عبدالماجد نظامی
وادیٔ کشمیر جو دنیا بھر میں اپنے قدرتی حسن و جمال اور جاذب نظر و دلفریب فطری مناظر کے لیے مشہور ہے، وہ ایک بار پھر اس طرح لہولہان ہوئی ہے کہ ماضی قریب میں اس قدر کربناک اور دل دوز واقعہ کی مثال نہیں ملتی ہے۔ یہ حملہ صرف ان سیاحوں پر نہیں ہوا ہے جو اپنی زندگیوں کے بہتر اوقات اپنے اعزہ و اقارب اور دوست و احباب کے ساتھ گزارنے کے لیے پہلگام گئے تھے جو کشمیر کے سیاحتی مقامات میں سب سے مشہور اور سیاحوں کی دلچسپی و انتخاب کا بڑا مرکز ہے بلکہ یہ حملہ خود ان کشمیریوں کے خلاف بھی ہے جو اس امید میں پورا سال گزارتے ہیں کہ جب سیاحت کے موسم کا آغاز ہوگا تو ان کی روزی روٹی کا ذریعہ پیدا ہوگا اور سیاحوں کی خدمت کرکے وہ نہ صرف خوش ہوں گے بلکہ اپنی عمدہ خدمات اور پر امن ماحول کا بھروسہ دلاکر انہیں باور کرانے کی کوشش کریں گے کہ یہ جنت نشان ارضی کشمیر ہر اعتبار سے اس لائق ہے کہ اس کی زیارت و سیاحت کا پروگرام بار بار بنایا جائے۔ البتہ دہشت گردوں نے سیاحتی موسم کے بالکل آغاز میں سیاحوں پر بزدلانہ اور قابل مذمت حملہ کرکے کشمیریوں کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے، ساتھ ہی ملک کے الگ الگ حصوں میں کشمیریوں کو جن مسائل اور نفرت کے تیروں کا ہدف بننا پڑے گا، وہ اس پر مستزاد ہے۔ اب جبکہ یہ گھناؤنا عمل دہشت گردوں کے ذریعہ انجام دیا جا چکا ہے اور میڈیا کی ابتدائی رپورٹوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس اخلاق سوز دہشت گردانہ حملہ کے پیچھے لشکر طیبہ کی کسی ذیلی تنظیم کا ہاتھ ہے تو یہ ذمہ داری اب انٹلیجنس کے اداروں اور پولیس و انتظامیہ کی ہے کہ ان تمام شر پسند عناصر اور دہشت گردوں کا تعاقب کریں اور انہیں قرار واقعی سزا دلائیں۔ ساتھ ہی ان دماغوں اور ہاتھوں کا بھی پتہ لگائیں جنہوں نے دہشت گردوں کے ذریعہ اس ہولناک حملہ کو انجام دلوایا ہے۔ اس معاملہ میں یہ ضروری ہے کہ جذبات کی بنا پر کوئی غیر ذمہ دارانہ طریقہ نہ اختیار کیا جائے ورنہ اس کا پورا فائدہ دہشت گرد اور ان کے حامی اٹھائیں گے۔ دہشت گردوں نے جان بوجھ کر سیاحوں کا مذہب پوچھ کر انہیں اپنی نفرت کا شکار بنایا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی مجرمانہ حرکت کو کسی بھی طور پر جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے، اس لیے تمام اوباشوں کی طرح ان دہشت گردوں نے بھی مذہب کا لبادہ اوڑھا ہے تاکہ وہ اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو جواز فراہم کرسکیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ چونکہ ہندوستان میں مذہب کے نام پر شب و روز دشنام طرازی ہوتی ہے اور ایک خاص طبقہ کو ان کے مذہب و عقیدہ کے لیے نشانہ بنایا جاتا ہے، اس لیے ایک منقسم سماج کے زود اشتعال اور تنگ نظر لوگوں کی نظر میں مسیحائی کا ڈھونگ رچنے کا بھی یہ عمل ہوسکتا ہے۔ لیکن ان انسانیت سوز حرکتوں کے مجرموں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ کسی بھی طرح اپنے جرم کی شناعت کو چھپا نہیں سکتے ہیں۔ جس مذہب کا لبادہ اوڑھ کر وہ ایسی حرکت انجام دے رہے ہیں، اس میں اس بات کی قطعاً گنجائش نہیں ہے کہ معصوموں اور بے قصوروں کی زندگیوں کو ختم کرنے کا کوئی جواز حاصل کر پائیں گے۔ تحقیقاتی اداروں کو اس بات کا پتہ لگانے کی بھی کوشش کرنی چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی ایسی تنظیم وادی میں سرگرم عمل ہے جو ایک خاص عقیدہ کا استعمال کرکے پورے ملک میں بد امنی کا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے۔ ویسے بھی گزشتہ ایک دہائی سے ہمارا ملک مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں میں ایک کھلونا بن چکا ہے اور کسی بھی معقول فکر و نظر کے بجائے صرف مذہبی منافرت کو جگہ دی جاتی ہے اور میڈیا اور بعض سرکاری ادارے تک اس عمل میں شامل رہتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہم ہر معاملہ میں فوراً ہی قربانی کا بکرا ڈھونڈنے کے عادی ہوچکے ہیں یا فوری انصاف کے نام پر کسی موہوم دشمن پر سارا الزام ڈال کر خوش ہوجاتے ہیں اور ذہنی تسکین کا سامان تیار کرلیتے ہیں۔ اس طرز عمل کی وجہ سے اصل مجرموں تک رسائی کی سنجیدہ کوشش نہیں ہوپاتی ہے۔ معصوم شہری اپنی جانیں بھی گنواتے ہیں اور الزام بھی ایک دوسرے پر ڈالتے رہتے ہیں۔ ہمیں یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ آخر کب تک معصوم لوگ اپنی جان کی قربانیاں پیش کرتے رہیں گے؟ وہ لوگ بھی معصوم ہوتے ہیں جو دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں اور وہ کشمیری بھی بے قصور ہوتے ہیں جنہیں وادی سے باہر ہر وقت خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اپنے ہی ملک کے الگ الگ حصوں میں انہیں خوف کے سایہ میں جینا پڑتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کی ذمہ داری سرکار، پولیس اور انتظامیہ کی ہے کہ وہ ہر شہری کی حفاظت کا مضبوط انتظام کرے اور ملک و سماج کو ہم آہنگی کی ڈور سے باندھ کر رکھے تاکہ کوئی دہشت گرد مذہبی منافرت کو بنیاد بناکر کسی معصوم شہری کو اپنا نشانہ نہ بنائے۔ موجودہ سرکار کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جانی چاہیے کہ اگر پلوامہ کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دی گئی ہوتی تو شاید پہلگام کا دل دوز واقعہ پیش نہ آتا۔ اب کم سے کم اس کا انتظام ضرور کیا جائے کہ پہلگام کے دہشت گردانہ حملہ کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے تاکہ متاثرین کے اہل خانہ کو تھوڑی تسلی ملے اور وادی کے لوگوں کو پرامن ماحول میں اپنا کام کاج کرنے کا یقین پیدا ہوجائے۔ یہ حملہ اس اعتبار سے بھی غیر معمولی ہے کہ دہشت گردوں نے اس حملہ کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا جبکہ وزیراعظم سعودی عرب کے دورہ پر تھے اور امریکی نائب صدر ہندوستان میں موجود تھے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ عاصم منیر نے کشمیر کے حوالہ سے جو اپنا متنازع بیان کچھ دنوں قبل دیا تھا، اس کو بھی پیش نظر رکھ کر اس حملہ کو دیکھا جانا چاہیے کہ کہیں یہ سارے واقعات باہم مربوط تو نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پورے ملک کو متحد ہوکر اس خطرہ کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ جن برادران وطن کی معصوم زندگیاں اس بزدلانہ حملہ میں تباہ ہوگئی ہیں، ان کے اعزہ و اقرباء کو مغموم دل سے تعزیت پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ انہیں اس درد کو برداشت کرنے کی ہمت ملے۔ پورا ملک اس غم میں ان کے شریک حال ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]