نقاب کے پیچھے سچائی

0

بی جے پی مسلسل کشمیر کی بدامنی کا الزام کانگریس پر عائد کرتی آئی ہے اور زعفرانی کیمپ کا مؤقف ہے کہ مسئلہ کشمیر کی جڑیں کانگریس کی کمزور قیادت میں پوشیدہ ہیں۔نہرو سے لے کر اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور منموہن سنگھ تک کوئی بھی اس تنقید سے محفوظ نہیںرہا۔ اسی پس منظرمیںمودی حکومت نے ’ایک قوم- ایک قانون‘ کے نظریے کو عملی جامہ پہنایا۔ اس سلسلے میں 5 اگست 2019 کو آئین کا آرٹیکل 370 منسوخ کر کے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی گئی اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوںجموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا گیا۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس اقدام کے بعد سے وادی میں عسکریت پسندی کم ہوئی ہے اور حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ اسی بھروسے پر ملک بھر سے اور بیرون ملک سے بڑی تعداد میں سیاح وادی کا رخ کر رہے تھے۔ موجودہ موسم سیاحت کیلئے انتہائی موزوں ہونے کی وجہ سے کشمیر میں سیاحوں کا ہجوم دیکھنے میں آیا۔ تاہم منگل کو پیش آنے والے دہشت گرد حملے نے ان پرامن خوابوں کو چکناچور کر دیا اور سیاحوں کو ایک خوفناک تجربے سے دوچار ہونا پڑا۔
پہلگام کی سرسبز وادیوں میں بہتا ہوا خون اور28 بے گناہ سیاحوں کی ہلاکت نے نہ صرف انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے بلکہ مودی حکومت کے بلند بانگ دعوؤں کی قلعی بھی کھول دی ہے۔ یہ وہی وادی ہے جسے کل تک اقتدار کے ایوانوں سے ’پرامن‘ اور ’نارمل‘ قرار دیا جاتا رہا۔ وہی کشمیر جہاں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے اعلانات کی گونج میں انتخابی فائدے سمیٹے جاتے رہے۔وہاں مغربی بنگال کے تین باشندوں سمیت 28 معصوم افراد کا بے رحمانہ قتل ہوااور 20 سے زائد سیاح زخمی ہوئے۔اس دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری لشکر طیبہ کی مقامی شاخ، دی ریزسٹنس فرنٹ نے قبول کی ہے اور یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ چار مشتبہ دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان فرار ہو چکے ہیں۔
یہاں ایک سادہ سا مگر خوفناک سوال ابھر کر سامنے آتا ہے کہ جب عسکریت پسند آئے تو ہم انہیں روک کیوں نہ پائے؟ اور جب وہ خون کی ہولی کھیل چکے تو ان کے فرارمیں مزاحم کیوں نہ ہوسکے؟ آخر مرکزی سیکورٹی فورسز کہاں تھیں؟ انٹلیجنس رپورٹیں کیوں ناکام ہوئیں؟ اور کب تک ’سخت کارروائی‘ جیسے بیانات عوام کے زخموں پر مرہم بننے کا دکھاوا کرتے رہیں گے؟
وزیراعظم اور ان کے رفقائے کار نے گزشتہ برسوں میں نہ صرف کشمیر کے حالات کو قابو میں ہونے کا دعویٰ کیا بلکہ ہر دہشت گردانہ واقعے کو اپنے سیاسی بیانیے کا ایندھن بنایا۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کو جس اعتماد کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کا نسخہ بتایا گیا تھا، وہ اب ایک خالی نعرہ معلوم ہوتا ہے۔ پلوامہ کے بعد بالاکوٹ اور پھر بلند بانگ دعوے کہ ہندوستان نے دہشت گردوں کو گھس کر مارا ہے، بھی بے بنیادفسانہ ہی ثابت ہوا۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ دہشت گرد آج بھی ہمارے سیاحوں کو بے دریغ نشانہ بنا رہے ہیں۔
اس المناک واقعے کے بعد حکومت کی روایتی ’سخت کارروائی‘ کی گونج سنائی دی۔ آل پارٹی اجلاس، کابینہ کمیٹی برائے سلامتی کا اجلاس اورپھر پاکستان کے خلاف زبانی طوفان اٹھا،مگریہ سب کچھ نیا نہیں۔ لیکن جو چیز مسلسل غائب ہے وہ ہے سنجیدہ خود احتسابی۔ آخر کب تک اس المیے کو پاکستان پر ڈال کر اپنی کوتاہیوں سے نظریں چرائی جائیں گی؟ کیا انٹلیجنس کی ناکامی، سیکورٹی میں رخنے اور زمینی حقائق کو نظرانداز کرنے کی قیمت ہمیشہ معصوم جانیں ادا کرتی رہیں گی؟
مودی حکومت کی ’زیرو ٹالرنس پالیسی‘ دراصل ’زیرو عملدرآمد‘ کی تصویر بنتی جا رہی ہے۔لیڈروں اور حکمرانوں کی تقریریں، تعزیتیں، دعوے اور دھمکیاں یہ سب مظلوموں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں جب تک کہ ان کا کوئی حقیقی عملی مظہر نظر نہ آئے۔ کشمیر کو محض سیاسی داؤ پیچ میں استعمال کرنے والوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ ظلم سہنے والوں کی آہیں کب تک خاموش رہیں گی؟
یہی وہ وقت ہے جب ہمیں جھوٹ کے پردے کو چاک کرنا ہوگا اور سچ کو آئینہ دکھانا ہوگا۔ عوام کو صرف دہشت گردوں سے نہیں بلکہ ان دعوؤں سے بھی خطرہ ہے جو سیاسی مفادات کیلئے گھڑے جاتے ہیں۔ اگر ہر سانحے کے بعد وہی لب و لہجہ، وہی مذمت، وہی وعدے دہرائے جائیں تو عوام کب تک ان لفظوں سے تسلی پاتے رہیں گے؟ عوام کو تحفظ چاہیے اور جواب دہی بھی۔مگر افسوس کہ یہاں صرف بیانات کی بارش ہے اور زمینی عمل کی پیاس ابھی تک بجھی نہیں۔
ملک کی سلامتی کوئی نعرہ نہیں، بلکہ ایک مسلسل جدوجہد ہے جو خلوص نیت، دانش مندی اور عملی بصیرت مانگتی ہے اور اگر اس جدوجہد کو محض انتخابی کامیابیوں کے زینے کے طور پر استعمال کیا جائے تو نہ صرف جمہوریت بلکہ انسانیت کا وقار بھی دائو پر لگ جاتا ہے۔
کیا وقت نہیں آ گیا کہ ہم نقاب کے پیچھے چھپی ان سچائیوں کو بے نقاب کریں جو دھوکہ دہی کے فسانوں سے ڈھکی گئی ہیں؟ کیونکہ پہلگام کے لہو میں صرف 28 جانیں نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی ضمیر کی چیخ بھی بہہ گئی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS