پنکج چترویدی
وسطی پاکستان اور اس سے متصل پنجاب اور شمال-مغربی راجستھان پر مرکوز ایک فعال مغربی ڈسٹربنس اور اس سے منسلک طوفانی اثر کی وجہ سے ، اگرچہ ان دنوں ملک کے کئی حصوں میں آندھی-بارش ہورہی ہے لیکن جلد ہی ہمیں پھر سے گرم جان لیوا ہواؤں کو جھیلنا ہے۔ یاد کریں اس سال تو مارچ کے دوسرے ہفتہ میں ہی جھارکھنڈ، اوڈیشہ سے لے کر ممبئی تک درجہ حرارت 40سے تجاوز کرگیا تھا اور ہوا جان لیوا لو(ہیٹ ویو) میں تبدیل ہونے لگی تھی۔ مختلف ریاستی حکومتوں نے لو کے تعلق سے الرٹ اور تیاری کے خطوط جاری کیے ہیں لیکن ان میں لو لگنے کے بعد علاج کے لیے اسپتال میں انتظام وغیرہ پر زیادہ زور ہے۔ لو یعنی ہیٹ ویو سے نمٹنے کے لیے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(این ڈی ایم اے) نے سبھی ریاستوں کو ایڈوائزری جاری کرکے اس سے نمٹنے کے لیے ایکشن پلان بنانے کے لیے کہا لیکن وہ کاغذات سے اوپر اٹھ نہیں پائی ہیں۔
گزشتہ دنوں مرکزی حکومت کے وزارت داخلہ کی ایک قائمہ کمیٹی نے ایک تفصیلی رپورٹ میں تجویز پیش کی تھی کہ نئی ابھرتی آفات میں لو کو بھی شامل کیا جائے۔ شری رادھا موہن داس کی صدارت میں 31ممبران پارلیمنٹ کی اس کمیٹی نے بتایا کہ 2013کے بعد دس سالوں میں 10635لوگ لو سے مارے گئے اور اب اس کا اثر وسیع ہوتا جارہا ہے۔ 2020سے 2022کے درمیان ملک میں ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے ہونے والی اموات میں اضافہ ہوا اور تعداد 530سے 730ہوگئی۔ این ڈی ایم اے کے مطابق، 2024کے ہیٹ اسٹروک سے موت کے معاملات میں 269مشتبہ تھے تو 161معاملات میں ہی تصدیق ہوپائی تھی۔ جان لیں کہ لو صرف انسان کے لیے جسمانی تکلیف/ اذیت ہی نہیں ہے، بلکہ نچلے طبقے، کھلے میں کام کرنے والے افراد جیسے ٹریفک پولیس، ٹمٹم کارکن/گگ-ورکر، رکشہ کھینچنے والے وغیرہ کے ساتھ ساتھ کسان اور مزدور کے لیے سماجی-اقتصادی طور پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے۔ لو یعنی ہیٹ ویو عام طور پر رکی ہوئی ہوا کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ہائی پریشر سسٹم ہوا کو نیچے کی جانب لے جاتا ہے۔ یہ طاقت زمین کے پاس ہوا کو بڑھنے سے روکتی ہے۔ نیچے بہتی ہوئے ہوا ایک ٹوپی کی طرح کام کرتی ہے۔ یہ گرم ہوا کو ایک جگہ پر جمع کرلیتی ہے۔ہوا کے چلے بغیر، بارش نہیں ہوسکتی ہے، گرم ہوا کو مزید گرم ہونے سے روکنے کے لیے کوئی طریقہ نہیں ہوتا ہے۔ انسان کے جسم کا اوسط درجہ حرارت 37ڈگری سیلسیس ہوتا ہے۔ جب باہر درجہ حرارت 40سے زیادہ ہو اور ہوا میں بالکل نمی نہیں ہو تو یہ مہلک لو میں بدل جاتی ہے۔ جسم میں درجہ حرارت بڑھنے سے جسم میں پانی کی کمی ہونے لگتی ہے اور اسی سے چکر آنا، کومہ میں چلے جانا، بخار، پیٹ درد، اُلٹی وغیرہ کی شکل میں لو انسان کو بیمار کرتی ہے۔ جسم میں پانی کی مقدار کم ہونے یعنی ہائیڈریشن سے اموات ہوتی ہیں۔تقریباً پانچ سال قبل حکومت ہند کی زمینی سائنس کی مرکزی وزارت کی جانب سے تیار کی گئی پہلی ’’کلائٹمیٹ چینج اسسمنٹ رپورٹ‘‘ میں خبردار کیا گیا تھا کہ 2100کے آخر تک، ہندوستان میں گرمیوں (اپریل-جون) میں چلنے والی لو یا گرم ہوائیں 3سے 4گنا زیادہ ہوسکتی ہیں۔ ان کی اوسط مدت بھی دوگنی ہونے کی امید ہے۔ اگرچہ لو کا اثر سارے ملک میں ہی بڑھے گا، لیکن گنجان آبادی والے ہند-گنگا ندی طاس کے علاقوں میں اس کا اثر شدید ہوگا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرمیوں میں مانسون کے موسم کے دوران 1951-1980کی مدت کے مقابلہ میں 1981-2011کے دوران 27فیصد زیادہ دن خشک درج کیے گئے۔ اس میں خبردار کیا گیا ہے کہ گزشتہ 6دہائی کے دوران بڑھتی گرمی اور مانسون میں کم برسات کے سبب ملک میں خشک سالی زدہ علاقوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ بالخصوص وسطی ہندوستان، جنوب-مغربی ساحل، جنوبی جزیرہ نما اور شمال-مشرقی ہندوستان کے علاقوں میں اوسطاً فی دہائی 2سے زیادہ بار کم بارش اور خشک سالی درج کی گئی۔ یہ تشویشناک ہے کہ خشک سالی سے متاثرہ علاقہ میں فی دہائی 1.3فیصد کا اضافہ ہورہا ہے۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ آب وہوا میں تبدیلی کی مار کے سبب نہ صرف خشک سالی سے متاثرہ علاقہ میں اضافہ ہوگا، بلکہ کم بارش کی تعداد میں بھی اوسطاً اضافہ ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ بین الاقوامی تنظیموں کے تعاون سے تیار کی گئی کلائمیٹ ٹرانسپیرنسی رپورٹ-2022 کے مطابق سال2021میں شدید گرمی کی وجہ سے ہندوستان میں سروس، مینوفیکچرنگ، زراعت اور تعمیرات کے شعبوں میں تقریباً13لاکھ کروڑ کا نقصان ہوا۔ رپورٹ کے مطابق، بڑھتی ہوئی گرمی کے اثر کی وجہ سے167ارب گھنٹے ممکنہ مزدوری کا نقصان ہوا، جو1999کے مقابلہ ہ39فیصد زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت میں1.5فیصد اضافہ ہونے پر سیلاب سے ہر سال ہونے والے نقصان میں 49فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی طوفان سے ہونے والی تباہی میں بھی اضافہ ہوگا۔ لینسیٹ کاؤنٹ ڈاؤن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں 2000-2004 اور2017-21کے درمیان شدید گرمی سے ہونے والی اموات کی تعداد میں55فیصد اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر ہیٹ ویو میں اضافہ ہوا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے سے صحت کے نظام پر مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔مارچ-2024 میں اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن(FAO) نے ہندوستان میں ایک لاکھ لوگوں کا سروے کرکے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ گرمی/لو کی وجہ سے غریب خاندانوں کو امیروں کے مقابلے پانچ فیصد زیادہ معاشی نقصان ہوگا۔ کیونکہ معاشی طور پر خوشحال لوگ اپنے کام کو بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے مطابق ڈھال لیتے ہیں جب کہ غریب لوگ ایسا نہیں کرپاتے۔اتنی ساری رپورٹس اور انتباہات کے باوجود اب تک ہم کوئی مناسب لائحہ عمل کیوں نہیں بنا پائے؟ احمدآباد میونسپل کارپوریشن نے 2013میں ہی،اپنے تمام بڑے باغات-باغیچے دن میں ایک سے 5بجے تک ریہڑی، پٹری والوں اور دیگر کھلے میں کام کرنے والوں کے لیے کھول دیے۔ اس سے کھلے میں کام کرنے والوں کو شدید گرمی کے اوقات میں درختوں کے سائے میں بہتر ماحول میں رہنے کا موقع مل جاتا ہے۔ حال ہی میں ممبئی میں بھی سڑکوں پر کاروبار کرنے والوں نے ایسے ہی پارک کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا تجربہ ہے جس میں بغیر کسی اضافی لاگت کے موجودہ ڈھانچے میں لو کی مار سے بچنے کا ایک طاقتور حل فراہم کیا۔ اوڈیشہ کے کچھ شہروں میںٹریفک کی ریڈلائٹس پر سبز شفاف شیڈز لگائے گئے، جس سے دو پہیہ گاڑیوں کے سواروں کو کچھ راحت ملی۔ عوام کے لیے پینے کے پانی کی سہولت زیادہ سے زیادہ فراہم کرانا لو کو بڑی ٹکر دے سکتی ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ جس طرح سے موسم کا مزاج بدل رہا ہے، اس کی وجہ سے ہمیں بے قاعدہ اور شدید موسم کے طور پر درجہ حرارت میں اضافے کا سامنا کرنا ہی ہے،۔ غور طلب ہے کہ جن علاقوں میں گرمی کی لہر سے لوگ مر رہے ہیں، وہاں گنگا اور دیگر بڑے آبی وسائل کا جال بچھا ہوا ہے۔ اس کے باوجود وہاں گرمی کی لہر برقرار ہے۔ اول تو ان علاقوں میں ہریالی کم ہو رہی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ پانی کے وسائل جیسے تالاب، چھوٹے دریا اور نہریں یا تو کم ہیں یا ختم ہو چکی ہیں۔ کنکریٹ کے ڈھانچے نے بھی گرم ہواؤں سے ہلاکت خیزی میں اضافہ کیا ہے۔
[email protected]