ایم اے کنول جعفری
چار دن کی زبردست کشیدگی اور تنازع کے بعد ہندوستان اور پاکستان جنگ بندی پر رضامند ہوگئے۔جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے،دیر سویراس کے اختتام پر اتفاق ہونا ہی تھا،لیکن اس طرح کے حالات دوبارہ پیدا نہ ہوں، کی بابت بھی غورکیا جانا چاہیے۔10مئی کو ہندوستان اور پاکستان کے مکمل اور فوری جنگ بندی پرراضی ہونے سے دونوں ممالک کے عوام نے راحت کی سانس لی۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیااکاؤنٹ ٹرتھ پر بتایا کہ رات بھر صلح صفائی کی بات چیت کرائی گئی۔مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان مکمل اور فوری جنگ بندی پر آمادہ ہوگئے۔دونوں ممالک کو مبارک ہو کہ انہوں نے عقل، فہم اور ادراک کا استعمال کیا۔ اس معاملہ پر توجہ دینے کے لیے شکریہ۔یہ اعلان امریکی وزیرخارجہ مارکوروبیو کی ہندوستانی وزیرخارجہ ایس جے شنکر، پاکستانی وزیرخارجہ اسحاق ڈار اور پاکستانی فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر سے بات چیت کے بعد ہوا۔ مارکو روبیو کے مطابق گزشتہ48گھنٹوں میں نائب صدر جے ڈی وینس اور میں(روبیو) نے ہندوستان اور پاکستان کے وزیراعظم نریندر مودی وشہباز شریف،وزیرخارجہ ایس جے شنکر، فوجی سربراہ عاصم منیر اور دونوں ممالک کے مشیران قومی سلامتی اجیت ڈوبھال اور عاصم ملک سے بات چیت کی۔ حالاں کہ ہندوستان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بغیر کسی ثالثی کے سیدھی بات ہوئی اور جنگ بندی پر اتفاق ہوا۔ کشیدہ حالات اور جنگ کی نوبت اس لیے آئی کہ 22اپریل کو پہلگام میں فوج کی وردی میں آئے دہشت گردوںنے سیلانیوں کے اُوپر گولیاں برسا کر 26لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتاردیا۔ اسے لے کرلوگوں میں زبردست غصہ تھا۔ ملک کے کونے کونے سے دہشت گردوں اور انہیں پناہ دینے والے پڑوسی ملک کے خلاف بدلہ لینے کی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔ دراندازوں اور سرحد پار بیٹھے ان کے آقاؤں کو سبق سکھانے کے لیے مثبت اور ٹھوس کارروائی کی ضرورت تھی۔
کئی ضروری اقدامات کے بعد حکومت نے پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سخت جوابی کارروائی کا فیصلہ لیا اور7مئی کی رات تقریباً1:05بجے پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر اور پاکستان میں دہشت گردوں کے9ٹھکانوں مظفرآباد، کوٹلی، بہاول پور، راول کوٹ، چک سواری، بمبر، وادیٔ نیلم، جہلم اور چکوال کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں 100 سے زیادہ دہشت گرد ہلاک اور60سے زیادہ زخمی ہوئے۔ سرحد پر گولہ باری میں تقریباً40افسر اور جوان مارے گئے۔ دشمن کے سبھی ڈرونز اور کئی لڑاکو جہاز مارگرائے گئے۔اس کارروائی میں ہمارے 5جوان شہید ہوئے،سبھی پائلٹ محفوظ ہیں۔15روز بعد کی گئی ’آپریشن سندور‘ نام کی کارروائی کا مقصد دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا تھا۔پاکستان نے بھی آپریشن ’بنیان مرصوص‘چلایا۔ سیٹلائٹ تصاویر سے معلوم ہوا کہ دہشت گرد وہاں سرگرم تھے اور ہندوستان میں ان کے بہت سارے سلیپر سیل کام کر رہے ہیں،جن کے ذ ریعہ وہ بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ہندوستانی افواج نے سرحد پار آپریشن میں لشکر طیبہ اور جیش محمد کے جن ٹھکانوں کو نیست و نابود کیا۔کرنل صوفیہ قریشی کے مطابق پاکستان گزشتہ3دہائیوں سے دہشت گردی کے ڈھانچے کی منصوبہ بند تعمیر میں مصروف ہے۔ کارروائی میں سوانالہ سے بہاول پور تک پھیلے دہشت گرد کیمپوں کو نشانہ بناکران تنظیموں کی ریڑھ توڑی گئی۔فضائیہ کی ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ نے بتایا کہ ’آپریشن سندور‘سے قبل خفیہ رپورٹیں ملی تھیں۔آپریشن میں مولانا مسعود اظہر اور حافظ سعید تو بچ گئے،لیکن مدثر کھادیان عرف ابو جندال، خالد، حافظ جمیل، یوسف اظہر اور حسن خان سمیت مسعود اظہر کے10اہل خانہ ہلاک ہوگئے۔ اہل خانہ کی ہلاکت کے بعد اظہر یہ کہتا نظر آیا کہ کاش وہ بھی مرجاتا۔ پاکستان نے حملے میں مارے گئے لوگوں کو عام شہری بتایا تھا،لیکن ہندوستانی کارروائی میں ماراگیا دہشت گرد مدثر کھادیان عرف ابو جندال لشکر طیبہ سے جڑا تھا۔یہ مریدکے مرکز کے طیب کاانچارج تھا۔ اس کے اہم ہونے کا اندازہ اسی سے ہوجاتاہے کہ پاکستانی فوج کے ذریعہ اس کے جنازے کو گارڈ آف آنر پیش کیاگیا۔ پاکستانی فوج کے چیف عاصم منیر اورپنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز کی جانب سے گلہائے عقیدت پیش کیے گئے۔ جیش محمد سے تعلق رکھنے والا محمد جمیل اظہر مسعود کا بہنوئی تھا۔اس کے ذمہ مرکز سبحان اﷲ کی ذمہ داری تھی۔یہ نوجوانوں کو شدت پسند بنانے اور جیش کے لیے روپے اکٹھاکرتا تھا۔جیش سے متعلق محمد یوسف اظہر مسعود اظہر کا سالہ تھا۔ اس کے ذ مہ ہتھیاروں کی ٹریننگ تھی۔ خالد عرف ابو آکاش لشکر سے جڑا تھا۔اس پر جموں میں دہشت پھیلانے کا الزام تھا۔اس کے جنازے میں پاکستانی فوج کے اعلیٰ افسران اور ڈپٹی کمشنر شامل ہوئے۔ محمد حسن بھی جیش سے جڑا تھا۔کشمیر میں دہشت گردانہ حملوں میں اس کا اہم کردار تھا۔ خارجہ سیکریٹری وکرم مصری نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن(ڈی جی ایم او) نے10مئی کو سہ پہر 3:35 بجے فون کیا۔ اس کے بعد دونوں ڈی جی ایم اوز میں 5بجے سے فضائیہ،بری اور بحری افواج کی تمام تر کارروائیاں اور گولہ باری بند کرنے پر اتفاق ہوا۔
پاکستان کی شبیہ اس کے وجود میں آنے سے ہی داغدار رہی ہے۔ ملک بننے کے ایک روز بعد ہی پاکستان نے قبائلیوں اور فوج کی مدد سے کشمیر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوئی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ثالثی میں1949کی رات کو باقاعدہ جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ 1965میں پاکستان نے کشمیر میں دراندازی کر بدامنی پیدا کی۔ اس کشمکش نے جنگ کی صورت اختیار کرلی۔سوویت یونین اور امریکہ کی مداخلت سے1966میں تاشقند میں امن معاہدہ طے پایا۔ پاکستان نے مشرقی پاکستان میں بنگلہ بھاشیوں پر ظلم کیے تووہ بڑی تعداد میں ہندوستان میں پناہ لینے لگے۔ پاکستان نے اس کی آڑ میں 3دسمبر1971کو ہندوستان کے ساتھ جنگ شروع کردی۔ پاکستان کوزبردست شکست ہوئی اور بنگلہ دیش نام کا نیا ملک وجود میں آ گیا۔شکست پر شکست کھانے کے بعد پاکستان نے ’ پراکسی وار‘ کی حکمت عملی اپنائی۔پنجاب اور جموں و کشمیر میں دہشت گردی کو فروغ دیا۔ 1999میں پاکستانی سپاہیوں اور دہشت گردوں نے کارگل کی چوٹیوں پر قبضہ کر لیا۔ دونوں ممالک میں جنگ ہوئی۔ امریکہ کی مداخلت سے جنگ بند ہوئی۔ پاکستان 2008کے ممبئی حملے میں شامل رہا۔ 2016 میں اُڑی میں فوجی اڈے پر حملے کے بعد ہندوستان نے پاکستانی علاقے میں سرجیکل اسٹرائک کی۔ پاکستان نے 2019 میں پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلے پر خودکش حملہ کرایا۔ ہندوستان نے بالاکوٹ میں ایئر اسٹرائک سے اس کا جواب دیا۔
سوال یہ بھی ہے کہ ’آپریشن سندور‘ سے ہندوستان کو کیا حاصل ہوا؟ آپریشن سندور نے نہ صرف دہشت گردی پر زبردست چوٹ کی،بلکہ دنیا کو ایک مضبوط پیغام بھی دیا کہ دہشت گردی کے خلاف کہیں بھی اور کسی بھی وقت کارروائی کی جائے گی۔پاکستان اور پاکستان کے زیرقبضہ کشمیر میں لشکراور جیش کے ہیڈکوارٹر اور لانچ پیڈ سمیت بھارت کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی اور تربیت والے دہشت گردی کے ٹھکانے تباہ کیے۔ انتہائی مطلوب اور خطرناک دہشت گرد مارے گئے اور دہشت گرد ماڈیولز کی قیادت ختم کی گئی اور پوری دنیا نے ہندوستان کی بڑھتی فوجی طاقت کو دیکھا۔ پاکستان کو یہ بھی بتا دیا کہ مستقبل میں کسی بھی دہشت گردانہ حملے کو ملک کے خلاف جنگ تصور کیا جائے گا اور اس کا اسی طریقے سے جواب دیا جائے گا۔اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔پھر پاکستان دہشت گردی کو کیوں فروغ دے رہا ہے،یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ دہشت گردوں کو ان ہی کی زبان میں جواب دیا جانا اچھا ہے۔ پڑوسی کو دہشت گردی کا راستہ چھوڑ کرامن و سکون اور اپنی ترقی کے لیے ایمانداری سے کام کرنا چاہیے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]