غزہ پر مکمل قبضہ:فتح ایک قدم نہیں کوسوں دور ہے

0

محمد حنیف خان

درد سے وہی لوگ آشنا ہیں جن پر وہ گزرا ہو،باقی لوگ اسے محسوس تک نہیں کرسکتے سوائے اس کے کہ وہ دیکھیں اور آنکھ جتنا دکھائے اور محسوس کرائے اتنا وہ دیکھ اور محسوس کرلیں۔ غزہ اس وقت اپنی تاریخ کے بھیانک ترین دور میں ہے۔موت برحق ہے،اس سے رستگاری کسی کو نہیں لیکن موت کس شکل میں ہمارے اور آپ کے درمیان موجود ہے یہ کوئی نہیں جانتا البتہ اہل غزہ اپنی موت کو نہ صرف آنکھوں کے سامنے ہر وقت دیکھتے ہیں بلکہ متنوع شکل میں وہ ان کے سامنے رقص کرتی ہے۔یہ اسرائیلی بمباری، فاقے، ادویات و علاج کی قلت،غذائی اجناس کی کمی،آلودہ پانی،گولہ و بارود کے ساتھ ہی زہریلی گیس کی شکل میں ہر وقت ان کے سامنے رہتی ہے۔کئی دن پہلے اقوام متحدہ نے یہ اعلان کردیا تھا کہ اب غزہ کی پٹی میں غذا اور دوا بالکل نہیں ہے،کیونکہ گزشتہ دو ماہ سے اسرائیل نے اپنی ناکہ بندی کے ذریعہ باہر سے آنے والی امداد کو پوری طرح سے روک رکھا ہے۔زمین تو پہلے ہی بنجر ہوچکی ہے جو قابل کاشت نہیں بچی،شہر کے شہر ویران ہوچکے ہیں، ایسے میں یہاں رہنے بسنے والے لوگ کیا کریں؟

اسرائیل نے در اصل دباؤ کی پالیسی اختیار کی ہے۔اس کا ماننا ہے کہ اس طرح وہ حماس کو مجبور کردے گا۔لیکن ان کے عزم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب اسرائیل نے مکمل قبضے کا اعلان کیا تو اس نے صاف طور پر گفتگو سے منع کردیا کہ اب گفتگو کا کوئی راستہ ہی نہیں بچتا ہے۔یعنی وہ سر پر کفن باندھے ہر طرح کے حالات کے لیے تیار ہیں۔لیکن مسئلہ حماس کا نہیں ہے،مسئلہ عوام کا ہے۔یہ دنیا جانتی ہے کہ جنگ میں بھی شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا ہے،جو لوگ اس جنگ میں شریک ہیں، ان کے ساتھ ہی جنگ کی جائے مگر یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے،پہلے دن سے اسرائیل نے شہریوں کو نشانہ بنایاہے۔دستاویزی سطح پر تقریباً ستر ہزار فلسطینیوں کو اسرائیل اس جنگ میں شہید کرچکا ہے۔مگر دنیا بالکل خاموش ہے۔عیا الحطاب غزہ کی ہیں، جو لکھتی بھی ہیں،ان کا ایک مضمون برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ میں 6مئی 2025کو شائع ہوا ہے جس کا عنوان Israel is starving in Gazaہے،اس مضمون میں انہوں نے اسرائیل میں بھوک، درد، تکلیف،دواؤں اور غذاؤں کی قلت بیان کی ہے۔وہ آخر میں بڑے درد و کرب کے ساتھ لکھتی ہیں: ’’مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غزہ اس دنیا کا حصہ ہی نہیں ہے،جیسے ہم کسی بہت دور بھولی بسری کہکشاں میں رہتے ہیں،ہماری زندگی مصائب اور عجیب و غریب کیفیت سے دوچار ہے، جبکہ باقی دنیا میں کاروبار زندگی اس طرح جاری و ساری ہے جیسے ہمارا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا نے پوری طرح سے غزہ کو فراموش کرکے اسرائیل کو پوری طرح سے چھوٹ دے دی ہے کہ وہ جو چاہے اور جیسے چاہے کرے،کبھی کبھار کسی کا کوئی بیان آجاتا ہے کہ اسرائیل کو ایسا نہیں کرنا چاہیے جس کے بعد اس کے خلاف ایک محاذ کھل جاتا ہے اور پھر وہ خاموش ہوجاتا ہے جیسا کہ ابھی حال ہی میں فرانس کے وزیراعظم کے ساتھ ہوا،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب اسرائیل نے غزہ پر مکمل قبضے کا اعلان کردیا ہے،پہلے یہ خواب تھایایوں کہئے کہ ایک چھوٹے سے گروپ کا نظریہ تھا کہ غزہ پر قبضہ کیا جانا چاہیے تاکہ بحری کنارے بھی اسرائیل کی عملداری میں رہے جو اسرائیل کے لیے لازمی ہے، اس گروپ کی سربراہی ربی میر کاہن(Rabbi Meir Kahane)کرتے تھے، جس پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی مگر اب یہ اسرائیلی پالیسی بن گئی ہے۔غزہ پر مکمل قبضے کی بات ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب جوہری معاملے میں ایران کے ساتھ امریکہ کی گفتگو سخت ہوتی جارہی ہے۔دوسری طرف ٹرمپ بھی عالم عرب کا دورہ کرنے والے ہیں۔

اسرائیل کی پالیسی پر گہری نظر رکھنے والوں نے دیکھا ہوگا کہ نیتن یاہو شروع سے ہی مکمل فتح کی بات کرتے رہے ہیں لیکن ہر مرحلے میں یہی کہا ہے کہ بس اب فتح ایک قدم دور ہے اور ہر مرتبہ اس کا خواب چکنا چور ہوا ہے،اس چور چور خواب میں اسرائیلیوں کی خواہشات اور ان کی امنگیں بھی لت پت ہوئی ہیں،یہی وجہ ہے کہ اسرائیل میں حکومت مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں جن پر قابو پانے کے لیے طاقت کابے محابا استعمال بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ اسرائیلی شہریوں کے مابین ہوئے حالیہ سروے کی رپورٹ کے مطابق 53فیصد اسرائیلیوں کا یہ ماننا ہے کہ جنگ میں یہ توسیع نیتن یاہو اپنے سیاسی مفادات کے لیے کر رہا ہے، جبکہ 35فیصد اسرائیلی اس جنگ کو قومی سلامتی کے لیے مان رہے ہیں۔اسی طرح اسرائیل کی ریزرو فورس کے اراکین کی رپورٹ کرنے میں بھی 50فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق 2024میںایسے ریزور افراد نے جنگ میں 136ایام اپنی خدمات انجام دی ہیں،جبکہ اس سے قبل ایک سال میں محض آٹھ دن کی خدمات ہی ضروری تھیں،چونکہ باقی ایام میں یہ لوگ اپنے گھروں میں کام کرتے تھے،اپنے کاروبار سے منسلک رہتے تھے، اس لیے پروڈکشن اور معیشت بہتر تھی مگر اب یہ سب ان کے اہل خانہ کے لیے مصیبت اور مشکل ہوتا جارہا ہے۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ اگر ان ریزرو لوگوں کو بلالیا جائے اور غزہ کی پٹی پر قبضہ بھی کر لیا جائے تو اس کے بعد جنگ ختم ہوجائے گی یا جو 59اسرائیلی اب بھی حماس کے قبضے میں ہیں، ان کو آزاد کرا لیا جائے گا۔21مہینوں کی اس جنگ میں ابھی تک اسرائیل کسی ایک ایسے ٹھکانے تک نہیں پہنچ سکا ہے جہاں ان اسرائیلیوں کو رکھا گیا ہے جس سے اسرائیلی انٹلیجنس کی ناکامی اور اس کے اندھیرے میں ہاتھ پیر مارنے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

یائرولیچ(Yair Wallach)ایک اسرائیلی دانشور ہیں جو سوس (Soas) یونیورسٹی لندن میں شعبہ یہودی مطالعات (Centre for Jewish Studies)میں ریڈر اور اس کے سربراہ ہیں۔ان کا ایک مضمون Seiz Gaza ,or make it uninhabitable.That is Netanyahus planبھی مذکورہ اخبار میں ہی شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے اسرائیلی پالیسیوں پر تنقیدکرتے ہوئے لکھا ہے کہ غزہ پر قبضہ کو اسرائیل نے Operation Gideos Chariotsنام دیا ہے لیکن اسے جہنم کا روڈ میپ کہنا زیادہ درست ہوگا۔ان کا ماننا ہے کہ اس منصوبے کے تحت پوری آبادی کو ہمیشہ ایک سکڑتے ہوئے زون میں دھکیلا جائے گا،جس کا مقصد غزہ کی پٹی سے مکمل طور پر فلسطینیوںکی نقل مکانی ہے۔

اسرائیل کے ان مظالم کو کیا دنیا نہیں دیکھ رہی ہے؟ اس کی آنکھیں بالکل بند ہیں؟ ایسا نہیں ہے،مسئلہ سب سے اہم مفادات کا ہے،اب انسانیت اورنظریہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے،طاقت اور مفادات ہی سب کچھ ہیں۔یہ تو دنیا جانتی ہے کہ امریکہ سپرپاور ہے،وہائٹ ہاؤس کے ساٹھ فیصد ممبران ایسے ہوتے ہیں جو کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں مگر وہ یہودی سرمایہ کاروں کی رقم سے جیت کر ایوان میں پہنچتے ہیں، ایسے میں بھلا وہ یہودی کاز کے لیے کیوں نہیں کھڑے ہوں گے؟اس وقت یہی ہو رہا ہے چونکہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ ہے، اس لیے پوری دنیا اس کے ساتھ ہے یہاں تک کہ عالم عرب غلاموں کی طرح اس کے سامنے دست بستہ ہے۔پورے عالم عرب کا اگر جائزہ لیا جائے تو یمن کے حوثیوں کے سوا کوئی بھی فلسطینیوں کے ساتھ عملی سطح پر نہیں کھڑا ہے۔حال ہی میں سوشل میڈیا پر محمد بن سلمان کو ایک سعودی شخص ایک درخواست دیتے ہوئے دکھائی دیا جس میں وہ فلسطینیوں کے حق کی بات کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کرانے کی اپیل کرتے ہوئے زور زور سے بولنے لگتا ہے جسے دھکے دے کر وہاں سے نکال دیا جاتا ہے۔عالم عرب کی اس بے حسی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج فلسطینیوں پر نکبت کے یہ دن آگئے ہیں۔حالانکہ جو منصوبہ پہلے چندمتعصب ومتشددافراد/گروپ کا تھا، آج وہ سرکاری پالیسی بن گئی ہے،اس پالیسی میں غزہ ہی نہیں عالم عرب کا ایک وسیع خطہ شامل ہے، اس لیے یہ اپنی باری کا بھی سامان خود ہی کر رہے ہیں۔لیکن یہ سچ ہے اور ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ نیتن یاہو کے مطابق اب فتح محض ایک قدم دور ہے،یہ فتح غزہ پر قبضے کے بعد بھی اسرائیل سے کوسوں دور رہے گی کیونکہ یہ جیالے زندگی اور موت کا سودا کرکے اپنے وطن کی حفاظت کے لیے اس سے برسرپیکار ہیںاور جن کے پاس کھونے کو کچھ نہ ہو وہ زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS