ڈاکٹر سیّد احمد قادری
کشمیر کے پلوامہ کے بعد گزشتہ 22؍ اپریل کو پہلگام میں دہشت گردوں کا بڑا حملہ ہوا ہے ،جس میں دہشت گردوں نے 28 معصوم انسانوں کو اپنی حیوانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہلاک کیا ہے ۔ جس کی کشمیر سمیت پورے اور بیرون ممالک میں سخت مذمت کی جا رہی ہے ۔ کوئی بھی انسان جو امن پسند ہے وہ ایسے وحشیانہ اور غیر انسانی حرکت کی مذمت کرے گا ہی اور ایسا ہو بھی رہا ہے ۔ ایسے انسانیت کے دشمنوں کو سخت سے سخت سزا دئے جانے کا مطالبہ بھی بالکل حق بجانب ہے تاکہ پھر کوئی ایسی دہشت گردانہ حملے کی ہمت و جرأت نہ کرے ۔اس خیال کے آتے ہی ذہن میں ایک خیال کوندتا ہے کہ اگر 14؍فروری 2019کو پلوامہ حملہ میں جس میں نیم فوجی دستہ سی آر پی کے 40 سے زیادہ جوانوں کو شہید کر دیا گیا تھا، جس کا رد عمل پورے ملک میں شدید طور پر ہوا تھا اور سخت سیکورٹی کے باوجود بڑی مقدار میں آر ڈی ایکس لانے والوں اور حملہ کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا دئے جانے کا مطالبہ کیاگیا تھا ۔اس وقت جموں وکشمیر کے گورنر کے عہدہ پر فائز رہنے والے ستیہ پال ملک نے اس وحشیانہ حملہ کی مذمت کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ’یہ حملہ حکومت کی لاپروائی کا نتیجہ ہے ۔‘ یہ لاپروائی کیا تھی ؟ یہ ساری باتیں سامنے آ چکی ہیں جن کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ستیہ پال ملک نے کہا تھا کہ اگر ان نیم فوجی دستہ کے مطالبہ کو مان لیا جاتا اور انھیں بس کی بجائے طیارہ فراہم کر دیا جاتا تو ممکن تھا کہ ایسے حملے سے ہمارے فوجی محفوظ رہتے، لیکن اس حملہ کے بعد سبق لینے ، چاق و چوبند انتظامات کئے جانے کے بجائے ان 40جوانوں کی شہادت کا جس طرح سیاسی فائدہ اٹھانے کی منظم کوششیں کی گئیں وہ انتہائی نامناسب اور غیر انسانی تھا ۔ سب سے زیادہ افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ اس حملہ کے دہشت گردوں کو پکڑنا اور کیفر کردار تک پہنچانا تو دور ابھی تک ان کی نشاندہی تک نہیں کی جا سکی ہے ۔ جو حد درجہ افسوسناک ہے ۔ اگر اس خطرناک حملہ سے سبق لیا گیا ہوتا اور بلا وجہ بار بار اس بات کا اظہار نہیں کیا جاتا کہ ’نوٹ بندی‘ سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا یا 370 کے خاتمہ کے بعد یہ دعویٰ کہ اب وادی کشمیرسے دہشت گردی پنپ نہیں پائے گی ۔ ایسے کھوکھلے دعوے اور وعدے ہورہے تھے کہ لگا کہ370 کے خاتمہ کے بعد پورے وادی کشمیر میں امن و مان قائم ہو جائے گا، لیکن ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا، بلکہ وادی کشمیر کے چپہ چپہ پر نیم فوجیوں اور پولیس والوں کی تعیناتی ہمیشہ دیکھنے کو ملتی رہی۔ حفاظتی انتظام کی ہی ایک مثال یہ بھی دیکھنے کو ملی کہ پہلگام سانحہ سے چند روز قبل ہی ایک ممبر پارلیمنٹ نشی کانت دوبے کی شادی کی سالگرہ کے موقع پر گلمرگ میں کی جانے والی تقریب میں بھی حفاظتی دستہ پوری طرح تعینات کیا گیا تھا، لیکن افسوس کہ پہلگام کے بیسرن میں منگل کے روز جہاں ہزاروں کی تعداد میں ملک و بیرون ملک سے سیاح اپنی بیوی بچوں اور دوستوں کے ساتھ سیاحت کے لئے آتے ہیں وہاں پر ان سیاحوں کی حفاظت کے لئے کسی طرح کا حفاظتی انتظام نہیں تھا ۔ کیوں نہیں تھا ؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔ یہی سوال اس سانحہ میں مرنے والوں میں سے ایک کی بہن نے روتے ہوئے پوچھا ہے کہ اس علاقہ میں کوئی بھی سیاحوں کی حفاظت کے لئے تعینات نہیں تھا۔ میرا بھائی زخموں سے ڈیڑھ گھنٹہ تک تڑپتا رہا اگر اسے کسی طرح کی مدد مل جاتی تو میرا بھائی نہیں مرتا ۔؟ ایسے بہت سارے سوال ہیں جو اس سانحہ کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں ، جنھیں سامنے لانے کی ضرورت ہے، آپ لوگوںکویہ جاننا ضروری ہے کہ پہلگام جیسا دہشت گردی سے بھرا سانحہ پہلی بار وادی کشمیر میں نہیں دیکھا گیاہے ۔ اس سانحہ سے قبل کٹھوعہ ، اُری ، پٹھان کوٹ ، کلگام ، امر ناتھ یاترا کے دوران حملے ہوچکے ہیں، لیکن افسوس کہ اتنے سارے سانحات ہوجانے کے باوجود اور اس بات کی ہمیشہ خوف رہنے کے باجود کہ کشمیر کی ایک جانب جہاں پاکستان ہے وہیں دوسری طرف ہمارا ہمسایہ ملک چین بھی ہے ،جہاں سے دہشت گرد وں کی دراندازی ہوتی رہتی ہے اور یہی وہ دو ممالک ہیں جن سے بھارت کی جنگیں بھی ہو چکی ہیں ۔ ایسے میں بارڈر پر اتنے سخت انتظامات ہونے چاہئیںکہ ’پرندہ پر بھی نہ مار سکے‘ ،لیکن پڑوسی ملک اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے ٹرک میں آر ڈی ایکس بھر کر لاتا ہے ، خون خرابہ کرتا ہے اور پھر روپوش ہو جاتا ہے ۔ تعجب ہے کہ اتنے سخت حفاظتی انتظامات کے دعوے کے باوجود پہلگام میں بھی پانچ کی تعداد میں دہشت گرد آئے اور کشمیر کی خوبصورت وادیوں کی سیر کرتے ہوئے لوگوں سے ان کا ’مذہب پوچھ ‘ کر اور ’کلمہ پڑھوا کر‘ گولیاں چلائیں ، جس کے نتیجہ میں 28بے گناہ اور معصوم لوگوں کی قیمتی جانیں چلی گئیں ۔ سیلانیوں کی جان بچانے والوں میں خچر کا مالک اور کلمہ گو سیدعادل شاہ کے ساتھ ساتھ کپڑوں کا تاجر نوجوان نزاکت علی بھی ہے جس نے11 سیاحوں کی جان بچا کر اپنی شجاعت کی مثال قائم کی ہے۔ان نوجوانوں کی بہادری کی ستائش بی جے پی رہنما اروند اگروال نے بھی کیا ہے ۔ اس سانحہ میں حوالدار جھنٹو علی شیخ کی جان کی قربانی کو بھی نہیں فراموش کیا جا سکتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردوں نے کسی کو ہلاک کرنے سے قبل اس کا مذہب جاننے یا اس سے کلمہ پڑھوانے کی ادا کہاں سے سیکھی یا انھیں ایسا کرنے کی ترغیب کہاں سے ملی اور انھیںکیوں اس کی ضرورت پڑی ؟ اس سوال کے جواب میں ان دنوں سوشل ایکٹیویسٹ ڈاکٹر میدوسا کا ایک پیغام کافی وائرل ہو رہا ہے کہ ’ دھرم پوچھ کر گولی مارنا آتنک واد ہے ، دھرم پوچھ کر لِنچ کرنا ، دھرم پوچھ کر گھر کرایہ پر نہ دینا ، دھرم پوچھ کر گھر بلڈوزکرنا وغیرہ وغیرہ بھی آتنک واد ہے اصلی آتنک وادی کو پہچانو‘۔ ڈاکٹر میدوسا کی بات میں بلا شبہ حقیقت پوشیدہ ہے ۔ سچ یہ ہے کہ تبریز کے قاتلوں یا ممبئی جانے والی ٹرین میں چیتن سنگھ کے ذریعہ مذہب پوچھ کر گولی مارنے جیسے سانحات میں اگر مذہب پوچھ کر زدکوب کئے جانے ، ان سے زبردستی جے شری رام کہلوانے اور پھر انھیں تڑپا تڑپا کر ہلاک کئے جانے کی واردات اور سانحات پر روز اوّل سے توجہ دی جاتی ، فرقہ وارانہ منافرت کی بڑھتی آلودگی کو روکنے کی کوششیں ہوتیں اور کچھ نہیں تو کم از کم حکومت کی جانب سے ایسے لوگوں کے لئے مذمتی بیان بھی سامنے آتے تو ایسے مذہبی منافرت پھیلانے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی ۔ حالانکہ ملک کے سیکولرازم پر یقین رکھنے والوں کی جانب سے ایسے سانحات کی مذمت کی گئی ہے اور حکومت سے ایسے متعصب لوگوں سے سختی سے پیش آنے کی گزارشیں بھی کی جاتی رہیں، لیکن افسوس کہ اب سے دس اگیارہ سال قبل منافرت کا جو دانستہ طور پر بیج بویا گیا تھا وہ اب تناور درخت ہو چکا ہے ۔اس درخت کی جڑوں میں کھاد پانی ڈالنے والوں اور اسے تناور بنانے میں ہمارے ملک کے میڈیا نے بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ یہ بات اب کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ گودی میڈیا ہمیشہ ملک میں تناؤ ، خلفشار پیدا کرنے ، مختلف مذاہب کے درمیان تفریق اور خلیج پیدا کرکے کمیونل سیاست دانوں کے مفادات کو پورا کرنے میں پیش پیش ہے ۔ ایک طرف جہاں گودی میڈیا آگ میں گھی ڈالنے کا کام کر رہا ہے وہیں دوسری جانب کشمیر کے میڈیا نے پہلگام سانحہ کے پیغام سے اپنے اخبارات کے پورے صفحہ کو سیاہ کر دیا ہے۔ گودی میڈیا کی ایسی منفی اور غیر صحافتی کوششوں کے مضر اثرات پورے ملک میں کس تیزی سے پھیل رہے ہیں اس کا اندازہ بعض سیاست دانوں اور اندھ بھکتوں کے مسلسل نفرت سے بجھے زہریلے بیانات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔اسی گودی میڈیا نے پہلگام سانحہ میں بھی پورے کشمیری مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیںچھوڑی ہے۔گودی میڈیا کے ایسی منفی کوششوں پر ایک طرف جہاں انھیں فرقہ وارانہ رنگ دینے کے خلاف شدید مذمت کا سامنا ہے وہیں کچھ فرقہ پرستوں کے ذریعہ ان کی ستائش بھی کی جا رہی ہے۔ ان کے ڈبیٹ میں شامل ہو کر فرقہ پرست خوب خوب منافرت اور اشتعال پھیلا رہے ہیں ۔سی پی آئی رہنما اور رکن اسمبلی محمد یوسف تاریگامی نے تو باضابطہ بعض ایسے اینکروں کے نام لے کر ان کی مذمت کی ہے ۔ پہلگام سانحہ کے بعدحکومت نے نیوز چینلوں کے لئے ایک ایڈوائزری جاری کی ہے جسے میں نے بڑی توجہ سے پڑھا کہ ضرور اس ایڈوائزری میں ان چینلوں کو منافرت نہ پھیلانے کی تاکید کی گئی ہوگی لیکن میری امید کی کرن کو بجھتے دیر نہیں لگی جب میں نے دیکھا کہ اس ایڈوائزری میں صرف یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ دفاعی آپریشنز اور فوجی نقل و حرکت کے حوالے سے احتیاط برتیں ۔ کشمیریوں نے اپنے حسن سلوک اور جذبۂ انسانیت سے گودی میڈیا کے نفرت بھری سازش کو سمجھتے ہوئے ان کے جال میں نہیں پھنسے اور جس طرح یکجہتی کے ساتھ کشمیریوں نے نہ صرف سیلانیوں کو ہر ممکن مدد پہنچائی بلکہ اپنے گھروں کے دروازے بھی ان کے قیام و طعام کے لئے کھول دئے، ساتھ ہی ساتھ ٹیکسی والوں ، خچر والوں آٹو والوں ، ہوٹل والوں نے سیاحوں کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا جذبہ دکھایا ہے ۔ اسے دیکھ کر ہر سیلانی نے ان کی تعریف کی ہے ۔ یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ ایک طرف جہاں ہوٹل والے ، ٹیکسی و آٹو والے ، خچر والوں نے سیاحوںسے کوئی پیسہ نہیں لیا بلکہ مفت میں ایئر پورٹ تک پہنچایا اور روپے پیسے سے بھی مدد کی لیکن افسوس کہ وہیں دوسری طرف ائیر ویز کمپنیوں نے’ آپدا میں بھی اوسر‘ تلاش کر لیا اور سری نگر سے دیگر شہروں کی ٹکٹیں کافی مہنگے دام میں فروخت کر کے بے بس اور مجبور سیاحوں کو خوب لوٹا ۔دیکھا جائے تو پہلگام سانحہ کے بعد کشمیریوں نے جس یکجہتی اور بھائی چارہ کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ہر ایک کے دل میں ان کے لئے ہمدردی اور محبت کا جذبہ بہت شدت سے پیدا ہواہے ۔ لیکن افسوس کہ گودی میڈیا کے غلط پروپیگنڈہ نے ان کی ایسی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا اور ملک کے مختلف حصوں میں تعلیم و تجارت کی غرض سے رہنے والے کشمیریوں کے ساتھ جو متعصبانہ سلوک کیا جا رہا ہے اور انھیں زدو کوب کئے جانے کی جس طرح کی خبریں اترا کھنڈ ، چنڈی گڑھ ، ہماچل پردیش اور ملک کے دیگر علاقوں سے موصول ہو رہی ہیں ۔ وہ بہت ہی افسوسناک ہے ۔ حالانکہ بی جے پی کے اروند اگروال سمیت کئی نیتاؤں نے کشمیریوں کے حسن سلوک کی کافی تعریف کی ہے ۔ اس کے باوجود کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے سلوک بہت ہی افسوسناک ہیں ۔ کشمیر کو تو ہم اپنے ملک کا اہم حصہ مانتے ہیں لیکن یہاں کے باشندوں سے اتنی شدید نفرت کیوں ہے۔؟ان کی معیشت کا انحصار ملک و بیرون ممالک سے آنے والے سیاحوں پر ہی ہے ۔ پہلگام کا یہ سانحہ ان کی معیشت کو تباہ و برباد کرنے کی ایک سازش بھی ہو سکتی ہے ۔ گزشتہ برس یعنی 2024 میں 2 کروڑ 35 لاکھ سیاحوں نے کشمیر کا سفر کیا تھا ،لیکن اس سانحہ کے بعد بڑے پیمانے پر سیاح اپنی بکنگ کینسل کرا رہے ہیں ۔ جس کے باعث کشمیریوں کی معاشی طور پر کمر ٹوٹ جائے گی۔ پہلگام حملہ کے بعد جو بہت سارے سوالات ابھر کر سامنے آ رہے ہیں ان میں ایک سوال یہ بھی آیا ہے کہ موندرا پورٹ سے 2,988 کلو پکڑی گئی ہیروئن کی کھیپ کو اڈانی کو لشکر طیبہ کے دہشت گرد وںکی فنڈنگ سے جوڑا جا رہا ہے ۔این آئی اے نے یہ بات سپریم کورٹ کو بتائی ہے ۔ اے این آئی نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ اس معاملے میں ایک اہم گواہ ایک سبکدوش کسٹم افسر مشکوک حالت میں مرے ہوئے پائے گئے ہیں۔ اس طرح کے اتنے سارے سوالات پہلگام حملے کے بعد سامنے آرہے ہیں کہ لوگوں کو ان کے جوابات کا انتظار ہے لیکن جواب کون اور کب دے گا ؟ یہ بھی ایک اہم سوال ہے ۔
( کالم نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں )
[email protected]