ایم اے کنول جعفری
30اپریل 2025کو وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ کی میٹنگ میں آئندہ ہونے والی مردم شماری کے ساتھ ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کا فیصلہ لیا گیا۔اسے لے کر کافی عرصے سے سیاسی داؤ پیچ چل رہے تھے۔ اسے پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی، سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش کمار یادو، آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو اورتمل ناڈو کے وزیراعلیٰ و ڈی ایم کے قائد ایم کے اسٹالن کی بڑی فتح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ہندوستان جیسے متنوع ملک میں ذات پات سماجی ڈھانچے کا اہم حصہ رہی ہے،لیکن 1931کے بعد سے اسے کبھی بھی باقاعدگی سے نہیں کرایا گیا۔ ذات پر مبنی اعدادوشمار کی کمی پالیسی سازی میں رُکاوٹ ہے اور اس نے بعض اوقات تحفظات، سماجی بہبود کی اسکیموں اوروسائل کی تقسیم میں عدم مساوات کوواضح کیا ہے۔ حکومت کے سامنے ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کا اہم موقع ہے۔پہلگام مسئلہ پر ہندوپاک کے درمیان زبردست کشیدگی ہے۔حملے کے خاطی ابھی بھی پکڑ سے دُور ہیں۔حکومت پر انہیں کیفرکردار تک پہنچانے کا دباؤ ہے۔بہار کے اسمبلی انتخابات کا اعلان کبھی بھی ہو سکتا ہے۔ ایسے میں مرکزی حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان کر کے اپوزیشن کے ہاتھ سے ایک اہم سیاسی و انتخابی موضوع چھین لیا ہے۔ ابھی حکومت کی جانب سے مردم شماری کے آغاز کا اعلان نہیں کیا گیا،لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری کو ابھی نہیں، بلکہ2027میں ہی شروع کرایا جا سکے گا،تب اترپردیش میں اسمبلی انتخابات بھی ہونے ہیں۔ تاخیر کا سبب یہ ہے کہ اس کے عمل کو حتمی شکل دینے سے پہلے کئی تکنیکی مسائل حل کرناہوں گے۔ 2011 کی مردم شماری میں 46لاکھ ذاتوں کا انکشاف ہوا تھا،جو کہ1931کی مردم شماری کے دوران شناخت کی گئی 4,147 ذاتوں سے بہت زیادہ تھی۔ایسے تکنیکی مسائل حل کرنے کے لیے کافی تیاری کرنی ہوگی۔ مردم شماری کے لیے اس سال کے بجٹ میں صرف 575کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جب کہ اس پروجیکٹ پر22ہزارکروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت آئے گی۔ذات پر مبنی مردم شماری کے اعلان کے بعد اپوزیشن کے رہنما راہل گاندھی نے اس فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے سرکار سے اس کی ڈیڈ لائن متعین کرنے کو کہا ہے۔سیاسی امور کی کابینہ کمیٹی(سپرکیبنٹ) میں مرکزی کابینہ کے سرکردہ وزرا شامل ہوتے ہیں۔ کمیٹی میں پی ایم کے علاوہ وزیردفاع راج ناتھ سنگھ، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ، مرکزی وزیر برائے سڑک و ٹرانسپورٹ نتن گڈکری،مرکزی وزیر مالیات نرملا سیتارمن اور مرکزی وزیر برائے کامرس پیوش گوئل شامل رہے۔ اشونی ویشنو کے مطابق ذات پر مبنی مردم شماری کے فیصلے کو تاریخی قدم تصور کیا جا رہا ہے،کیوں کہ اب تک ذات پر مبنی مردم شماری بنیادی مردم شماری کا حصہ نہیں رہی۔ کچھ ریاستوں نے نجی سطح پر ذات پر مبنی سروے کرائے،لیکن سماجی تانے بانے کو سمجھنے کے لیے ایک مجموعی نظریہ ضروری ہے۔
ذات پر مبنی مردم شماری اور ذات پر مبنی سروے میں واضح فرق ہے۔ مرکزی حکومت نے ملک بھر میں ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس کے بعد اس فیصلے کا کریڈٹ لینے کی ہوڑ سی لگ گئی۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اُس نے بہار سے کرناٹک تک ذات پر مبنی مردم شماری کرائی۔اَب وزیراعظم ان کے ہی فیصلے کو نافذ کر رہے ہیں۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ریاستوں میں کرائی گئی مردم شماری ذات پر مبنی سروے ہے،جب کہ مرکزی حکومت کے ذریعہ کرائی جانے والی اس طرح کی مردم شماری ذات پر مبنی مردم شماری کہلاتی ہے۔دراصل ’کاسٹ سروے‘ ریاستی حکومت کے ذریعہ کرایا جاتا ہے۔ یہ صرف ایک ریاست میں کیا جاتا ہے۔وہاں لوگوں کی ذات معلوم کی جاتی ہے اور اسے درج کیا جاتا ہے۔بہار اور کرناٹک سمیت کئی ریاستوں میں اسی طرز پر سروے کرایا گیا تھا۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ صرف چند ہزار افرادیا لاکھوں لوگوں کی گنتی کرکے اس نمونے کی بنیاد پر پوری ریاست کی ذات کا اعلان کیا جاتا ہے۔