خاموشی کی زبان، نفرت کا شور

0

ڈاکٹر محمد فاروق اعظمی

ہندوستان کی سیاسی فضا میں آج جو زہر گھولا جا رہا ہے، وہ کسی مخصوص جماعت یا نظریے کی محض فکری کجی نہیں بلکہ یہ ایک منظم اور دیرپا فسطائی پروجیکٹ کا نتیجہ ہے جو صرف اقلیتوں، خواتین یا ترقی پسند طبقات ہی کو نہیں بلکہ آئینی اداروں، سرکاری افسران اور ریاستی وقار کے ہر استعارے کو روندنے پر تلا ہوا ہے۔ ملک کے خارجہ سیکریٹری وکرم مسری اور ان کے خاندان کے خلاف سوشل میڈیا پر چھیڑی گئی مہم محض ٹرولنگ یا ذاتی حملے نہیں ہیں، بلکہ یہ اس بڑھتے ہوئے رجحان کا عکاس ہے جس میں حب الوطنی کی نئی تعریفیں رقم کی جا رہی ہیں اور وفاداری کا پیمانہ مذہبی جنون، وزیراعظم نریندر مودی سے اندھی عقیدت اور مسلم دشمنی بن چکا ہے۔

وکرم مسری، جو 1989 بیچ کے سینئر افسر اور اس وقت ہندوستان کے سب سے اہم عہدے یعنی سیکریٹری خارجہ کے منصب پر فائز ہیں، پالیسی سازی، سفارت کاری اور قومی سلامتی کے اہم امور میں کلیدی کردار ادا کرچکے ہیں۔ ان کی خدمات میں چین، اسپین اور دیگر ممالک میں سفارت کاری نیز نیشنل سیکورٹی کونسل کی قیادت شامل ہے۔ ایسے وقت میں جب 22 اپریل کو کشمیر کے پہلگام میں ایک ہولناک دہشت گرد حملہ ہوا،جس میں 26 معصوم سیاح جاں بحق ہوئے اس کے بعد فوجی کارروائی ’’آپریشن سندور‘‘ کا آغاز ہوا اور بالآخر 10 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ یہ فیصلہ کسی جذباتی کمزوری کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک دوراندیش، پختہ اور تدبر پر مبنی سفارتی قدم تھا۔

لیکن جس ملک میں حب الوطنی کا مطلب بندوق، خون اور ’’پاکستان بھیجو‘‘ کا نعرہ بن چکا ہو وہاں یہ سفارتی قدم گالی کا نشانہ بنے بغیر کیسے رہ سکتا تھا؟ اس اعلان کے فوراً بعد وکرم مسری کو سوشل میڈیا پر ’’غدار‘‘،’’دیش دروہی‘‘اور’’اسلامی لابی کا ایجنٹ‘‘ قرار دے کر ایک نفسیاتی جنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس حملے کا دائرہ مشری کی بیٹی دیدو ن مشری تک پھیل گیا،‘ جو لندن میں ایک بین الاقوامی لا فرم سے وابستہ ہیں اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق پروگراموں سے وابستہ مختلف مہاجرین کو قانونی معاونت فراہم کر چکی ہیں۔ ان کے خلاف سب سے بڑا الزام یہ بنا کہ انہوں نے ایک روہنگیا مہاجر کو قانونی مشورہ کیوں دیا؟

کیا ایک بین الاقوامی قانون داں کا انسانی ہمدردی کے تحت کام کرنا غداری ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اسپتالوں میں زخمی پاکستانی شہریوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر، قدرتی آفات کے وقت دشمن ممالک کی امداد کرنے والی این جی اوز اور یہاں تک کہ سرحد پار ثقافتی میل جول کی ہر کوشش کو بھی جرم قرار دے دینا چاہیے۔ مگر نہیں، اصل جرم انسانیت نہیں بلکہ وہ شناخت ہے جو اس نئے ہندوستان کے بیانیے کو ہضم نہیں ہوتی یعنی کہ مسلمان، عورت، اقلیت، ترقی پسنداور سیکولر!
کرنل صوفیہ قریشی کا معاملہ تو اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ ایک مسلم خاتون، جو ہندوستانی فوج میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں، اپنی تمام پیشہ ورانہ مہارت اور حب الوطنی کے باوجود اس نفرت انگیز طوفان سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ ان کی صرف موجودگی ہی، ان کا فوجی وردی میں میڈیا کے سامنے آ کر بات کرنا، کئی لوگوں کیلئے ناقابل برداشت تھا۔ انہیں،پاکستانی ایجنٹ،دشمن کی ہمدرد اور جہادی سیکولر جیسے الفاظ سے پکارا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی، جنہیں ایک دہائی سے زائد عرصہ ہوا ہے اقتدار میں کبھی ایک مکمل پریس کانفرنس کرنے کی ہمت نہیں کرسکے مگر ایک مسلم خاتون کرنل ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے نکتہ نظر پیش کرے،یہ بنیاد پرستوں کو گوارا نہیں۔

