انداز میں یاد رکھے گی؟ کیا اس ’آپریشن سندور‘ کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے تاریخ کا ایک طالب علم کبھی بھی ان کی پیش کردہ تفصیلات کی طرف رجوع کرے گا؟ ہر گز نہیں!اس کے برعکس تاریخ ایسے صحافیوں اور میڈیا گھرانوں کا ذکر اگر کبھی کرے گی بھی تو ان کی غیر ذمہ دارانہ بلکہ مجرمانہ کردار کے لیے اور انہیں ہمیشہ کے لیے تاریخ کے مزبلہ میں ڈال کر ان کا باب بند کر دے گی۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ موجودہ سرکار نے بھی ان پر قدغن لگانے کے لیے کوئی موثر اقدام نہیں کیا، عوام کے اس قدر سخت ردعمل اور عالمی سطح پر جگ ہنسائی کے بعد بھی صرف ایڈوائزری سے کام چلایا گیا اور ملک کی رسوائی کا سامان پیدا ہونے دیا گیا۔ حالانکہ خود سرکار میں وزیر بھی اس طرح کی فرضی خبروں کا شکار ہو کر شرمندگی کا سامنا کرچکے تھے۔
ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ایسے تمام صحافیوں اور میڈیا گھرانوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور اپنے پیشہ کے وقار کو مجروح کرنے اور عوام کے ساتھ دروغ بیانی سے کام لینے کے جرم میں ان کے لائسنس کو رد کیا جائے تاکہ حقیقی معنی میں صحافت کے فریضہ کو انجام دینے کے لیے مناسب اور آزاد فضا و ماحول تیار ہو اور ملک میں جمہوریت کی بنیادیں گہری ہوسکیں۔ لیکن شاید موجودہ سرکار سے ایسی کوئی توقع بہت بے سود ہے کیونکہ صحافت و میڈیا کے اندر اس سطحیت کو پروان چڑھانے میں اس کی چشم پوشی بلکہ دانستہ خاموشی ہی ذمہ دار رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اتنی اپیل تو ضرور کی جاسکتی ہے کہ ایسے میڈیا کو کھلی چھوٹ نہ ملے تاکہ عالمی سطح پر ہم شرمسار نہ ہوں۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]