اس میںہر شخص کا شمار نہیں کیاجاتا،جب کہ ذات پر مبنی مردم شماری میں ہر ایک فرد کی گنتی کی جاتی ہے۔ذات کا سروے قانونی طور پر مردم شماری نہیں ہے۔ اسکیموں کی منصوبہ بندی کرتے وقت صرف ریاستی حکومت ہی اس کا استعمال کر سکتی ہے۔قانونی طور پر یہ کسی چیز کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان اعدادوشمارکا قابل بھروسہ نہیں ہونا ہے۔دوسری جانب مرکزی حکومت کے ذریعہ کرائی جانے والی ذات پر مبنی مردم شماری میں ہرایک شخص کی مکمل تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔ معاشی اور سماجی حیثیت کی تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔ذات پر مبنی مردم شماری آئین کے تحت کی جاتی ہے۔یہ قومی سطح اور قانونی طور پر درست اورلائق پابند ہوتی ہے۔اس میںجو اعدادوشمار سامنے آئیں گے، ریاستی حکومتوں کو انہیں نہ صرف قبول کرنا ہوگا،بلکہ اسی کی بنیاد پر روڈمیپ اور پلان تیار کرنے ہوں گے۔
دراصل، اس سے قبل ذات پر مبنی مردم شماری 1931 میں کی گئی تھی۔اس کے بعد ذات پر مبنی مردم شماری کی نوبت نہیں آئی۔ آزادی کے بعد اسے ذات پر مبنی پہلی مردم شماری کہا جا رہا ہے۔ 1951میں آزاد ہندوستان کی پہلی مردم شماری کرائی گئی تھی۔ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی قیادت والی حکومت نے درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کو چھوڑکر کسی بھی ذات کو شمار نہیں کرانے کا فیصلہ لیا تھا۔ ہر10 برس میں ہونے والی مردم شماری اس دہائی کی شروعات میں وبائی مرض کورونا وائرس کی بنا پرشروع نہیں ہوپائی تھی۔2011کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی کل آبادی121کروڑ تھی۔ان میں مردوں کی تعداد62.37کروڑ تھی۔1000مردوں کی نسبت خواتین کی گنتی940تھی۔ کل آبادی کی خواندہ شرح74.04 فیصد تھی۔ دیہی علاقوں کی آبادی 83.3 کروڑ (68.84فیصد) تھی، جب کہ شہری علاقوں کی آبادی 37.7 کروڑ(31.16فیصد) تھی۔آبادی کی کثافت ایک مربع کلومیٹر میں 382افراد تھی۔اگرمردم شماری کے بارے میں بات کریں تو یہ رپورٹ 2031 میں سامنے آئے گی۔ اگر وقت سے پہلے مردم شماری نہیں ہوئی تو2029میں بننے والی سرکار کے وقت میں یہ پوری ہو پائے گی۔
ہندوستان میں ذات پات کا نظام کافی پرانا اورایک مضبوط سماجی ڈھانچے کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ تعلیم، روزگار، سیاست اور سیاسی نمائندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ذات پر مبنی مردم شماری ایک سماجی، قانونی،معاشی،انتظامی اور اخلاقی ضرورت ہے، اس کے تناظر میں پسماندہ طبقات،دلتوں اور آدیواسیوں کو درپیش تاریخی ناانصافیوں کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔مردم شماری درست اعدادوشمار فراہم کرانے کا ذریعہ ہے۔اس کے ذیل میں مختلف طبقات کے لیے عدل و انصاف پر مبنی بہتر فلاحی پالیسیز بنائی جا سکتی ہیں اور محروم طبقات کی سماجی و معاشی ترقی کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک سچائی ہے کہ صرف وہی چیز بہتر طور پر نظم و نسق کا حصہ بن سکتی ہے،جس کے ناپنے کا کوئی نہ کوئی پیمانہ موجود ہو۔ذات پر مبنی اعدادوشمار پالیسی سازی اور ہمہ گیرترقی کے لیے لازمی ہے۔اس سے نجی شعبے کے بڑھتے ہوئے کردار اور سرکاری ملازمتوں میں کمی کے پس منظر میں محروم طبقات کے لیے ریزرویشن پالیسیوں کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔اس سے قبل حکومت درج فہرست ذات اور درج قبائل سے آگے ذات پات شمار کرانے کے حق میں نہیں تھی لیکن اب اسے تسلیم کرلیاگیاہے۔اگر اس عمل کو شفاف،مکمل اور سیاسی مفادپرستی سے پاک رکھا جائے اور اس کا استعمال سماجی بہبود میں ہوتو اس سے سماجی واقتصادی پالیسیوں کو مزید مؤثر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔یہ تبھی ممکن ہے جب حکومت،سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی متحد ہوکر ملک کو ایک مساوی معاشرے کی طرف لے جانے کے لیے ایمانداری سے کام کریں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]
ذات پر مبنی مردم شماری کی اہمیت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS