مرکزی کابینہ نے آج اچانک اور غیر متوقع طور پر ذات پات کی مردم شماری کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف ہندوستانی سیاست کے موجودہ منظرنامے کو جھنجھوڑ دینے والا قدم ہے بلکہ ایک ایسے حساس سماجی مسئلے کو انتخابی بساط پر بڑی مہارت سے استعمال کرنے کی چال بھی ہے،جو اب تک صرف اپوزیشن کے ترکش کا کارگر تیر سمجھا جاتا تھا۔ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت نے ذات پات کی مردم شماری کی منظوری دے کر نہ صرف اپوزیشن کا بیانیہ اپنے نام کیا ہے بلکہ اپنی انتخابی حکمت عملی میں ایک زبردست ہتھیار بھی شامل کر لیا ہے جو خاص طور پر بہار جیسی ذات پر مبنی سیاسی ریاستوں میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔
راہل گاندھی اور ان کی پارٹی کانگریس کیلئے یہ فیصلہ کسی سیاسی دھچکے سے کم نہیں۔ ’جتنی آبادی اتنا حق‘ جیسے نعرے اور 50 فیصد سے زیادہ ریزرویشن کی وکالت جسے راہل گاندھی برسوں سے عوامی خطابات کا مرکزی نکتہ بنائے ہوئے تھے،اب ایک لمحے میں حکومت کے فیصلے کی گرد میں دب کر رہ گئے ہیں۔ یہی مطالبہ جب کانگریس، آرجے ڈی، ایس پی اور دیگر جماعتیں اٹھا رہی تھیں تو بی جے پی کی خاموشی ایک مستقل پالیسی سمجھی جا رہی تھی۔ لیکن یہ خاموشی دراصل ایک منصوبہ بند حکمت عملی تھی،جس کا مظاہرہ آج اس وقت ہوا جب مرکزی کابینہ کی سیاسی امور کی کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیر اشونی ویشنو نے اعلان کیا کہ آئندہ مردم شماری میں ذات پات کی تفصیلات شامل ہوں گی۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب بہار اسمبلی انتخابات قریب ہیں اور ریاست کی 63 فیصد آبادی او بی سی اور دیگر پسماندہ طبقات پر مشتمل ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت یہ اقدام سیاسی جوئے کے مترادف ہے،لیکن ایک ایسا جوا جس میں بی جے پی نے مخالف کے کارڈ چرا کر بازی اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ اب آر جے ڈی اور کانگریس جیسی جماعتیں جو اس مطالبے کی علمبردار تھیں،اپنے ہی مطالبے کو بی جے پی کے وعدے میں تبدیل ہوتا دیکھ کر بے بس سی نظر آ رہی ہیں۔
ایک بڑا اندیشہ یہ بھی ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر بٹے ہوئے معاشرے میںاس فیصلہ سے مزید خلیج پیدا ہوسکتی ہے۔ سیاسی جماعتیں اس ڈیٹا کا استعمال اپنی انتخابی انجینئرنگ کیلئے کر سکتی ہیںجس سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو جائے۔ مگر اس کے باوجود،جب ایک سماج میں دہائیوں سے بعض طبقات کو ان کی حقیقی تعداد کے تناسب سے وسائل اور مواقع میسر نہ ہوں تو اس نابرابری کو دور کرنے کیلئے واضح،جامع اور شفاف اعداد و شمار ناگزیر ہو جاتے ہیں۔
موجودہ حکومت کا یہ فیصلہ، جو بظاہر سماجی انصاف کی راہ ہموار کرتا نظر آتا ہے،درحقیقت ایک چالاک سیاسی چال ہے۔ کیوں کہ اسی بی جے پی نے گزشتہ ایک دہائی میں ذات پر مبنی کسی بھی سروے کو یا تو درخور اعتنا نہیں سمجھا یا پھر اسے سیاسی موقع پرستی قرار دیا۔ 2010 میں جب منموہن سنگھ کی حکومت نے اس پر غور کرنے کا عندیہ دیاتو بی جے پی نے رکاوٹیں کھڑی کر کے اسے غیر مؤثر بنانے کی کوشش کی۔ یہ بھی دلچسپ ہے کہ نتیش کمار کی حکومت پہلے ہی بہار میں ذات پات کی مردم شماری کرا چکی ہے اور اس کے نتائج نے ظاہر کیا ہے کہ او بی سی اور ای بی سی کی آبادی ریاست میں اکثریت میں ہے۔
بی جے پی نے اس وقت ذات پات کی مردم شماری کا اعلان کر کے ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں، اپوزیشن کی مہم کو کمزور کیا، اپنی سماجی انصاف پسندی کا مظاہرہ کیا اور انتخابی میدان میں ایک نیا بیانیہ کھڑا کر دیا۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ذات پات کی مردم شماری محض اعلان سے نہیں بلکہ اس کی شفاف تکمیل، اعداد و شمار کی آزادانہ اشاعت اور ان پر مبنی پالیسی سازی سے ہی اپنے مقصد کو حاصل کرے گی۔
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مردم شماری صرف اعداد و شمار جمع کرنے کا عمل نہیں بلکہ ایک سماجی و سیاسی آئینہ ہوتا ہے جو پالیسی سازی، ریزرویشن، بجٹ کی تقسیم اور فلاحی اسکیمات کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ 2011 کے بعد سے ملک میں کوئی باضابطہ مردم شماری نہیں ہوئی۔ 2021 میں متوقع مردم شماری کووڈ وبا کے نام پر التوا میں ڈال دی گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی عدم موجودگی نے ملک کی اقتصادی و سماجی منصوبہ بندی کو اندھیرے میں دھکیل دیا ہے۔
لہٰذا اگر حکومت واقعی اس فیصلے کو محض انتخابی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے،سماجی انصاف کے حقیقی جذبے کے تحت نافذ کرے تو یہ ہندوستانی جمہوریت کیلئے ایک تاریخی موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر،یہ بھی ایک سیاسی موقع پرستی کی مثال بن کر رہ جائے گا،جہاں ذات کی پہچان کو ووٹ کی پرچی پر تولنے کی ایک اور کوشش کی گئی۔