سوال یہ ہے کہ ان نفرت انگیز عناصر کے دلوں میں سب سے زیادہ چبھتا کیا ہے؟ کسی عورت کا بااختیار ہونا؟ کسی مسلمان کا ملک سے وفادار ہونا؟ یا کسی افسر کا دستور کی پاسداری کرنا؟ اصل ہدف شاید یہی تین گناہ ہیںاور ان گناہوں کی سزا عوامی مقاطعہ، آن لائن ہراسانی اور جان بوجھ کر پھیلائی گئی جھوٹی معلومات کی شکل میں دی جاتی ہے۔

وکرم مسری کے سوشل میڈیا اکائونٹس کو پرائیویٹ کرنا،ا ن کی بیٹی کاآن لائن ڈیٹا شیئر ہونا اور خاندان کو بدنام کرنے کی منظم مہم اس امر کی علامت ہے کہ اب ہندوستان میں پیشہ ورانہ دیانت داری جرم اور شخصی آزادی خطرہ بن چکی ہے۔ ایسے حملے صرف افراد کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ پورے نظامِ حکومت کو دیمک کی طرح چاٹتے ہیں۔ جب بیوروکریسی خوف کا شکار ہو، جب سرکاری افسران کو ذاتی تحفظ کیلئے سوشل میڈیا سے خود کو علیحدہ کرنا پڑے تو ریاستی مشینری کی سالمیت کہاں باقی رہتی ہے؟
اس پس منظر میںآئی اے ایس ایسوسی ایشن، سابق خارجہ سیکریٹری نروپما رائو،وزارت انتظامی اصلاحات و شکایت عامہ کے سیکریٹر وی سری نواس،وزارت شہری امور اورہائوسنگ کے سیکریٹری سری نواس کاتیکی تھلا اورمصر اور متحدہ عرب امارات میں ہندوستان کے سابق سفیر نودیپ سوری جیسے باوقار افسران کی جانب سے وکرم مسری کے حق میں دیے گئے بیانات نہایت اہم ہیں۔ ان بیانات نے اس بات کی تصدیق کی کہ اب خاموشی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ جب نفرت کی زبان سب کچھ نگلنے کے درپے ہو تو سچ کی ایک آواز پوری قوم کی سماعت کو جھنجھوڑ سکتی ہے۔

لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اعلیٰ قیادت وزیراعظم، وزیر خارجہ کی طرف سے اب تک کوئی مذمتی بیان سامنے نہیں آیا۔ ان کی خاموشی اس پورے سانحہ پر نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھاتی ہے کہ کیا یہ خاموشی محض مصلحت ہے یا دانستہ چشم پوشی؟ کیا واقعی ریاستی ادارے اپنے ہی افسروں کو اس طرح کے حملوں کیلئے بے یار و مددگار چھوڑ دیں گے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو یہ محض وکرم مسری یا صوفیہ قریشی کی شکست نہیں بلکہ ہندوستان کے دستور، جمہوریت اور انسانی وقار کی شکست ہے۔
یہ لمحہ فکریہ ہے اور فیصلہ کن بھی۔ ہمیں طے کرنا ہوگا کہ ہم نفرت کی اس مہم میں خاموش تماشائی بن کر جمہوریت کی موت کا نظارہ کریں گے یا سچائی، انسانیت اور آئینی اقدار کیلئے متحد ہو کرآواز بلند کریں گے۔ کیونکہ اگر ہم نے آج وکرم مسری اور صوفیہ قریشی کیلئے زبان نہ کھولی تو کل شاید کوئی ہمارے لیے بھی بولنے والا نہ بچے۔

یہ صرف سفارتکاروں کا مسئلہ نہیں، یہ ہندوستان کے مستقبل کا سوال ہے۔ اور اس سوال کا جواب اب صرف الفاظ سے نہیں عمل سے دینا ہوگا۔ خاموشی اب جرم ہے۔ بولو، ورنہ وقت تمہاری زبان چھین لے گا۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS