دروز طبقہ کے دفاع کا بہانہ اور اسرائیل کی شام میں مداخلت کے مقاصد

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ

اسرائیل نے ملک شام میں اپنی مجرمانہ جارحیت کا سلسلہ گزشتہ چند دنوں میں از سر نو طریقہ سے دراز کر دیا ہے۔ اس حملہ کا آغاز اسرائیل نے جمعہ کی شب میں کیا تھا اور یہ سلسلہ پوری رات تک جاری رہا۔ مانا جا رہا ہے کہ طویل مدت میں شام پر اسرائیل کے جو حملے ہوتے رہے ہیں ان میں حالیہ جارحیت سب سے شدید اور سخت ہے۔ اسرائیلی میڈیا ان حملوں کو ’خفیہ آپریشنز‘ کے نام سے ذکر کرتا ہے۔ اس آپریشن کے تحت دروز طبقہ کے لئے امدادی اشیاء کی فراہمی، ان کے زخمیوں کو علاج معالجہ کی غرض سے اسرائیل منتقل کرنا اور ان کے علاوہ بھی کئی دیگر امور ہیں جن کی تفصیل پیش نہیں کی جارہی ہے۔ میڈیا سے معلوم پڑتا ہے کہ جنوبی شام کے سویداء علاقہ میں جہاں دروز بستے ہیں اسرائیل نے وہاں امدادی سامان فراہم کیا ہے اور ان کے 5 زخمیوں کو علاج کے لئے اسرائیل منتقل کیا گیا ہے۔ اس حملہ میں اسرائیل نے جن علاقوں اور مقامات کو نشانہ بنایا ہے ان میں عسکری ٹھکانے، اینٹی ایئرلائن سسٹم، زمین سے فضاء میں مار کرنے والے میزائلوں کو تیار کرنے کی فیکٹریاں شامل ہیں۔ اسرائیلی فوج نے خود شام میں جاری ان حملوں کی جو تفصیلات دی ہے ان کے مطابق دمشق میں صدارتی محل سے بالکل قریب ہی بمباری کے بعد 24 گھنٹہ کی مدت بھی نہیں گزری تھی کہ اسرائیل نے شام کے اندر اپنے فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا اور بہانہ یہ بنایا کہ ان حملوں کا مقصد دروز اقلیتی طبقہ کی حفاظت ہے جیسا کہ اسرائیل کی وارننگ سے اندازہ ہوتا ہے۔ اسرائیل نے شام کے نئے حکام کو دھمکی آمیز الفاظ میں یہ کہا ہے کہ ملک شام کی دروز اقلیت کو کوئی گزند نہ پہنچنے پائے۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے دروز کا سہارا اس وقت میں لیا ہے جب شام کے دروز طبقہ کے ساتھ بعض علاقوں میں فرقہ وارانہ جھڑپوں کی خبر شام سے آ رہی تھی۔ اسی کے بعد شام میں یہ حملے کئے گئے اور ان مقامات یا ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جن کی طرف اوپر کی سطروں میں اشارہ کیا گیا ہے۔ لیکن صرف انہی مقامات کو نشانہ بنانے پر اسرائیل اکتفاء نہیں کر رہا ہے بلکہ اسرائیلی میڈیا ہاؤس ’کان‘ کے مطابق اسرائیل مزید عسکری اور سرکاری ٹھکانوں کی ایک فہرست تیار کر رہا ہے جن پر آنے والے دنوں میں حملے کئے جائیں گے۔ اسرائیلی فوج کے بیان سے قبل شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’سانا‘ نے اپنے بیان میں اسرائیل کے فضائی حملوں میں جن مقامات کو نشانہ بنانے کا ذکر کیا تھا ان میں دمشق کے قرب و جوار کے علاقے، لاذقیہ اور مغربی شام کا علاقہ حماء اور جنوبی شام کا حصہ درعا شامل تھے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اس وقت بھی شام کے جنوبی حصہ میں وہ موجود ہیں اور دروز کے گاؤں اور علاقوں میں ’دروز مخالف فورسز‘کے داخلہ کو روکنے کے لئے تیار ہیں۔ اسرائیل کی نظر میں شام کی موجودہ سرکار ’دروز مخالف‘ ہے اور اسی لئے ان کا تحفظ اسرائیل اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ یہ ایک ایسی منطق ہے جس کا استعمال شام کے اندر مداخلت کے لئے قطعا نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس وقت مشرق وسطی جس بحران سے گزر رہا ہے اور مغرب و امریکہ کی پشت پناہی میں اسرائیل نے تمام قوانین کو جس طرح پس پشت ڈال دیا ہے اس کی روشنی میں یہ سب کچھ دائر امکان میں داخل ہے۔

شام میں جو یہ نئی پیش رفت ہوئی ہے اس کو تجزیہ نگار ایک اہم تبدیلی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اسرائیلی تجزیہ نگار آفی اشکنازی کے بقول شام میں اسرائیل کی حالیہ مداخلت کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اسرائیل نے شام کے دروز طبقہ کو ایک ایسے عامل و عنصر کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا ہے جن کی مدد سے گولان ہائٹ کے شمالی حصہ میں استحکام پیدا کیا جا سکتا ہے کیونکہ اسرائیل کے طرز فکر کے مطابق اسرائیلی سرحد سے لے کر شام کے اندر 80 کیلو میٹر تک کے علاقہ کا ہتھیار سے خالی رہنا اسرائیل کی سالمیت کے لئے ضروری ہے۔ اب چونکہ شام کے دروز اسی زمینی پٹی پر بسے ہوئے ہیں جو اسرائیل کو شام سے الگ کرتی ہے اس لئے دروز کو تعاون فراہم کرنے کا بہانہ بناکر شام میں اسرائیل کی جارحانہ مداخلت جاری کی گئی ہے۔ ایک دوسرا سبب خود اسرائیل میں بسنے والے دروز کا نتن یاہو سرکار پر استعمال کیا جانے والا دباؤ ہو سکتا ہے کیونکہ اسرائیل میں اس وقت تقریبا ایک لاکھ 50 ہزار دروز رہ رہے ہیں اور ان کا دباؤ ہے کہ ان کے ہم عقیدہ بھائیوں کی مدد اسرائیل کرے۔ گزشتہ جمعرات اور جمعہ کو دروز طبقہ نے اسرائیل کی سڑکوں پر نکل کر اپنا احتجاج بھی درج کرایا تھا اور مدد کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اسرائیلی دروز کے روحانی پیشوا شیخ موفق الدین اور ان کے نائب حمد عمار نے جب احتجاجیوں سے اپیل کی کہ وہ معاملہ کو زیادہ طول نہ دیں تو یہ احتجاج رک گئے لیکن اسرائیل کو حملوں کے جواز کے لئے اتنا اشارہ بھی کافی تھا۔ کیونکہ دروز رہنما نے خود نتن یاہو کو فون کرکے اس بات کے لئے ان کا شکریہ ادا کیا تھا کہ انہوں نے شام کے دروز کی حمایت کے احکام جاری کئے تھے۔ دمشق میں صدارتی محل کے قریب کئے گئے اسرائیلی حملہ کا ذکر بھی اس ضمن میں کیا گیا تھا۔ ان معلومات کو خود اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے عام کیا ہے۔ نتن یاہو نے بھی شام میں کئے گئے اسرائیلی حملوں کو دروز کے دفاع کے لئے کیا جانے والا آپریشن قرار دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ اسرائیل اس بات کو کبھی قبول نہیں کرے گا کہ دمشق کے جنوب میں شامی فورسز کا وجود رہے یا پھر دروز طبقہ کو کوئی گزند پہنچایا جائے۔ ذرا غور سے اس بیان کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ نتن یاہو کا یہ بہانہ نہایت کمزور ہے کیونکہ اس کو دروز کے بہانے کی قطعا ضرورت نہیں ہے۔ جب سے انقلاب پسندوں نے بشار الاسد کو شام کے تخت سے اتارا ہے تب سے لے کر اب تک اسرائیل نے شام کے الگ الگ عسکری ٹھکانوں پر سینکڑوں بار حملے کر چکا ہے اور شام کی طرف کا وہ خطہ جو ہتھیار سے خالی مانا جاتا ہے وہاں بھی اپنی فوجیں بھیج دی ہیں۔تو آخر ان حملوں کا مقصد کیا ہے؟ اسرائیلی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ کے تجزیہ نگار رون بن یشای کے مطابق شامی زمینوں پر اسرائیل کے حالیہ حملوں کے بنیادی مقاصد دو ہیں: ایک تو بشار الاسد کی فوج کے بچے کھچے ان اسٹراٹیجک ہتھیاروں کے سسٹم کو تباہ کرنا جن کا استعمال اسرائیل کے خلاف کئے جانے کا امکان ہے۔ اس کا دوسرا مقصد شام کے نئے صدر احمد الشرع اور ان کی حکومت کو یہ پیغام دینا ہے کہ دروز کو نشانہ بنانا بند کرنا ہوگا۔ رون کا مزید کہنا یہ ہے کہ شام کے اسٹراٹیجک ہتھیار سسٹم کو ختم کرنے کی ضرورت اس لئے ہے کیونکہ اسرائیل کو خوف ہے کہ احمد الشرع بشار الاسد کی فوج کے ان افسروں کی بھرتی اپنی نئی فوج میں کر سکتے ہیں جن کو ان ہتھیاروں کو چلانے کا تجربہ ہے۔ چونکہ جزئی طور پر ان ہتھیاروں میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل اور راڈار کا نظام شامل ہے، جس کا استعمال ماضی میں اسرائیل کے خلاف بھی کیا جا چکا ہے لہٰذا آئندہ بھی یہ حملہ ہوسکتا ہے اور اسی لئے ان کو ختم کرنا ضروری ہے۔ راڈار سسٹم کو ختم کرنا اسرائیل بطور خاص اس لئے ضروری سمجھتا ہے کیونکہ اس کی موجودگی میں اسرائیلی جنگی طیاروں کو شام کی فضاء میں پرواز کرنے کی وہ آزادی حاصل نہیں رہے گی جو اس کو ابھی حاصل ہے اور اسی لئے ان کو نشانہ بناکر ختم کیا جا رہا ہے۔ اب چونکہ اسرائیل کو اس بار دروز کا بہانہ آسانی سے ہاتھ آگیا ہے اس لئے اس کو استعمال کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل میں لگ گیا ہے لیکن دروز کو ملنے والی یہ اسرائیلی حمایت خود اس طبقہ کے لئے فال خیر ثابت نہیں ہوگی کیونکہ ایسی صورت میں انہیں اسرائیل کا حلیف اور شامی اراضی کی سالمیت کو نقصان پہنچانے والے عناصر کے طور پر دیکھا جائے گا۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ دروز بطور اقلیت کے اسرائیل کے ساتھ ہے؟ تاریخ بتاتی ہے کہ معاملہ ایسا نہیں ہے۔ ماضی میں جب بشار کا نظام قائم تھا اس وقت بھی دروز کسی ایک پالیسی کے ساتھ اتحاد نہیں رکھتے تھے۔ دروز اس اعتبار سے منقسم تھے کہ کچھ لوگ بشار کی فوج میں شامل اور نظام کا دفاع کر رہے تھے تو ایک طبقہ انقلاب پسندوں کے ساتھ تھا اور نظام کے خلاف بر سر پیکار تھا۔ اس لئے اسرائیل کا یہ گیم پلان بہت موثر ثابت نہیں ہوگا۔ اس موقف کا اظہار وہ اسرائیلی ماہرین بھی کر رہے ہیں جو نتن یاہو کی سرکار یا اسرائیلی دفاعی انسٹی ٹیوشن کے دائرہ سے باہر ہیں۔ وہ اپنے اس خدشہ کا اظہار کر رہے ہیں کہ نتن یاہو کی شام کے تئیں یہ جارحانہ پالیسی اسرائیل کی فوج کو خطرہ میں ڈال دے گی۔ اس کے برعکس اسرائیل کے سیکورٹی اہلکار یہ دعوی کر رہے ہیں کہ ہمارا موقف واضح ہے کہ دمشق کے جنوب اور درعا کے مغرب کے علاقوں میں مسلح تشدد پسندوں کو اکٹھا نہیں ہونے دیں گے کیونکہ اب وہ نہیں چاہتے کہ مستقبل میں پھر 7 اکتوبر جیسا کوئی حملہ اسرائیل کو جھیلنا پڑے۔ اب یہ شام کی نئی حکومت کا امتحان ہے کہ وہ اس چیلنج کو کیسے حل کرتی ہے۔ اس کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ دروز کے علاوہ باقی دیگر شامی اقلیتوں کے ساتھ اپنی بات چیت کا سلسلہ مستقل جاری رکھے اور اس مسئلہ کو حل کرے تاکہ اسرائیل دروز یا کسی دوسری اقلیت کو مستقبل میں استعمال کرکے اس کی سالمیت کو نقصان نہ پہنچائے۔ ایسا کرنا اس لئے ضروری ہے کیونکہ ایک مستحکم مشرق وسطی کے لئے شام کلیدی رول ادا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔

(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائی لاگ کے ویزیٹنگ فیلو ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS